مدینہ منورہ کے شب و روز

مجھے اِن دنوں مدینہ منورہ میں حاضری و حضوری کے لیے اِذن باریابی نصیب ہوا ہے اور وہیں سے آپ سے مخاطب ہوں۔ میں نے محبت شاہ کو مدینہ منورہ میں فون کیا اور اُن کے ٹھکانے کے بارے میں پوچھا تو برسوں سے دیارِ حبیبؐ میں مقیم محبت شاہ نے بے تکلف جواب دیا: ''پراچہ صاحب! تم مسجدِ نبوی کے فلاں گیٹ سے نکلو تو ہماری دکان پر پہنچ جاؤ گے۔ ہم مدینہ کے پرانے محلے میں ہیں۔ یہ وہی علاقہ ہے جہاں جناب مصطفیﷺ اپنے صحابہ کرامؓ کے ساتھ اٹھتے بیٹھتے اور کھاتے پیتے تھے اور انہیں دین سکھاتے تھے‘‘۔ محبت شاہ کا آخری جملہ مجھے چودہ صدیاں پیچھے لے گیا کہ صحابہ حضورؐ کے گرد یوں جمع ہوتے جیسے شمع کے گرد پروانے۔ قبا میں تین روزہ قیام کے بعد جناب مصطفیﷺ تین کلومیٹر دور مدینہ کی بستی کی طرف اپنی اونٹنی پر روانہ ہوئے‘ آدھے کلومیٹر کے بعد نمازِ جمعہ کا حکم نازل ہوا تو وہیں آپؐ نے نمازِ جمعہ ادا کی جہاں اب مسجد ''جمعہ‘‘ کے نام سے ایک خوبصورت مسجد تعمیر کردی گئی ہے۔ جب آپؐ مدینہ منورہ پہنچے تو ہر کسی کی خواہش تھی کہ آپؐ اس کے گھر قیام کریں۔
حضور ﷺ کی اونٹنی بنونجار کے اُس محلے سے گزرتی ہوئی آگے بڑھ گئی جہاں ان کے دادا عبدالمطلب پیدا ہوئے اور اُسی محلے میں ان کے والد حضرت عبداللہ کی قبر بھی تھی۔ جناب مصطفی ﷺ کی اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے اطمینان سے بیٹھ گئی اور آپؐ نے انہی کے ہاں اوّلین قیام کیا۔ اس محلے کی بچیوں‘ عورتوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کی خوشی دیدنی تھی جنہیں رحمت للعالمین ﷺ کا شرفِ میزبانی نصیب ہورہا تھا۔ بنونجار کی بچیاں اپنے عہد کا بہترین سازینہ دف بجاتے ہوئے عالم وجد میں یہ گیت گا رہی تھیں؛
طلع البدر علینا من ثنیات الوداع
وجب الشکر علینا ما دعی للہ داع
ہم پر چودھویں کا چاند ثنیات الوداع کی طرف سے طلوع ہوا۔ ہم پہ شکر واجب ہے کہ بلانے والے نے ہمیں اللہ کی طرف بلایا۔ اس روزِ سعید سے لے کر وصالِ مصطفی ﷺ تک مسلمانوں نے حیاتِ طیبہ کے ایک ایک لمحے کو حافظے کی الماریوں اور اس دور کے ''کاغذوں‘‘ میں محفوظ کر لیا۔ ایسا ریکارڈ دنیا کی کسی اور شخصیت کے بارے میں آج تک نہ موجود ہے اور نہ ہی محفوظ۔گنبدِ خضریٰ پر پہلی نظر پڑی تو جم کر رہ گئی۔ ہٹانے کی کوشش کی مگر اس عاصی کی نگاہ ہٹنے پر آمادہ نہ تھی۔ اس موقعے پر ڈاکٹر خورشید رضوی یاد آگئے۔ انہوں نے کیا برمحل شعر کہا ہے؛
سامنے ہے اس کو آنکھوں میں بسا لے جائیے
عمر بھر اس ایک پل کو مت گزرنے دیجئے
اپنی کوتاہیِ عمل اور نگاہوں کی جسارت میں زمین و آسمان کا بُعد تھا۔ معاً حفیظ تائب کی مشہور نعت کے اشعار نوکِ زباں پر جاری ہوگئے؛
شوق و نیاز و عجز کے سانچے میں ڈھل کے آ
یہ کوچۂ حبیب ہے پلکوں سے چل کے آ
امت کے اولیا بھی ادب سے ہیں دم بخود
یہ بارگاہِ سرورِ دیں ہے سنبھل کے آ
مسجدِ نبوی کے پرسکون ماحول میں ہنگامہ تو دور کی بات باآوازِ بلند سانس لینا بھی خلافِ ادب ہے۔ مسجد الرسول جمالِ مصطفی کی مختلف کیفیات سے روز و شب پرنور ہے۔ یہاں ہر کوئی ذکر و فکر میں مگن ہی دکھائی دیتا ہے۔ مسجدِ نبوی کے حسن انتظامات میں مزید اچھے اضافے ہوئے ہیں۔ سب سے بڑا اضافہ ڈسپلن کا ہے۔ پہلے باب السلام سے روضۂ اقدس پر سلام کے لیے حاضر ہوتے تو وہاں زائرین کا بے پناہ ہجوم ہوتا۔ اب آپ کو مسجد سے باہر قطاروں میں طویل راستہ طے کرکے محراب مسجد کے بیرونی حصے کے سامنے سے گزر کر باب السلام سے داخل ہونا پڑتا ہے۔ اس قطار بندی کا فائدہ یہ ہے کہ جتنی دیر میں مشتاقانِ دید کی یہ تعداد اندر داخل ہوتی ہے اتنی دیر میں پہلے سے اندر گئے ہوئے زائرین باہر نکل چکے ہوتے ہیں۔ اسی طرح مسجد کے بیرونی فرش کے نیچے ایک بڑی پارکنگ بنا دی گئی ہے جہاں بیک وقت دس ہزار گاڑیاں پارک ہو سکتی ہیں۔
سعودی عرب کے جدید امیج کے بارے میں ہمارے سوشل میڈیا پر بعض بڑی مبالغہ آمیز کہانیاں سننے کو ملیں گی مگر مدینہ ایئرپورٹ سے لے کر سعودی عرب کے ہوٹلوں میں استقبالیہ وغیرہ پر باحجاب اور بااخلاق خواتین کام کرتی ہیں۔ ایئرپورٹ پر جہاں ایک پرواز کے مسافروں کو فارغ ہونے میں گھنٹوں لگتے تھے اب درجنوں کاؤنٹروں پر ڈیوٹی دیتی خواتین چند منٹوں میں یہ فرائض انجام دیتی ہیں۔ مجھے افسوس سے لکھنا پڑتا ہے کہ ایئرپورٹوں اور دوسرے دفاتر وغیرہ میں کام کرنے والے اکثر مرد سٹاف کے وہی پرانے محکمانہ رویے ہیں۔ تاجر حضرات بھی کورونا کے نقصانات کے بعد اظہارِ تشکر کے طور پر خصوصی رعایت کرنے کے بجائے منہ مانگے دام وصول کرنے پر اصرار کرتے ہیں۔کورونا کے اڑھائی تین برس کے دوران جس طرح حج اور عمرے پر پابندی عائد رہی اور حرمین شریفین میں احتیاطی تدابیر کی بدولت جو اداسی اور ویرانی رہی وہ اہلِ شوق کے لیے بہت بڑا صدمہ تھا۔ اب مسجدِ نبوی کا امام اقامت کے بعد ''اللہ اکبر‘‘ کہنے سے پہلے اُسی طرح نمازیوں کو مخاطب کرکے کہتا ہے کہ ساتھ ساتھ کھڑے ہو جاؤ اور صفوں کے درمیان خالی جگہ نہ چھوڑو۔ سبحان اللہ، الحمد للہ۔
مسجدِ نبوی کی زیارت اور روضۂ رسول پر حاضری کے دوران جو بات دل پر بہت شاق گزرتی ہے وہ موبائلوں کا بے تحاشا استعمال ہے۔ اس سلسلے میں پاکستانی سب سے آگے ہیں۔ ان کی توجہ ادائیگی نماز اور روضۂ رسول پر ہدیۂ سلام کے عجزونیاز اور سنجیدگی کے بجائے تصویریں اور وڈیوز بنانے پر مرکوز ہوتی ہے۔ یہ لوگ منع کرنے کے باوجود بھی باز نہیں آتے۔ حج و عمرہ گروپ بھجوانے والے اس پر توجہ دیں۔
میرے بڑے بیٹے ڈاکٹر بلال اور اُن کے کمسن بیٹے مصطفی نے اپنے والدین کی بہت خدمت کی۔ ڈاکٹر بلال نے اپنے طور پر موبائل فون کے مسجدِ نبوی میں استعمال پر پابندی عائد کر رکھی تھی جس کی ہم سب نے تقریباً مکمل پابندی کی۔ رب ذوالجلال کا حکم ہے کہ میری نعمتوں کا ضرور تذکرہ کیا کرو۔ اس بار اللہ نے ہمیں جو رہائش عطا کی وہ مسجد نبوی سے چند قدم کے فاصلے پر تھی۔ جب ہم سعودی عرب میں مقیم تھے تو طائف سے زیارتِ مدینہ کے لیے نقوش پائے مصطفی پر الہجرہ سے ڈرائیو کرتے ہوئے جب مسجد قبا کے سامنے سے گزرتے تو کبھی مسجد کے اندر جا کر نوافل ادا کرتے اور کبھی باہر رک کر مسجد قبا کی زیارت سے آنکھوں کی ٹھنڈک کا سامان مہیا کرتے۔ مگر اس بار ترتیب الٹ گئی۔ ہم پی آئی اے کی پرواز سے مدینہ ایئرپورٹ اور پھر مسجدِ نبوی میں نمازوں کی ادائیگی اور درود و سلام میں مشغول ہو گئے۔
میرے دل میں عجب بے کلی تھی کہ اس بار مسجد قبا میں حاضری سے محرومی ہی نہ رہ جائے مگر بھلا ہو حافظ عثمان صاحب کا جنہوں نے حضرت سلمان فارسی کے باغ کی زیارت کروائی اور پھر مسجد قبا لے گئے جہاں نوافل ادا کرنے کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔ میری خوش قسمتی کہ استاد گرامی ڈاکٹر خورشید رضوی بھی ان دنوں مدینہ میں موجود تھے۔ ان سے شرفِ ملاقات حاصل ہوا۔ میں نے پوچھا مسلمانوں کے لیے بالعموم اور اہلِ پاکستان کے لیے بالخصوص پیغامِ مدینہ کیا ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ پیغمبر آخرالزماں نے امت مسلمہ کو باہمی محبت و مؤدت اور وحدت کا درس دیا تھا اور یہی آج کا بھی پیغامِ مدینہ ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں