ہمیں آزادی کب ملے گی؟

عیدالاضحی کی تعطیلات کے دوران فیملی دعوتوں اور میل ملاقات کے دوران بڑوں کے علاوہ بہت سے نوجوانوں کے ساتھ بے تکلف بات چیت اور تبادلۂ خیالات کے مواقع ملے۔ نوجوان بچے اور بچیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں۔ ملک کے اعلیٰ تعلیمی اداروں کے علاوہ غیر ملکی یونیورسٹیوں اور کالجوں سے فارغ التحصیل یا وہاں زیر تعلیم ہیں۔ بعض عزیزان اندرونِ ملک اور بعض امریکہ و آسٹریلیا اور سعودی عرب وغیرہ میں برسرروزگار ہیں۔ جہاں تک ملک کے اندر گریڈ اٹھارہ تک کے ملازمین اور بزنس سے منسلک نوجوانوں کا تعلق ہے وہ مہنگائی کی آخری لہر سے بے حد پریشان ہیں۔ ملازمت سے وابستہ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ جس تنخواہ میں پہلے کھینچ تان کر گزارہ ہو جاتا تھا اب اس میں سفید پوشی کا بھرم قائم رکھنا ناممکن ہو گیا ہے۔ بزنس سے وابستہ نوجوانوں کا کہنا ہے کہ ہر شے کی پیداواری لاگت ڈیڑھ سے دو گنا ہے مگر نئی قیمت پر طلب نہ ہونے کے برابر ہے۔ انہوں نے تعمیراتی شعبے اور قربانی کے جانوروں کی فروخت میں اٹھائے گئے بھاری نقصانات کی مثالیں دے کر اپنی بات کو واضح کیا۔ یہ نوجوان بھی اب سنجیدگی کے ساتھ بیرون ملک جانے کیلئے پَر تول رہے ہیں۔
ایک بات پر اندرونِ ملک اور بیرونِ ملک مقیم عزیزوں کا اتفاق تھا کہ ہمارے ملک میں نوجوانوں کیلئے صاف ستھری سیاست میں حصہ لینے کی کوئی صورت ہے اور نہ ہی روزگار کے مناسب مواقع میسر ہیں۔ان نوجوانوں کے تیکھے سوالوں میں سب سے مشکل سوال یہ تھا کہ ہمیں آزادی کب ملے گی؟ عزیزوں سے عرض کیا کہ آپ کا سوال مشکل ضرور ہے مگر ہماری تاریخ‘ سیاست‘ معیشت اور معاشرت کے اعتبار سے یہ اہم ترین ہے۔ میں نے وعدہ کیا کہ میں اُن کے سوال کا جواب اپنے کالم میں دوں گا۔
صدیوں پہلے ہندوستان کے طول و عرض میں کئی خوشحال بستیاں آباد تھیں۔ ان آبادیوں کے راجے مہاراجے عیش و عشرت کی زندگی گزارتے اور انہیں پالنے والی رعایا بیلوں کی طرح گڈوں میں جتی رہتی تھی۔ ان راجوں کے بعد ہندوستان میں مغل بادشاہوں اور شہنشاہوں کا دور آ گیا مگر تب بھی رعایا کی حالت نہ بدلی۔ حکمرانوں نے شمشیر و سناں سے ناتا توڑا ‘ طاؤس و رباب سے ناتا جوڑا اور رعایا کو نظر انداز کیا تو ان پر تاجروں کے روپ میں انگریز چڑھ دوڑے۔ اُن سے 1947ء میں جان چھوٹی تو سمجھا جا رہا تھا کہ نئے ملک میں ہمیں حقیقی آزادی مل جائے گی اب بندہ و آقا کی تفریق ختم ہو جائے گی۔ ان آزاد شہریوں کا خیال تھا کہ اب وہ بھی ملک کی قسمت سنوارنے اور اس کی مانگ میں سندور بھرنے کیلئے اپنا کردار ادا کر سکیں گے۔ وا حسرتا ایسا نہ ہو سکا۔
اگرچہ تحریک پاکستان کے دوران زمینداروں اور جاگیرداروں نے قائداعظم محمد علی جناح کی پکار پر مسلم لیگ میں شمولیت اختیار کر لی تھی۔ قائداعظم کا خیال تھا کہ تحریک پاکستان میں شمولیت کے ساتھ ہی ان وڈیروں نے اپنا نقطۂ نظر یکسر تبدیل کر لیا ہوگا اور انہوں نے اپنے آپ کو ایک نئے آزاد ملک کے تقاضوں کے مطابق ڈھال لیا ہوگا ‘مگر ایسا نہ ہوا جس کا خود قائد کو بھی بڑا قلق تھا۔ 24اپریل 1943ء کو مسلم لیگ کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے فرمایا ''یہاں میں اُن جاگیرداروں‘ زمینداروں اور سرمایہ داروں کو وارننگ دینا چاہتا ہوں جو ایک ایسے سسٹم کے ذریعے امیر تر ہو گئے ہیں کہ جو سسٹم منحوس بھی ہے اور بدمعاش بھی۔ یہ حرص و ہوس میں ڈوبے ہوئے ہیں۔ یہ اسلام کا درس بھول چکے ہیں۔ کیا یہ پاکستان کا مقصد ہے‘ میں دیہات میں گیا ہوں وہاں مجھے مفلوک الحالی نے تڑپا دیا ہے۔ لاکھوں ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کا کھانا بھی نہیں ملتا۔ اگر پاکستان میں یہی کچھ ہونا ہے تو مجھے ایسے پاکستان کی ضرورت نہیں۔ یہ عقل مند لوگ ہیں‘ نئے ملک میں یہ اپنے روّیے بدل لیں گے۔ اگر نہیں بدلیں گے تو خود ذمہ دار ہوں گے‘‘۔
ان ''عقل مند لوگوں‘‘ نے نئے ملک میں اپنے رویے ہرگز نہیں بدلے۔ بلکہ ان کی دیکھا دیکھی پہلے بیورو کریسی اور پھر آمریت نے ان کے ساتھ مل کر ''ادوارِ غلامی‘‘ کے تسلسل میں حکمرانی کو جاری رکھا اور آج 75برس کے بعد بھی وطنِ عزیز میں انسان دو بڑے طبقوں میں تقسیم ہیں۔ ایک استحصال کرنے والے تاجدار دوسرے استحصال کا شکار عوام الناس۔انہی طبقات کو ساتھ ملا کر کبھی براہ راست اور کبھی بالواسطہ ملک پر حکمرانی کی جا رہی ہے۔ اگرچہ کبھی کبھی انتخابات ہوتے ہیں جن میں عوام ووٹ دینے کی رسم پوری کرتے ہیں مگر الیکٹ ایبلز کو ہی منتخب کرتے ہیں۔ نوجوانوں کا ایک انتہائی تیکھا سوال یہ بھی تھا کہ کیا کبھی ہم عوام میں سے کوئی اس ملک میں پاکستانی نژاد برطانوی صادق خان کی طرح میئر منتخب ہو سکے گا‘ جس کا والد امان اللہ 1970ء کی دہائی میں لندن میں بس ڈرائیور تھا یا برطانیہ عظمیٰ کی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار ساجد جاوید جس کا پاکستانی والد عبدالغنی جاوید بھی بس ڈرائیور تھا‘ کی طرح کسی مزدور کا بیٹا بھی پاکستان کا وزیراعظم منتخب ہو سکے گا؟ میں نے جواب دیا: مجھے مستقبل قریب میں تو ایسی تبدیلی دکھائی نہیں دیتی جہاں تک مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کا تعلق ہے تو وہ علی الاعلان موروثی سیاست پر دل و جان سے یقین رکھتی ہیں۔ اوراپنے اپنے جانشینوں کی تاج پوشی کیلئے سرگرم عمل ہیں۔
پاکستان میں سلطانیٔ جمہور کا نعرہ لگا کر کچھ قائدین اٹھے تھے مگر بالآخر وہ بھی رسم کہنہ کا ہی شکار ہو گئے۔ ذوالفقار علی بھٹو کہ جو ایوب خان مارشل لاء کے دوران مختلف وزارتوں سے ہوتے ہوئے وزیر خارجہ بنے۔ پھر وہ ایوب خان کے خلاف برسرپیکار ہو کر عوامی اقتدار و انقلاب کے علمبردار بن گئے۔ 1970ء کے انتخابات میں انہوں نے فی الواقع عوامی نمائندوں کو اپنا امیدوار بنایا۔ عوام الناس نے ذوالفقار علی بھٹو کی پکار پر لبیک کہا اور عوامی امیدواروں کو بھاری اکثریت سے کامیاب کرایا؛ تاہم ذوالفقار علی بھٹو چاہتے تو وہ مجیب الرحمن کی اکثریت تسلیم کر کے سلطانی ٔجمہور کا آغاز کر سکتے تھے مگر بوجوہ ایسا نہ ہو سکا۔ بھٹو صاحب 91ہزار جنگی قیدیوں کو واپس لا کر اور 1973ء کا متفقہ دستور بنوا کر چاہتے تو مقتدرہ سے سیاست کو آزاد کروا سکتے تھے اور سیاست دانوں کے ساتھ مل کر ملک میں حقیقی جمہوریت رائج کر سکتے تھے مگر 1977ء تک وہ ''طاقت کا سرچشمہ عوام‘‘ کو بھول چکے تھے اور بلامقابلہ منتخب ہونے اور دوتہائی اکثریت حاصل کرنے کیلئے الیکٹ ایبلز کی استحصالی سیاست کی طرف مراجعت اختیار کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب نے اپنی بے پناہ مقبولیت کو عوام کی طرف منتقل کرنے کے بجائے اپنی ذاتی شہرت و عظمت کو ترجیح دی۔ باقی تاریخ ہے۔
تقریباً ربع صدی قبل جناب عمران خان نے اپنی مقبولیت کی بنا پر یہاں عدل و انصاف پر مبنی سلطانیٔ جمہور کے قیام کیلئے پاکستان تحریک انصاف قائم کی تاہم 2018ء تک انہوں نے حصولِ اقتدار کیلئے ''کمپرومائزڈ‘‘ ون پیج سیاست اختیار کرلی۔ وہ برسراقتدار آ گئے مگر انہوں نے پونے چار سال اپوزیشن کو دیوار سے لگانے میں صرف کر دیے۔ اس دوران معیشت کمزور سے کمزور تر ہوتی چلی گئی۔ ذوالفقار علی بھٹو نے تو پہلی بار عوامی نمائندوں کو ہی انتخابی ٹکٹ دیے تھے مگر عمران خان نے پہلی بار بھی الیکٹ ایبلز کو ٹکٹ دیے تھے۔ عمران خان کے دعووں کے برعکس اُن کے وزیروں کی فوج ظفر موج انہی موروثی استحصالی سیاست دانوں پر مشتمل تھی جن کے اجداد کو قائداعظم نے اپنے رویے بدلنے کی تلقین کی تھی۔اب خان صاحب قوم کو امریکی غلامی سے نجات دلوانے کے بلند بانگ نعرے لگا رہے ہیں۔ جب تک خان صاحب سمیت سارے سیاست دان صدق ِدل سے میثاقِ سیاست و معیشت نہیں کر لیتے اس وقت تک ہمیں حقیقی آزادی نصیب نہیں ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں