پاکستانی جمہوریت کا حسن

ہر گزرتے دن کے ساتھ پاکستانی جمہوریت کا حسن مزید نکھرتا جا رہا ہے۔ ہمارے ارکانِ اسمبلی کی ''حفاظت‘‘ کے لیے پہلے انہیں جنگلوں اور سوات جیسے دور دراز حسین و جمیل پہاڑی علاقوں کی سیر کرائی جاتی تھی تاکہ ہر پارٹی کے پری زاد ارکانِ اسمبلی کو غیروں کی ''نظر بد‘‘ سے بچایا جا سکے۔ اب اس حفاظتی کلچر میں حسین اضافہ یہ ہوا ہے کہ اب شہر کے اندر ہی ہوٹلوں کو ریزرو کروا لیا جاتا ہے تاکہ انہیں بوقت ضرورت کارروائی کے لیے پیش کیا جا سکے۔
ادھر قومی اسمبلی کے بعد اب تحریک انصاف مسلم لیگ (ن) پر اور (ن) لیگ پی ٹی آئی پر ارکانِ پنجاب اسمبلی کی خریدو فروخت کے الزامات لگا رہی ہیں۔ مولانا الیاس چنیوٹی ممتاز عالم دین مولانا منظور چنیوٹی کے صاحبزادے ہیں۔ ان کا تعلق مسلم لیگ (ن) سے ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ حج پر تھے وہاں بھی اُن سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی اور چودھری پرویز الٰہی کے حق میں ووٹ دینے کے لیے دس کروڑ روپے کی پیشکش کی گئی‘ اسی طرح تحریک انصاف کے کئی ممبرانِ اسمبلی نے بھی بیان دیا کہ انہیں حمزہ شریف کے حق میں فی ووٹ تیس‘ پینتیس کروڑ تک کی آفر کی گئی۔ بہرحال خوب دھول اڑ رہی ہے اور جمہوریت کا حسن اس سے نکھر رہا ہے یا بگڑ رہا ہے‘ اس کا فیصلہ بہرحال اہلِ نظر کو کرنا ہے۔ وفاداریاں بدل لینا‘ راتوں رات پارٹی تبدیل کر لینا‘ سیاسی پرندوں کا ایک آشیانے سے اُڑ کر دوسرے آشیانے پر جا بیٹھنا معمول کی بات ہے۔ پنجاب اسمبلی میں تحریکِ عدم اعتماد پیش کرکے مسلم لیگ (ن) نے کامیابی حاصل کی اور حمزہ شہباز وزیراعلیٰ بن گئے۔ منحرفین کی 20سیٹوں کے ضمنی الیکشن میں تحریک انصاف کی 15سیٹوں پر کامیابی سے پانسا پلٹ گیا۔ اب پارٹی پوزیشن یہ ہے کہ پنجاب اسمبلی میں سیٹوں کی کل تعداد 371 ہے۔ اس وقت تحریک انصاف کے پاس ضمنی الیکشن میں جیتی ہوئی 15سیٹیں اور (ق) لیگ کی دس سیٹیں ملا کر کل 188 سیٹیں بنتی ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کی نشستوں میں اگر پیپلز پارٹی کی 7 اور راہِ حق پارٹی کی 1 نشست اور چارآزاد امیدوار شامل کر دیے جائیں تو ان کی تعداد 179ہو جائے گی۔ جب ہفتے کے روز آپ یہ کالم پڑھ رہے ہوں گے تو اس وقت تک پنجاب حکومت کا اونٹ کسی کروٹ بیٹھ چکا ہوگا۔ تاہم مجھے نہیں لگتا کہ اونٹ اتنی آسانی سے بیٹھ جائے گا۔ ہماری سیاسی پارٹیوں بالخصوص تحریک انصاف کے قائد عمران خان نے ''میں نہ مانوں‘‘ کو ایک سیاسی پالیسی کے طور پر اختیار کر رکھا ہے۔
ایوان کا کوئی فیصلہ آئے تو خان صاحب کہتے ہیں کہ یہ امریکی سازش ہے‘ اس لیے میں نہیں مانتا۔ اسی طرح اگر عدالتِ عالیہ یا عدالتِ عظمیٰ کوئی حکم صادر کرتی ہے اور وہ خان صاحب کے مزاج کے خلاف ہوتا ہے تو وہ سو حیلوں بہانوں سے اس پر عملدرآمد کو ٹالتے رہتے ہیں۔ حقیقی جمہوری کلچر تو یہ ہے کہ مغربی دنیا میں جب کوئی پارٹی یا پارلیمنٹ کسی وزیراعظم یا اپنے کسی عہدیدار کے بارے میں جو فیصلہ کرتی ہے تو وہ بلاچون و چراں سرتسلیم خم کر لیتا ہے۔ برصغیر میں سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے کی تاریخ بہت پرانی ہے۔ قیام پاکستان سے پہلے بھی یہ سیاسی کلچر رائج تھا۔ پاکستان میں ہارس ٹریڈنگ کے وسیع پیمانے پر رائج ہونے کا غالباً اہم سبب یہ ہے کہ امیدوار پارٹی وابستگی کی بنا پر کم اور اپنے مالی و سماجی اور سیاسی اثر و رسوخ کی بنا پر زیادہ کامیابی حاصل کرتا ہے۔ سیاسی پارٹیاں بھی پارٹی کے ساتھ سو فیصد کمٹمنٹ رکھنے والے کارکنوں کے بجائے اِنہی الیکٹ ایبلز کو انتخابی ٹکٹ جاری کرتی ہیں۔ 1937ء میں پنجاب میں ہونے والے عام انتخابات میں یونینسٹ پارٹی نے 175کے ایوان میں سے 99سیٹیں جیتی تھیں اور آل انڈیا مسلم لیگ کو صرف دونشستیں حاصل ہوئی تھیں۔ تاہم 1945ء کے اواخر تک یونینسٹ پارٹی کے متعدد معروف افراد مسلم لیگ میں چلے گئے۔ اس تبدیلی میں کسی مالی منفعت کا کوئی ہاتھ نہیں تھا اور نہ ہی بارسوخ لوگوں کے اندر نظریۂ پاکستان کے حق میں کوئی فکری و نظری تبدیلی آئی تھی۔ بات صرف اتنی تھی کہ ان الیکٹ ایبلز نے مستقبل میں برصغیر میں آنے والی تبدیلی کے بارے نوشتۂ دیوار پڑھ لیا تھا۔ تاہم وہ اپنے اسی لچکدار سیاسی کلچر کے ساتھ ہی مسلم لیگ میں آئے تھے۔ اسی لیے جب 1957ء میں اس وقت کے پاکستانی صدرا سکندر مرزا نے کنگ پارٹی کے طور پر ری پبلکن پارٹی قائم کی تو راتوں رات اکثر ممبرانِ اسمبلی مسلم لیگ کو خیر باد کہہ کر نئی پارٹی میں شامل ہو گئے تھے۔ اس کلچر کی روح میں کوئی فرق واضح نہیں ہوا‘ البتہ نئے زمانے کے نئے صبح و شام کی ضروریات کے مطابق وفاداریاں بدلنے کے انداز بدل گئے ہیں۔ یہ کلچر چھانگا مانگا‘ سوات اور مری وغیرہ سے ہوتا ہوا اب قصہ زمیں برسر زمیں کے طور پر واپس لاہور پہنچ چکا ہے۔ بظاہر نمبر گیم تحریک انصاف کے حق میں ہے مگر اس کے باوجود انہیں اندر سے دھڑکا لگا ہوا ہے کہ کہیں اُن کا سامنا کسی دھوبی پٹکے سے نہ ہو جائے۔ اسی لیے انہوں نے ایک بار پھر الزامی سیاست کو نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے کہ ممبران کی خرید و فروخت کی منڈیاں لگ گئی ہیں۔ اگر بڑی پارٹیوں کے سیاست دان اسی کشاکش کا شکار رہیں ہے اور عمران خان ''چوروں اور ڈاکوؤں‘‘ کے ساتھ مل بیٹھ کر سیاسی معاملات کو حل نہیں کرے گا تو پھر چارو ناچار نیوٹرلز کو متحرک ہونا پڑے گا جو کہ ملک کے لیے ہرگز کیوں نیک شگون نہیں۔
دوسری طرف حکومت اور اپوزیشن جس کشتی میں بیٹھ کر سیاسی کھیل کھیل رہی ہیں‘ وہ کشتی بری طرح ڈگمگا رہی ہے۔ 19جولائی کی شام کو امیر جماعت اسلامی جناب سراج الحق نے لاہور کے ایک مقامی ہوٹل میں ماہرین معیشت‘ علمائے کرام اور دانشوروں کا ایک مشاورتی اجلاس بلایا۔ اس اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آج اسی شہر لاہور میں کوئی حکومت بنانے کے لیے اور کوئی حکومت گرانے کے لیے جوڑ توڑ اور صلاح مشورہ کر رہا ہے مگر کسی کو فکر نہیں کہ ملک میں گزشتہ تین ماہ کے دوران مہنگائی تین گنا بڑھ چکی ہے۔ آئی ایم ایف ہم پر کڑی سے کڑی شرائط عائد کر رہا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ان سیاست دانوں کو اس وقت اپنی اپنی سیاست بچانے کے بجائے ملک کی معیشت کی فکر کرنی چاہیے اور کروڑوں لوگوں کو بھوک و افلاس کا شکار ہونے سے بچانا چاہیے۔اجلاس میں اس فقیر نے گزارش کی قوم کو معلوم ہونا چاہیے کہ اس وقت ہم جس شدید نوعیت کے معاشی بحران کا شکار ہیں وہ بحران ہے کیا؟ گزشتہ دو اڑھائی دہائیوں سے ہم آئی ایم ایف‘ ورلڈ بینک اور دیگر دوست ملکوں سے قرض در قرض لے رہے ہیں۔ اسی قرض سے کارخانے لگانے اور روزگار کے مواقع پیدا کرنے کے بجائے ہم 40 فیصد سود کی مد میں سالانہ ادا کر رہے ہیں۔ ڈالر 225روپے کا ہو چکا ہے۔ ہمارے پاس صرف 9.8بلین ڈالرز ہیں جو بمشکل اگلے چارہفتوں کی درآمدات کے لیے کافی ہوگا۔ اور اس کے بعد کیا ہوگا؟ یہ سوچیں تو چار سو اندھیرا ہی اندھیرا دکھائی دیتا ہے۔
سیاست دان گنتی اور جمہوریت کے حسن کو چار چاند لگانے کے کھیل میں مشغول ہیں اور پاکستان اُن پانچ چھ ممالک میں شامل ہے جو کسی بھی وقت ڈیفالٹ ہو سکتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں