عمران خان کیا چاہتے ہیں؟

عمران خان عجب مخمصے کا شکار ہیں۔ معلوم نہیں اُن کے دل میں کیا ہے۔ خان صاحب کبھی نیوٹرلز کو للکارتے اور کبھی انہیں پکارتے ہیں۔ کبھی انہیں پس پردہ اقتدار کے کھیل کا حصہ گردانتے اور کبھی انہیں اپنی پالیسی تبدیل کرنے کی التجا کرتے ہیں۔ آخر وہ چاہتے کیا ہیں؟
زیادہ پیچھے نہیں جاتے‘ ابھی 13 اگست کی شب کو لاہور میں اُن کا جو جلسہ ہوا وہ جبری نہیں برضا و رغبت حاضری کے اعتبار سے ایک شاندار جلسہ تھا۔ اس جلسے کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ آج یہاں خان صاحب کوئی اہم اعلان کرنے والے ہیں مگر یہاں انہوں نے کوئی بڑا اعلان نہ کیا۔
دیکھنے ہم بھی گئے تھے پہ تماشا نہ ہوا
خان صاحب نے اس جلسے میں مقتدرہ کے بارے میں ایک جملہ بھی نہ کہا اور اس معاملے میں مکمل خامشی اختیار کی۔ اُن کا غالباً خیال یہ تھا کہ خامشی کا پیرایۂ اظہار بھی آزما کر دیکھنا چاہیے۔ شاید اس طرح سے اُن کی بے بسی کا کچھ مداوا ہو سکے۔
خامشی کاغذ کے پیرہن میں لپٹی خامشی
عرضِ غم کا اس سے بہتر کوئی پیرایہ نہیں
کچھ واقفانِ حال کا کہنا ہے کہ پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی نے خان صاحب کو یقین دلایا تھا کہ کمند جہاں سے ٹوٹی تھی وہیں سے دوبارہ جوڑنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔ مگر انہی باخبر ذرائع کے مطابق وہاں سے چودھری صاحب کو صاف انکار ہو گیا ہے۔
خان صاحب میاں نواز شریف‘ شاہد خاقان عباسی اور ایاز صادق وغیرہ کا نام لے کر مسلسل کہہ رہے ہیں کہ یہ لوگ بھی تو مقتدرہ پر تنقید کرتے رہے ہیں مگر اُن پر گرفت نہیں کی جاتی۔ یہ لوگ تو مقتدرہ کو نیوٹرل ہونے اور آئین کے اندر رہنے کی یاددہانی کراتے رہے ہیں مگر خان صاحب تو اُس کے نیوٹرل ہونے کو نشانۂ تضحیک بناتے ہیں۔ چار پانچ روز پہلے آزادیٔ صحافت کے ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے عمران خان مقتدرہ کو برملا ماورائے آئین کردار ادا کرنے کے لیے پکارتے سنائی دیے۔ ہفتے کی شب فاطمہ جناح پارک اسلام آباد میں خان صاحب نے ایک طرف مقتدرہ کو عوامی قوت سے ڈرایا اور دوسری طرف انہوں نے اُن کو مدد کے لیے بھی پکارا ہے کہ نیوٹرل ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ آپ چوروں اور ڈاکوئوں کے ساتھ کھڑے ہوں۔ آپ چوروں کے بجائے عوام کے ساتھ یعنی عمران خان کے ساتھ کھڑے ہوں۔ مقام حیرت ہے کہ عمران خان تکرار کے ساتھ مقتدرہ کو ماورائے آئین کردار ادا کرنے پر آمادہ کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ خان صاحب نے ابھی تک اُس ادارے سے اپنی امیدیں استوار کر رکھی ہیں جس ادارے کے لیے اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین و دستور کے مطابق سیاست ایک شجرِ ممنوعہ ہے۔
جناب عمران خان یہ کہنے پر کیوں مُصر ہیں کہ مقتدرہ سیاسی طاقت کا بھی منبع و مصدر ہے۔ کیا خان صاحب سیاست کے معاملے میں ابھی تک طفلِ مکتب ہیں؟ وہ ایوانوں اور اسمبلیوں کے بجائے بیرکوں کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ دوسری طرف عمران خان اس عوامی موجِ جنوں پر ناز کرتے ہیں جو جھوم کے اُٹھے گی اور اپنے ساتھ سب کچھ بہا کر لے جائے گی۔
اگر عمران خان اسمبلیوں میں منتخب ہو کر آنے والی گیارہ سیاسی جماعتوں کے قائدین سے بات چیت نہیں کرنا چاہتے ہیں تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ وہ مقتدرہ کی مدد کے ساتھ ایک آمر مطلق بننا چاہتے ہیں۔ خان صاحب کی ساری سیاسی جدوجہداور پونے چار سالہ حکومت انہی تضادات کا شکار رہی ہے۔ خان صاحب اقتدار میں نہ تھے تو آزادیٔ اظہار کے گُن گایا کرتے تھے۔ مگر جب وہ اقتدار میں آ گئے تو پھر انہوں نے آنکھ اٹھا کر بھی اس مغرب کی آزادیٔ تحریر و تقریر کی طرف نہیں دیکھا جس مغرب کو وہ خوب پہچاننے کا دعویٰ کرتے رہتے ہیں۔
دورانِ اقتدار وہ للچائی ہوئی نگاہوں کے ساتھ مشرقِ وسطیٰ اور چین کی(زیرو آزادیٔ صحافت اور یس سر) پالیسی کی طرف دیکھتے رہے ہیں۔ انہوں نے اپنے دورِ اقتدار میں ایسے حربے استعمال کیے جن سے میڈیا گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جائے۔ مگر سخت جان میڈیا نے سرنگوں ہونے سے انکار کر دیا۔ خان صاحب ہی کے دور میں ابصار عالم‘ مطیع اللہ جان پر حملے ہوئے۔ انہی کے دورِ اقتدار میں طلعت حسین اور دیگر بہت سے سینئر صحافیوں کے ٹی وی پروگراموں پر پابندی عائد کی گئی۔ خان صاحب کے ہی دور میں ممتاز کالم نگار عرفان صدیقی کو گھر سے گرفتار کیا گیا اور میر شکیل الرحمن کو مہینوں نظربند رکھا گیا۔ سی پی این ای اور انٹرنیشنل میڈیا واچ جیسی تنظیموں نے خان صاحب کی میڈیا پالیسیوں کو آزادیٔ صحافت کے لیے مہلک قرار دیا تھا۔
آج پھر محرومِ اقتدار ہو کر عمران خان کو آزادیٔ صحافت کی یاد ستائی ہے۔ آج وہ کہتے ہیں کہ پاکستان مشرقِ وسطیٰ تو نہیں ہے۔ اب ہم ایک نہایت اہم نکتے کی طرف آتے ہیں۔ عمران خان سمجھتے ہیں کہ ایک سیاسی لیڈر کے لیے اول و آخر ایک شے ضروری ہے اور وہ ہے مقبولیت۔ آج ہم آپ کو خان صاحب کی مقبولیت کا راز بھی بتا دیتے ہیں۔ راز یہ ہے کہ وہ قوم کو وہ کچھ سناتے ہیں جو وہ سننا چاہتی ہے۔ وہ کرپشن اور لوٹ مار کے خاتمے‘ امریکی غلامی سے نجات‘ سستے انصاف‘ غریب و سفید پوش کے لیے اپنا گھر اپنی جنت‘ پولیس گردی سے چھٹکارے‘ اڑھائی کروڑ بچوں کے لیے تعلیم‘ اردو کی ترویج وغیرہ کا ذکر کرتے ہیں تو لوگ خوشی سے جھوم اٹھتے ہیں۔ یہی تو لوگوں کے وہ خواب ہیں جو ستر‘پچھتر برس سے تعبیر کو ترس رہے ہیں۔ اس تشخیص کے بعد خان صاحب کسی طرح کے عملی تردد کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔ خان صاحب کی برسوں پرانی تقریر کی لذّت میں لوگ محو ہو جاتے ہیں اور ان سے نہیں پوچھتے کہ آپ اپنے عرصۂ اقتدار میں ہمیں ایک خواب کی تعبیر بھی کیوں نہیں دے سکے؟
خان صاحب کی تشخیص تو لاجواب مگر اُن کا علاج بے اثر ہے۔ وہ علاج کے بارے میں زیادہ متفکر بھی نہیں کیونکہ امراض کی تشخیص کے بعد اُن کی پالیسی یہ ہے کہ آگے مریض جانے‘ خدا جانے۔
خان صاحب پھر ''ون پیج‘‘ کی غلطی دہرانے کے لیے بے قرار ہیں۔ موصوف اگر سیاست میں جاندار کردار ادا کرنا چاہتے ہیں تو پھر انہیں اپنے رویے پر فی الفور نظرثانی کرنی چاہیے اور سمجھ لینا چاہیے کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور عوام کی ترجمانی کے لیے ایوانوں کی مضبوطی ازبسکہ ضروری ہے۔چند روز قبل کراچی میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے فواد چودھری نے کہا کہ یہ لوگ روز کہتے ہیں کہ میثاقِ معیشت کریں۔ چودھری صاحب نے زور دے کر کہا کہ میثاق صرف سیاسی بنیادوں پر ہوتے ہیں۔ ہمیں پارلیمان‘ منتخب وزیراعظم اور جمہوریت کو مضبوط کرنے کے لیے اصلاحات لانی چاہئیں اور سیاسی جماعتوں کو آپس کی دوریاں ختم کر لینی چاہئیں۔
ہم اسے دیر آید درست آید ہی کہیں گے۔ سیاسی بقا اور معاشی استحکام کے لیے سیاست دانوں کو ایوانوں سے باہر دیکھنے کی عادت مستقلاً ترک کر دینی چاہیے۔ فواد چودھری تو ایک سیاسی فارمولا پیش کر رہے ہیں مگر خان صاحب تو سیاست دانوں سے بات نہیں کرنا چاہتے۔ وہ ایک بار پھر طوافِ کوئے ملامت کے لیے بے تاب ہیں۔ خان صاحب کی تقاریر سے عیاں ہو گیا ہے کہ وہ ہر قیمت پر اقتدار کی واپسی چاہتے ہیں اور شاید اسی راستے سے چاہتے ہیں جس سے وہ پہلے برسراقتدار آئے تھے۔ بقول شاعر :
اپنی تو جہاں آنکھ لڑی پھر وہیں دیکھو
آئینے کو لپکا ہے پریشاں نظری کا

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں