سیلاب اور اوورسیز پاکستانیز

یہ ایک انوکھا تجربہ تھا۔ بیس‘ بائیس برس پرانے نقوشِ پا کی تلاش کوئی آسان کام نہ تھا۔ پرانے ٹھکانوں اور پرانی گزرگاہوں کی تلاش اور یاد عربوں کی قدیم روایت ہے۔ سبع معلقات کے سب سے بڑے شاعر امر ؤالقیس کا معلّقہ یوں شروع ہوتا ہے:
ساتھیو! ٹھہرو
کہ ہم گریہ کریں
محبوب اور منزلِ محبوب کی یاد میں
(مقاماتِ) دخول و حومل کے مابین خمیدہ ریگ تودے کے اختتام پر
کئی برس کے بعد اللہ نے اس عاصی کو ایک بار پھر خانۂ کعبہ کے سامنے سربسجود اور روضۂ رسول کے سامنے سلامِ محبت و عقیدت پیش کرنے کا اِذن بخشا۔ عمرے کی سعادت اور مسجد نبوی کی زیارت سے فیض یاب ہو کر ہم نے جوارِ مکہ میں واقع طائف کی زیارت کا پروگرام بنایا جہاں بیسویں صدی کے اواخر اور اکیسویں صدی کے اوائل میں ہم بیس برس سے اوپر مقیم رہے۔ میرے بیٹے بلال اور سلمان طائف ہی میں پیدا ہوئے اور وہاں کے پاکستان انٹرنیشنل سکول و کالج میں انہوں نے ایف ایس سی تک تعلیم حاصل کی۔
ہمارے دل میں پرانے گھروں‘ پرانی درس گاہوں‘ پرانے محلوں اور شاہراہوں اور پرانے باغوں اور سیرگاہوں کی دید کا شوق فزوں تر تھا۔ انسان کی اس سے بڑھ کر اور کیا خوش قسمتی ہو سکتی ہے کہ کئی دہائیوں کے بعد پرانے شہر کے در و بام ہی نہیں‘ وہاں کے عوام و خواص بھی اسے پہچانیں اور اس کا گرم جوشی سے خیرمقدم کریں۔ میرے سعودی وزارتِ تعلیم کے پرانے رفقائے کار نے مجھے اپنے گھروں پر مدعوکیا اور بڑی محبت و گرم جوشی سے پیش آئے۔ اگرچہ طائف میں بھی دوسرے سعودی شہروں کی طرح اوورسیز پاکستانیوں کی تعداد میں بہت کمی واقع ہو چکی ہے۔ یہاں پر بڑھتے ہوئے ٹیکسوں اور ہر سال سینکڑوں کی تعداد میں سعودی ڈاکٹرز‘ اساتذہ‘ نرسیں اور ہر شعبۂ زندگی سے متعلقہ ورک فورس تیار ہو کر میدانِ عمل میں آ رہی ہے اور غیرملکیوں کی جگہ لے رہی ہے؛ تاہم طائف میں اب تک مقیم تاجر راجہ کمال نے اپنی وسیع و عریض رہائش گاہ پر عشائیہ کا فراخ دلی کے ساتھ اہتمام کیا جس میں بڑی تعداد میں پاکستانی احباب نے شرکت کی۔
اس تقریب کے روحِ رواں اور سٹیج سیکرٹری ڈاکٹر زاہد چودھری تھے جو طائف یونیورسٹی میں انگریزی زبان و ادب کے استاد ہیں۔ ینبع سے چھ سو کلومیٹر اکیلے ڈرائیو کر کے پروفیسر طفیل ڈھڈیال آئے۔ اُن کے علاوہ تقریب میں میجر ڈاکٹر عامر‘ انجینئر شاہد بٹ‘ ڈاکٹر اسلم‘ ڈاکٹر گوہر‘ ڈاکٹر جوئیو‘ شاہد سلہری اور چودھری سرور وغیرہ نمایاں تھے۔
آج کے دور میں پل پل کی خبریں مین سٹریم اور سوشل میڈیا پر دیکھنے اور سننے کے باوجود احباب مجھ سے وطن کا حال براہِ راست سننے کے لیے بے تاب تھے۔ سیلاب کی تباہ حالی کے بارے میں اوورسیز پاکستانی بہت پریشان تھے۔ میں نے انہیں بتایا کہ موسلادھار بارشوں اور سیلابوں کی حشر سامانیوں سے تقریباً سارا پاکستان ہی متاثر ہو چکا ہے۔ خاص طور پر بلوچستان‘ سندھ کا شہری و دیہاتی علاقہ‘ خیبرپختونخوا اور جنوبی پنجاب بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ اس وقت تک ساڑھے تین کروڑ پاکستانی کھلے آسمان تلے پڑے ہیں۔ سیلابوں کے نتیجے میں ہونے والی تباہی کا کم از کم تخمینہ ساڑھے 30 بلین ڈالر ہے۔ 6500 کلومیٹر سڑکیں تقریباً معدوم ہو چکی ہیں۔ 248 چھوٹے بڑے پل بہہ چکے ہیں۔ سوات کا خوبصورت تفریحی مقام کہ جہاں چند ہفتے پہلے تک لوگ سیر و تفریح سے محظوظ ہو رہے تھے اور وہاں کے ہوٹلوں میں مقیم تھے اب وہ ہوٹل سیلابی ریلوں میں بہہ چکے ہیں۔ اس وقت تک کم از کم 1400 لوگ جان سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔ تقریباً بیس لاکھ مکانات سیلابوں کی نذر ہو چکے ہیں اور لوگ بے گھر ہو گئے ہیں۔ ہزاروں لوگ وبائی امراض کا شکار ہو چکے ہیں۔ 10 لاکھ کے قریب جانور مر گئے ہیں۔ مویشیوں اور کھیتوں کھلیانوں پر دیہی آبادی کی معیشت کا انحصار ہوتا ہے۔
میں نے طائف میں مقیم ہم وطنوں کو بتایا کہ ان حالات میں ہمارے حکمران اور سیاستدان متاثرین تک سامانِ خور و نوش اور دیگر امداد پہنچانے پر کم اور فوٹو سیشن پر زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ البتہ خدمت خلق کی تنظیمیں متاثرین سیلاب کی بھرپور مدد کر رہی ہیں۔ الخدمت کے تقریباً ایک لاکھ سے اوپر رضاکار ملک کے چاروں متاثرہ صوبوں میں شب و روز متاثرین تک خیمے‘ دو وقت کی خوراک‘ پینے کا صاف پانی اور بچوں کے لیے دودھ وغیرہ مہیا کر رہے ہیں۔ اس تنظیم کے کام کو بین الاقوامی ادارے بھی سراہتے ہیں۔ میں نے طائف کے دوستوں کو بتایا کہ یورپ و امریکہ اور دیگر ممالک میں بسنے والے سمندر پار پاکستانی بھی سیلاب سے متاثرین بھائیوں کے لیے امدادی پیکیج بھیج رہے ہیں۔
سیلاب سے گفتگو کا رخ سیاست کی طرف مڑا تو میں نے دوستوں کو بتایا کہ موجودہ حکومت معیشت درست کرنے آئی تھی مگر اس حکومت نے معیشت کو درست کرنے کے بجائے مزید بگاڑ دیا ہے۔ چیزوں کی آسمان سے باتیں کرتی ہوئی قیمتوں اور بجلی کے ناقابلِ یقین بلوں نے عوام کی چیخیں نکلوا دی ہیں۔ غریب ہی نہیں سفید پوش کی سمجھ میں بھی نہیں آ رہا کہ جائیں تو کہاں جائیں جئیں تو کیسے جئیں۔
ڈالر کو 2018 ء والی سطح یعنی 120 روپے پر لانے والوں نے اپنی نااہلیت سے ڈالر کو 240 روپے پر پہنچا دیا ہے۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی کی ناقدری سے درآمد کی جانے والی ہی نہیں ملک کے اندر پیدا ہونے والی اشیا کی قیمتوں میں بھی بے حد اضافہ ہو چکا ہے۔ اب خود وزیراعظم صاحب تسلیم کر رہے ہیں کہ مہنگائی عروج پر ہے۔
امریکہ کے مقابلے میں سعودی عرب میں عمران خان کے مداحوں کی تعداد کم ہے۔ مسلم لیگ (ن) اور پی ٹی آئی کے چاہنے والے غالباً ففٹی ففٹی ہیں؛ تاہم جناب عمران خان جس تیز رفتاری کے ساتھ یوٹرن لے رہے ہیں اُن کی اس رفتار کا ساتھ دینا اُن کے مدّاحوں کے لیے بہت دشوار محسوس ہوتا ہے۔ دورانِ اقتدار عمران خان سپہ سالار کے بہت بڑے مدّاح تھے۔ حکومت سے محرومی کے بعد خان صاحب نے یکسر اپنا رویہ تبدیل کر لیا اور بڑے بڑے جلسوں میں الزامات لگانے لگے۔ اسی طرح دو تین ماہ قبل خان صاحب امریکہ کے خلاف عوامی جذبات بھڑکا رہے تھے مگر اب وہ فخریہ امریکیوں کے ساتھ ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ چند ہی روز پہلے سابق امریکی ڈپلومیٹ رابن رافیل‘ جو سی آئی اے تجزیہ کار اور لابسٹ بھی ہیں‘ نے عمران خان سے بنی گالا میں ملاقات کی ہے۔
احباب طائف کی تقریب میں پاکستان انٹرنیشنل سکول و کالج کے پرنسپل قیصر خان نے سکول وزٹ کرنے کی دعوت دی۔ میں نے تدریسی فرائض سعودی وزارتِ تعلیم میں انجام دیے تھے جبکہ بچوں نے پاکستانی سکول میں تعلیم حاصل کی۔ اگلے روز ڈاکٹر بلال پراچہ نے طلبہ کی اسمبلی سے خطاب کیا اور آج کے طلبہ کو بتایا کہ جہانِ تازہ سنگ و خشت سے نہیں اساتذہ کرام کے فیضانِ نظر اور اُن کی تدریسی مہارت سے پیدا ہوتے ہیں۔ اس ادارے کے سابق طالب علم نے طلبہ کو نصیحت کی کہ وہ اساتذہ کرام کی عزت و تعظیم کریں۔ آخر میں ڈاکٹر بلال نے طائف کالج کے پرنسپل ڈاکٹر قیصر خان اور پروفیسر فیاض احمد چانڈیو کا بطورِ خاص شکریہ ادا کیا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں