حجاز ریلوے سے حرمین ٹرین تک

ہم جدید ترین حرمین ٹرین کی آرام دہ سیٹوں پر بیٹھ چکے ہیں۔ ٹھیک اڑھائی بجے دوپہر شہرِ حبیب ﷺ سے ٹرین خانۂ خدا مکۃ المکرمہ کے لیے چھوٹے گی۔ یہ ''ٹرین خیال سے زیادہ تیزرفتار ہے‘‘۔ آنکھیں پُرنم ہیں کہ جن راستوں پر ہفتوں صحرائی بگولوں کے ہمراہ جنابِ مصطفی ﷺ اپنے جگری یار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ہمراہ سفر کرتے ہوئے مکۃ المکرمہ سے مدینہ منورہ پہنچے تھے جہاں اہلِ مدینہ نے اُن کے لیے دیدہ و دل فرشِ راہ کر دیے آج اُن کے ہی اختیار کردہ طریق الہجرہ کے متوازی حرمین ٹرین چلا دی گئی ہے جس کی رفتار 300 کلو میٹر فی گھنٹہ ہے۔
ادھر میرا راہوارِ تخیل ماضی‘ حال اور مستقبل کے درمیان سرپٹ دوڑ رہا ہے۔ چودہ صدیوں سے مسلمان حرمین شریفین کی زیارت‘ ادائیگی حج و عمرہ کے لیے مکۃ المکرمہ اور مدینہ منورہ کشاں کشاں کھنچے چلے آرہے ہیں۔ وہ ارضِ مقدس و اطہر کی زیارت کے لیے ہر ذریعۂ سفر استعمال کرتے رہے ہیں۔ وہ اونٹوں کے کجاووں پر اور بحری راستوں سے اسلامی دنیا کے دور دراز ملکوں سے پُرصعوبت سفر کرتے ہوئے جدہ پہنچتے اور وہاں سے اونٹوں کے ذریعے مکۃ المکرمہ اور پھر مدینہ منورہ کے درمیان کھڑتوس کھٹارا بسوں پر سفر کرتے۔
تاریخ میں ہزاروں داستانیں موجود ہیں کہ زیارتِ حرمین کا شعلہ کسی نوجوان کے سینے میں افریقہ یا انڈیا میں بھڑکا اور وہ بغل میں ایک دو جوڑے کپڑے اور پانی کی چھاگل لے کر چل پڑا۔ ایک اٹھارہ سالہ نوجوان جب مکۃ المکرمہ پہنچا تو وہ 72 سالہ بزرگ بن چکا تھا۔
مسلمان حکمرانوں نے ہمیشہ حجازِ مقدس کے سفر کو پرامن‘ پرسکون اور آرام دہ بنانے اور حرمین شریفین کی توسیع و تزئین کے منصوبے بنائے۔ دولتِ عثمانیہ نے اس سلسلے میں بہت کاوشیں کیں مگر بیسویں صدی میں آل سعود نے جس تسلسل اور وسعت قلبی کے ساتھ منصوبے بنائے اور پھر اُن پر برق رفتاری کے ساتھ عملدرآمد کیا وہ بے مثال ہے۔ اس تسلسل میں موجودہ سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان بھی اپنی خاندانی روایات کے مطابق حجاج کرام اور زائرینِ عمرہ کے لیے اس مقدس سفر کو آرام دہ اور تیز رفتار بنانے اور خانۂ خدا اور مسجد نبوی کی حاضریوں کو یادگار بنانے کے لیے جو خدمات انجام دے رہے ہیں اللہ اُنہیں قبول فرمائے۔ آمین!
سلطنت عثمانیہ کے اسلامی شعور سے مالا مال حکمران عبدالحمید ثانی بھی مسلسل بے چین رہے کہ استنبول سے دمشق اور پھر دمشق سے مدینہ منورہ اور آخر میں مدینہ منورہ سے مکۃ المکرمہ کے پرصعوبت سفر کے دوران کم از کم بیس فیصد حجاج کرام اور زائرین عمرہ دورانِ سفر جاں بحق ہو جاتے‘ لہٰذا اپنے مشیروں کے ساتھ مشورے کے بعد انیسویں صدی کے اواخر میں انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ ایسی ٹرین کے لیے ٹریک بچھائیں جو استنبول سے دمشق اور وہاں سے مدینہ منورہ پہنچے۔ حجاز ریلوے کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ سالانہ حج کے موقع پر حجاج کرام کو آسان سفر کی سہولت فراہم کی جائے نیز اسلامی دنیا کے درمیان تجارتی تعلقات کو فروغ دیتے ہوئے آپس میں درآمدات و برآمدات کو بڑھانے کے ساتھ ساتھ بوقت ضرورت سلطنت عثمانیہ کی قوتیں حجاز مقدس کے دفاع کے لیے اس تیزترین ذریعہ مواصلات ریلوے کا استعمال کریں۔
جب بھی کوئی نیا منصوبہ اور پروگرام سامنے آتا ہے تو پرانی ڈگر پر چلنے والی قوتیں اسے اپنے لیے ایک خطرہ سمجھتی ہیں۔ حجاز ریلوے کا بنیادی منصوبہ تو یہ تھا کہ اسے مدینہ منورہ سے مکۃ المکرمہ تک بنایا اور چلایا جائے مگر وسیع کیمل کارواں کے مالک امیر حسین بن علی شریف آف مکہ نے اسے بیسویں صدی کے آغاز میں اپنے معاشی و سیاسی منصوبوں کے لیے خطرہ سمجھا اور اس کے خلاف مہم چلانے کا اعلان کیا۔ عثمانی حکمران نے یہ دیکھتے ہوئے مدینہ‘ مکۃ المکرمہ ٹریک کے منصوبے کو ملتوی کر دیا۔ علامہ اقبال نے اسی لیے تو فرمایا تھا کہ
آئینِ نو سے ڈرنا طرزِ کہن پہ اڑنا
منزل یہی کٹھن ہے قوموں کی زندگی میں
حجاز ریلوے کے پہلے فیز‘ دمشق سے مدینہ کی تعمیر کا آغاز ستمبر 1900ء میں کر دیا گیا اور یکم ستمبر 1908ء میں پہلی ٹرین مدینہ منورہ پہنچی۔ گویا اس نہایت کٹھن منصوبے کو صرف آٹھ برس میں مکمل کر لیا گیا۔ اس منصوبے کو جرمن اور ترک انجینئرز نے مقامی ورکرز کے ساتھ مل کر مکمل کیا تھا۔ اونٹوں پر دمشق سے مدینہ منورہ تک کم از کم 45 روز لگتے تھے مگر 1908ء میں حجاز ریلوے کے ذریعے حجاج و زائرین دمشق سے صرف 72 گھنٹوں میں مدینہ منورہ پہنچنے لگے۔
ٹرین کی اس سہولت کو صرف 6 برس گزرے تھے کہ جولائی 1914ء میں پہلی جنگِ عظیم کا آغاز ہوگیا جو نومبر 1918ء تک جاری رہی۔ ٹی ای لارنس‘ کہ جو لارنس آف عریبیہ کے نام سے مشہور ہوا‘ نے مارچ 1917ء سے حجاج ریلوے کے خلاف گوریلا سرگرمیوں کا آغاز کردیا اور کئی مقامات پر ریلوے ٹریک اور گاڑیوں پر حملے کیے۔ یوں 1920ء میں حجاز ریلوے کے ذریعے ٹرینوں کی آمدورفت کا سلسلہ معطل ہوگیا۔ البتہ سلطان عبدالحمید ثانی کی کاوشیں لائقِ صد تحسین ہیں۔ اللہ تعالیٰ کارساز ہے۔ اُدھر 1922ء میں سلطنت عثمانیہ کا آفتاب غروب ہوا اور اِدھر اسی سال نجد میں ملک عبدالعزیز آل سعود کی خوش قسمتی کا ستارہ طلوع ہوا۔ 1925ء میں ملک عبدالعزیز کی حکومت حجاز مقدس میں قائم ہوگئی۔ اور تب سے اب تک آل سعود کا خوش نصیب خاندان حرمین شریفین کی خدمت کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ سعودی عرب میں مثالی امن قائم ہے۔ اپنے اپنے ادوار میں ہر سعودی فرمانروا نے توسیع و تزئینِ حرمین کیلئے بے پناہ خدمات انجام دیں۔
بہرحال اس وقت ہم برق رفتار حرمین ٹرین کا تذکرہ کررہے ہیں۔ میں جب سعودی عرب میں مقیم تھا تو پہلے بدر روڈ پر سفر کرتے تھے جو بارشوں کی صورت میں جگہ جگہ سے ٹوٹ جاتی اور اس کے پل بہہ جاتے۔ پھر جدید ترین موٹروے طریق الہجرہ السریع تعمیر کردیا گیا۔ اس پر ہی ہم مکۃ المکرمہ سے مدینہ منورہ تک کا سفر کرتے۔ 453 کلو میٹر کا یہ سفر کار پر تقریباً چار گھنٹوں میں طے ہوتا تھا۔ 2009ء میں برقی ٹرین کے ٹریک وغیرہ کی تنصیب کا کام شروع ہوا اور 25 ستمبر 2018ء کو اس ٹرین کا باقاعدہ افتتاح ہوگیا جس پر تقریباً پونے دو ارب ڈالر کا زرِکثیر خرچ ہو چکا ہے۔ 11اکتوبر 2018ء سے مسافر ٹرین کے ذریعے حرمین شریفین کے درمیان یہ سفر اب صرف سوا دو گھنٹے میں طے ہو جاتا ہے۔
جب میں بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں سعودی عرب کے خوبصورت گرمائی پہاڑی شہر طائف میں مقیم تھا تو ہم ایسی برق رفتار ٹرین کا تذکرہ یوں سنتے تھے جیسے بچے پریوں کے دیس کی کہانیاں سنتے ہیں۔ مجھے اندازہ نہ تھا کہ میری زندگی میں ہی یہ خواب حقیقت بن جائے گا اور میں اپنے بھائی سعید اور اُن کی فیملی‘ بیگم رخسانہ‘ بیٹے بلال‘ بھتیجی عبیرہ اور اگلی جنریشن کے پھول مصطفی اور افرح کے ساتھ‘ اپنے قبیلے کی سربراہی کرتے ہوئے برق رفتار ٹرین کے ذریعے صرف سوا دو گھنٹے میں مکۃ المکرمہ پہنچوں گا۔ بس فرق اتنا ہے کہ صدیوں پہلے پیدل آنے والا نوجوان 50 برس میں مکۃ المکرمہ پہنچا تھا جبکہ ہم ان شاء اللہ پلک جھپکنے میں خانۂ خدا کے سامنے ہوں گے۔ الحمد للہ سب تعریفیں اللہ کے لیے ہیں۔ اللہ ہر دور میں اپنے گھر‘ اپنے حبیب کے شہر مدینہ منورہ اور حجاج کرام و زائرین کی خدمت کرنے والوں کو اجر عظیم عطا کرے۔ آمین!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں