کیا تصادم سے بچنا ممکن ہے؟

آج پاکستان میں ہر صاحبِ احساس سمجھتا ہے کہ بد سے بدتر ہوتے حالات بے قابو ہو رہے ہیں۔ ہماری سیاسی جماعتیں ہر گزرتے لمحے کے ساتھ ٹکراؤ کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ کسی طرح بگاڑ سے بناؤ کی کوئی صورت نظر نہیں آتی۔ بعض تجزیہ کاروں کا خیال یہ ہے کہ عمران خان مسلسل سیاسی درجۂ حرارت کو بڑھا رہے ہیں۔ وہ کسی سیاسی جماعت سے بات چیت پر آمادہ نہیں اور قومی اسمبلی میں جانے کو بھی تیار نہیں۔ اگلے روز ایک دانشور تجزیہ کار نے یہ کہہ کر اہلِ مجلس کو حیران ہی نہیں بلکہ پریشان بھی کر دیا کہ خان صاحب پوائنٹ آف نو ریٹرن تک جا چکے ہیں۔ میں نے جواباً انگریزی کا ایک محاورہ عرض کیا جس کا مفہوم یہ ہے کہ اصلاح کبھی متاخر نہیں ہوتی۔
تاہم اصلاح کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ حصولِ اقتدار کے لیے برسرِ پیکار جماعتوں یا گروہوں کو یہ احساس ہو جائے کہ انہیں اس جنگ سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ فرد ہو یا جماعت‘ اصلاح کا آغاز غلطیوں کے اعتراف سے ہوتا ہے۔ شہباز گل نے تو جوشِ جنوں میں وہ کچھ کہہ دیا جو انہیں ہرگز‘ ہر گز نہیں کہنا چاہیے تھا۔ مگر گزشتہ چند ماہ سے عمران خان معزز اداروں کی اہم شخصیات کے بارے میں نامناسب القابات و اشارات استعمال کر رہے تھے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پی ٹی آئی میں موجود پرویز خٹک‘ شفقت محمود اور ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی شخصیات خان صاحب کو اس طرزِ عمل سے باز رکھتیں۔ مگر کسی نے بھی انہیں روکا اور نہ ہی انہیں اپنی روش بدلنے کا مشورہ دیا۔ اکثر لوگ خان صاحب کی ہاں میں ہاں ملانے کو بلندیٔ درجات اور قربتِ امیر کا زینہ سمجھتے ہیں۔ خان صاحب کے سامنے کوئی پر مارنے کی جرأت نہیں کرتا۔
پی ٹی آئی کی کسی میٹنگ یا سابقہ کابینہ کے اجلاس میں کوئی حسرت موہانی نہیں ہوتا جو اپنی فقیری کے باوجود اُٹھ کر قائداعظم محمد علی جناح سے باآوازِ بلند اختلاف کرے‘ اپنے اختلاف کے حق میں دلائل دے‘ سیاسی تاریخ سے مثالیں پیش کرے اور برصغیر کے حالات میں مسلمانوں کی فلاح کے لیے اپنا نقطۂ نظر پیش کرے۔ قائداعظم محمد علی جناح نہایت صبر و سکون کے ساتھ موہانی صاحب کا نقطۂ اختلاف سنتے اور اس کا مدلّل جواب دیتے جسے سن کر حسرت موہانی ہی نہیں وہ لیڈرانِ کرام بھی مطمئن ہو جاتے جن کے پاس جرأتِ اظہار نہیں تھی۔
عمران خانہ کا بیانیہ شب و روز کی ہر ساعت کے ساتھ بدلتا رہتا ہے۔ اب اُن کا بیانیہ بڑا سادہ اور معصومانہ ہے کہ ہمیں اداروں سے لڑانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ جناب عمران خان اپنے گزشتہ چند مہینوں کے بیانات اور خطابات دیکھ لیں نیز اپنی تقاریر کے کلپس سن لیں تو انہیں معلوم ہو جائے گا کہ کون کس کو کس کے ساتھ لڑانے کی کوشش کر رہا ہے۔ اداروں کے ساتھ یا سیاسی جماعتوں کے ساتھ حالات خراب کرنے میں خان صاحب خود کفیل ہیں۔ ''دھمکی‘‘ خان صاحب کی یک لفظی پالیسی ہے مگر اب پی ٹی آئی کے بیانات سے اندازہ ہوتا ہے کہ شاید انہیں احساس ہو گیا ہے کہ ریڈ لائن عبور کرنا نہایت حساس معاملہ ہے۔
دوسری طرف مرکز میں برسرِ اقتدار اتحادی حکومت نے بھی حریف پی ٹی آئی کے خلاف انتقامی رویہ اختیار کر رکھا ہے۔ شہباز گل کی گرفتاری بالکل بجا‘ ان کے ڈرائیور کو حراست میں لینا بھی درست مگر ڈرائیور کی بیوی کو اس کی چند ماہ کی روتی بلکتی بچی کے سامنے گھر سے اٹھا لینا کس قانون کے مطابق درست ہے؟ کیا یہ ہے قانون کی حکمرانی؟ اسی طرح 25 مئی کو مسلم لیگ (ن) کی حکومت نے لاہور میں ڈاکٹر یاسمین راشد جیسی بزرگ خاتون کی گاڑی کے شیشوں کو توڑ کر اپنی ''شریفانہ سیاست‘‘ کے آبگینے کوکرچی کرچی کر دیا۔ ہمارے سیاستدان عالمی تاریخ پڑھیں یا نہ پڑھیں مگر انہیں ملکی سیاسی تاریخ پر تو غور و فکر کرنا چاہیے۔ 1970ء سے لے کر 1990ء کی دہائی تک سیاست دانوں کی باہمی لڑائیوں کے نتیجے میں پاکستان کو کئی سانحات و حادثات سے دوچار ہونا پڑا۔ اس سیاسی توتکار اور الزام تراشیوں کے نتیجے میں کبھی بے نظیر بھٹو اور کبھی میاں نواز شریف کو ٹرم پوری کیے بغیر ہی گھر بھیجا جاتا رہا۔ بعد از خرابیٔ بسیار جلاوطنی کے دوران بے نظیر بھٹو اور میاں نواز شریف دونوں کو احساس ہو گیا کہ ہماری چپقلش کے نتیجے میں ہماری حکومتیں گئیں اور ایک آمر برسراقتدار آ گیا۔
اب پھر وہی تاریخ دہرائی جا رہی ہے۔ پی ٹی آئی اور گیارہ جماعتی اتحاد کے درمیان ٹھنی ہوئی ہے۔ عمران خان نے برسرِاقتدار آ کر حزبِ اختلاف کو تسلیم کرنے سے ہی انکار کر دیا۔ اگر عمران خان سیاسی رویہ اختیار کرتے تو اکثر معاملات عدالتوں کے بجائے ایوانوں ہی میں حل کر لیے جاتے۔ سیاست دان عدالتوں میں جا کر یہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ اپنے مسائل کو خود حل کرنے کی اہلیت نہیں رکھتے۔ میری رائے میں ان مسائل کے حل کے لیے پہلے ہی بہت سے قوانین موجود ہیں۔
مسلم لیگ (ض) کے صدر اعجاز الحق ایک زیرک‘ سمجھدار اور وضع دار سیاست دان کی شہرت رکھتے ہیں۔ وہ پہلے تولتے اور پھر بولتے ہیں۔ ان دنوں اعجاز الحق صاحب راولپنڈی سے بنی گالا اکثر آتے جاتے دکھائی دیتے ہیں۔ ان کی بنی گالا آمد و رفت کے بارے میں بعض تجزیہ کاروں اور بلاگرز کا کہنا ہے کہ اعجاز الحق کسی شٹل ڈپلومیسی مشن پر ہیں۔ جناب اعجاز الحق سے ہماری یاداللہ ہے۔ وہ بالعموم ہم سے اپنے دل کی بات چھپاتے نہیں مگر سب کچھ بتاتے بھی نہیں۔ میں نے شبِ رفتہ اُن سے پوچھا کہ اعجاز بھائی! آپ آج کل کس مشن پر خان صاحب سے لمبی ملاقاتیں کر رہے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ کسی نے میرے سپرد کوئی مشن نہیں کیا۔ بس میرا معاملہ اتنا ہے کہ:
مجھ کو احساس کی شدّت نے جلا رکھا
میں جب تیزی سے بگڑتے ہوئے سیاسی و معاشی حالات کو دیکھتا ہوں تو تڑپ اٹھتا ہوں۔ ہم تیز رفتاری کے ساتھ تصادم کی طرف لپکے جا رہے ہیں۔ سیاست تصادم کا نہیں تفہیمِ باہمی کا نام ہے۔ مجھے اعجاز الحق صاحب نے کچھ بتایا تو نہیں مگر میرا اندازہ ہے کہ میاں نواز شریف کو اتفاقِ باہمی سے پارلیمانی سیاست میں واپس لایا جا رہا ہے۔ اعجاز الحق نے پی ٹی آئی میں شمولیت کی سختی سے تردید کی۔ اُن کا کہنا تھا سیاسی پارٹیوں کو فی الفور باہمی الزام تراشیوں کا سلسلہ بند کر دینا چاہیے۔ اللہ کے فضل و کرم سے تمام سیاسی و غیر سیاسی حلقوں میں اعجاز الحق کا احترام پایا جاتا ہے۔ وہ ہر کسی سے بات کر سکتے ہیں اور اسے اپنا ہم نوا بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ اعجاز الحق نے ایک اور چونکا دینے والی بات کہی کہ مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں معاملات ہماری سیاسی جماعتوں اور مقتدرہ سے بالا بالا بگاڑے جا رہے ہیں۔ ایسی نازک صورتِ حال میں سیاست دانوں کو انتہائی احتیاط سے کام لینا چاہیے۔
ہماری سیاسی تاریخ میں ایئر مارشل (ر) اصغر خان مرحوم جب سیاست دانوں کو آپس میں دست و گریباں دیکھتے تو بہت دل گرفتہ ہوتے۔ ان کی ایک کتاب کا ٹائٹل تھا: ''ہم تاریخ سے سبق نہیں سیکھتے‘‘۔ آج پھر وہی صورتِ حال ہے۔ بعض سیاست دان سانحۂ مشرقی پاکستان کا ذکر تو کرتے ہیں مگر اس سے سبق حاصل نہیں کرتے۔ بظاہر تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ایک بار پھر سیاستدانوں کے درمیان تصادم ناگزیر ہو چکا ہے۔ البتہ ہماری رائے یہ ہے کہ اعجاز الحق کچھ دیگر بزرگ سیاسی مدبرین اور سینئر صحافیوں کے ہمراہ اس مشن کے لیے نکل پڑیں گے تو امیدِ واثق ہے کہ تصادم سے بچنا ممکن ہو جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں