مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

ان دنوں ملک بھر میں بالعموم اور بلوچستان میں بالخصوص سیلاب کی تباہ کاریاں عروج پر ہیں۔ کہیں سیلاب زدہ بے بس لوگ ٹیلوں پر‘ کہیں درختوں کی شاخوں پر اور کہیں بوسیدہ کچے پکے مکانوں کی چھتوں پر بھوکے پیاسے پناہ لینے پر مجبور ہیں۔ یہ ''پناہ گاہیں‘‘ کسی لمحے بھی اپنے پناہ گزینوں سمیت سیلابی ریلوں کا شکار ہو سکتی ہیں۔ ان کے سینکڑوں پیارے پہلے ہی سیلابی ریلوں میں بہہ چکے ہیں اور ان کے مال مویشی پانی کی نذر ہو چکے ہیں۔ ادھر ہمارے سیاست دانوں کی بے نیازیاں بھی اپنے عروج پر ہیں۔ وہ خوابِ غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں اور اپنے سیاسی کھیل تماشے میں مشغول ہیں۔ انہیں کچھ خبر نہیں کہ ان کے اردگرد خلقِ خدا کن آفات و مصائب میں گھری ہوئی ہے۔ ایسے میں میر تقی میر یاد آئے ہیں‘ فرماتے ہیں ؎
کن نیندوں اب تو سوتی ہے اے چشمِ گریہ ناک
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
میر صاحب کے مصرعے کو پروین شاکر نے اپنے مخصوص لب و لہجے میں یوں استعمال کیا ہے ؎
اے آنکھ‘ اب تو خواب کی دنیا سے لوٹ آ
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا
اور ڈاکٹر خورشید رضوی کا شعر بھی ملاحظہ کر لیجیے ؎
اے محوِ خواب‘ غُرفہ نشیں جھانک کر تو دیکھ
کن سیڑھیوں پہ ہے کفِ سیلاب زینے میں
بلوچستان میں بارشوں کا تیس سالہ ریکارڈ ٹوٹا ہے۔ اس سال بارشیں کئی سو گنا زیادہ ہوئیں اور مسلسل ہو رہی ہیں۔ کوئٹہ‘ قلعہ سیف اللہ اور لسبیلہ میں بہت تباہی ہوئی ہے۔ 30جولائی کو وزیراعظم شہباز شریف نے بلوچستان سے تعلق رکھنے والے اتحادی رہنمائوں کے ساتھ ہیلی کاپٹر میں صوبے کا فضائی دورہ کیا۔ بلوچستان میں ہزاروں افراد بے گھر‘ فصلیں تباہ اور بستیاں اجڑ گئی ہیں۔ اس وقت تک یہاں 127 افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ سیبوں سے لدے ہوئے درخت طوفانی لہریں اپنے ساتھ بہا کر لے گئی ہیں۔ پاک ایران ریلوے سروس معطل ہو چکی ہے۔
سندھ میں اب تک ایک سو افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔ بارشوں کے موسم میں کراچی میں ہر سال بے پناہ تباہی ہوتی ہے۔ بھارت نے دریائے راوی میں بھی پانی چھوڑ دیا ہے جس کے باعث لاہور اور قصور میں ہائی الرٹ جاری کر دیا گیا ہے۔ لاہور میں راوی کنارے سابق وزیراعظم عمران خان ایک عالمی معیار کا شہر بسانے پر مصر ہیں جبکہ بعض ماہرین کے نزدیک راوی میں بھی طغیانی آ سکتی ہے جو اس رہائشی منصوبے کے لیے خطرناک ثابت ہو گی۔
یہ آج کی بات نہیں گزشتہ پچھتر برس سے اب تک ہمارا ملک ہر سال سیلابوں کی زد میں آتا ہے۔ ہم عمومی طور پر پانی کی قلّت کا شکار ہیں۔ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے ہم بارانِ رحمت کی دعائیں کرتے ہیں۔ اگر بارش نہ ہو تو بارانی علاقوں میں قحط کا اندیشہ بڑھ جاتا ہے۔ اگر فصلیں نہیں ہوں گی تو انسانوں کی خوراک اور مویشیوں کا چارہ کہاں سے آئے گا؟ اس کے لیے ہم نمازِ استسقاء ادا کرتے ہیں۔ اللہ کے حضور گڑ گڑاتے ہیں اور جب بارانِ رحمت ہر شے جل تھل کر دیتی ہے تو پھر ہم اپنی غفلت اور ناقص منصوبہ بندی کی وجہ سے سیلابوں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ ہمارے حکمران ذوالفقار علی بھٹو سے لے کر شہباز شریف تک مخصوص ''سیلابی ٹوپیاں‘‘ اوڑھ کر ڈوبتے ہوئوں کی بے بسی کا نظارہ کرتے ہیں۔
آج کے وزیراعظم پاکستان میاں شہباز شریف بارش کی تباہ کاریوں کا جائزہ لینے کے لیے بلوچستان کا فضائی دورہ کر رہے ہیں اور کہیں کہیں سیلاب زدگان کی اشک شوئی کا بھی کچھ نہ کچھ اہتمام کر رہے ہیں البتہ جماعتِ اسلامی عملاً ہر جگہ پہنچ کر سیلاب زدگان کی مدد کر رہی ہے۔ سید مراد علی شاہ ہیلی کاپٹر میں سندھ کے سیلاب زدگان کا جائزہ لیتے ہوئے ٹی وی سکرینوں پر دکھائے جا رہے ہیں؛ تاہم ہمارے حکمران سیلابوں کے مستقل تدارک کے لیے ابھی تک کوئی ٹھوس منصوبہ بندی کر سکے ہیں اور نہ کوئی عملی پیش رفت کر سکے ہیں۔
امریکہ میں ایک مقام پر نہیں کئی علاقوں میں سیلابوں کی مستقل روک تھام ایسے منصوبوں سے کی گئی ہے کہ جن کے ذریعے سیلابی ریلوں کو نہروں کی صورت میں آبادیوں سے نکال کر ڈیموں میں پہنچایا جاتا ہے اور وہاں قائم کردہ پن بجلی گھروں کے ذریعے سستی بجلی پیدا کی جاتی ہے اور جو برائے نام نرخوں پر گھروں کو ٹھنڈا گرم کرنے حتیٰ کہ کھانا تک پکانے کے کام آتی ہے۔ اسی طرح کے کئی اہم منصوبے ہمارے پڑوسی ملک چین میں ریکارڈ مدت کے دوران مکمل کیے گئے ہیں ۔
پنجاب میں بارشوں کا پانی زمانوں سے قدرتی نالوں میں بہہ کر آبادیوں سے نکل کر دریائوں میں جا گرتا تھا۔ اب ان نالوں کے کناروں پر آبادیاں اور بستیاں تعمیر کر دی گئی ہیں۔ جب بارشیں ہوتی ہیں تو پانی ان قدرتی گزرگاہوں کے ذریعے آگے نکلنے کا رستہ نہیں پاتا تو وہ آبادیوں کو تباہ و برباد کر دیتا ہے۔ ایسی ہی گزرگاہوں سے آنے والے پانی کو کالا باغ ڈیم میں محفوظ کرنے کا ایک عظیم منصوبہ سیاست کی نذر ہو چکا ہے۔
پاکستان کا سب سے بڑا شہر کراچی ہر سال موسم برسات میں خوفناک تباہی سے دوچار ہوتا ہے۔ اگر سندھ کے حکمران یا بلدیہ عظمیٰ کراچی سو فیصد دیانت و امانت کی یقین دہانی کرائیں تو ملک کے اندر اور ملک سے باہر مقیم اہلِ کراچی اپنے شہر کو مستقلاً سیلابوں سے محفوظ بنا سکتے ہیں۔ وہاں ڈیم تعمیر کرکے اہلِ شہر کو پینے کا صاف شفاف میٹھا پانی بھی مہیا کر سکتے ہیں۔ کراچی سے تعلق رکھنے والے انجینئروں اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر ہم امریکہ اور خلیج کے ملکوں کو سیلابوں سے محفوظ رکھنے کے لیے اپنی صلاحیت و مہارت استعمال کر سکتے ہیں تو اپنے شہر اور پاکستان کے تجارتی و صنعتی مرکز کو مثالی شہر کیوں نہیں بنا سکتے؟
ہمارے ایک دوست ڈاکٹر اسد اسماعیل امریکہ میں نفسیاتی امراض کے معروف ڈاکٹر ہیں۔ کراچی میں ان کا آبائی گھر ناظم آباد میں ہے۔ انہوں نے دو سال قبل اپنے گھر کے اردگرد ٹوٹی ہوئی سڑکوں‘ بے نور لائٹوں‘ پھول پتیوں سے عاری اجڑے ہوئے پارکوں اور کتب و فرنیچر سے محروم لائبریریوں کی اصلاح و مرمت کے لیے لاکھوں نہیں کروڑوں روپے خرچ کر دیے۔ عروس البلاد کراچی سے تعلق رکھنے والے اسی جوش و جذبے کے مالک سینکڑوں اوورسیز پاکستانی اپنے شہر کو سیلابوں کو مستقلاً نجات دلانے کے لیے تیار ہیں مگر ہے کوئی جو انہیں دیانت و امانت کی ضمانت دے سکے؟
ہماری ایک پرجوش نامور شخصیت ''نیشن بلڈنگ‘‘ کا تصور لے کر کوچۂ سیاست میں وارد ہوئی تھی۔ نیشن بلڈنگ تو یہ ہوتی کہ آج سوشل میڈیا پر پاکستان کی تعمیر و ترقی‘ سیلابوں کی روک تھام اور دیگر معاشی و تعلیمی مسائل کے حل کے لیے پاکستانی نوجوان اپنے اپنے منصوبے پیش کرتے۔ وہ دوسرے ملکوں کے کامیاب منصوبوں سے استفادہ کرتے اور انہیں جدید ترین ٹیکنالوجی کو کام میں لا کر ملکی ضروریات و وسائل کے ساتھ ہم آہنگ کرتے۔ اس طرح پاکستان کی تعمیر و ترقی کے لیے پیش کیے جانے والے منصوبوں کا ایک صحت مندانہ مقابلہ شروع ہو جاتا۔ مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت ''نیشن بلڈنگ‘‘ والے نوجوان ان منصوبوں کے بجائے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کو مغلظات سے نواز رہے ہیں اور بزرگوں کی پگڑیاں اچھال رہے ہیں۔ ڈوبتی بستیوں اور ڈوبتی معیشت سے بے نیاز سیاست دانوں کی خدمت میں میر تقی میر کا مصرع ہی پیش کیا جا سکتا ہے:
مژگاں تو کھول شہر کو سیلاب لے گیا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں