مقبول لیڈر شپ

پاکستانی عوام قابلِ داد ہیں کہ جہاں انہیں اخلاص کی خوشبو محسوس ہوتی ہے وہاں وہ یوں لپکتے ہیں جیسے بھنورے پھول اور پروانے شمع کے گرد جمع ہوتے ہیں۔
اس پس منظر کو چھوڑتے ہوئے کہ پسِ مرگ اب تک مقبول سیاسی رہنما‘ ذوالفقار علی بھٹو عنفوانِ شباب میں پہلے اسکندر مرزا اور پھر ایوب خان کی کابینہ میں کیسے شامل ہوئے تھے۔ تاہم معاہدۂ تاشقند کی مخالفت پر انہیں ایوب خان نے حکومت سے الگ کر دیا۔ جس کے بعد ذوالفقار علی بھٹو تحریکِ مزاحمت و جمہوریت کے چیمپئن بن کر عوام کے سامنے آئے تو انہیں بہت پذیرائی ملی۔ 1970ء کے انتخابی معرکے میں انہیں مغربی پاکستان (موجودہ پاکستان) میں بہت بڑی کامیابی حاصل ہوئی۔ تاہم اس وقت کے آئین کے مطابق مشرقی پاکستان (موجودہ بنگلہ دیش) سے اکثریتی سیٹیں جیتنے والے شیخ مجیب الرحمن کو بحیثیت وزیراعظم اقتدار سونپنے کے بجائے بھٹو نے ہر قیمت پر برسراقتدار آنے کے لیے یحییٰ خان کے ساتھ ساز باز کی اور مجیب الرحمن کو اقتدار دینے کے بجائے یحییٰ خان نے مشرقی پاکستان میں آپریشن شروع کر دیا۔ پاکستان میں بھٹو صاحب کے برسرِاقتدار آنے کی قیمت سقوطِ ڈھاکہ اور تخلیقِ بنگلہ دیش کی شکل میں ادا کر دی گئی۔
قدرت نے بھٹو صاحب کو ایک اور موقع دیا اور مغربی پاکستان کے چاروں صوبوں کی سیاسی جماعتوں نے بھٹو کی قومی اسمبلی میں اکثریت تسلیم کر لی اور 1973ء کا متحدہ و متفقہ آئین تخلیق کرنے میں ہر ممکن تعاون کیا اور یوں بھٹو صاحب بحیثیت وزیراعظم برسراقتدار آ گئے مگر اپنی مقبولیت کے بل بوتے پر وہ انا کے آئینہ خانے میں محصور ہو گئے اور من مانی شروع کر دی۔ انہوں نے نجی صنعتوں‘ بینکوں اور تعلیمی اداروں کو قومیا لیا۔ اس طرح وہ معیشت کو زک پہنچانے کا موجب بنے۔ شنید ہے کہ بھٹو صاحب نے 1970ء کے انتخابات میں بلامقابلہ منتخب ہونے اور اپنی پسند کے ممبران کو الیکشن میں کامیاب کروانے کے لیے دھاندلی کا پروگرام بنایا تھا۔ اس سے آگے جو کچھ بھی ہے‘ وہ ہماری تاریخ کا ایک المناک باب ہے۔
ایک اور مقبول عوامی لیڈر الطاف حسین کراچی اور سندھ کے شہری علاقوں کے غریب اور متوسط لوگوں کی زبان بنے۔ انہوں نے سندھ کے شہری باسیوں کو سر اٹھا کر جینے کا حوصلہ دیا۔ 1980ء کی دہائی میں الطاف حسین نے مہاجر قومی موومنٹ کی بنیاد رکھی جسے بعد ازاں متحدہ قومی موومنٹ کے نام سے بدل دیا گیا۔ جب الطاف حسین کو پذیرائی ملی تو پھر انہوں نے انا پرستی کی تسکین اور اپنے اقتدار کو وسعت دینے کے لیے ''ٹھیک غلط‘‘ کے درمیان تمیز کرنے کا تکلف چھوڑ دیا اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ الطاف حسین نے کھلم کھلا اسلحہ خریدنے‘ اسے استعمال کرنے اور بزور شمشیر اپنے ''مقاصد‘‘ پورے کرنے کی تلقین شروع کر دی۔ ان کی مقبولیت کا یہ عالم تھا کہ وہ جو کچھ کہتے سندھ کے شہری علاقوں کے عوام اس پر آمنا و صدقنا کہتے۔کراچی میں بدامنی اور دہشت گردی اپنے نقطۂ عروج کو پہنچ گئی۔ چھوٹا یا بڑا کوئی شخص محفوظ نہ تھا۔ حکیم سعید اور صلاح الدین جیسے مشہور رہنما دن دہاڑے قتل کر دیے گئے۔ 1992ء میں الطاف حسین لندن فرار ہو گئے۔ انہیں پاکستان اور لندن میں قتل و غارت کے کئی مقدمات کا سامنا ہے۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ایک دلِ درد مند رکھنے والا ایک مقبول رہنما آئینی پٹڑی سے اتر گیا۔ اس نے کراچی کو امن و آشتی کا گہوارہ بنانے کے بجائے اپنی انا کی تسکین کے لیے بدامنی کا دوزخ بنا دیا۔ آج بھی اہل کراچی سٹریٹ کرائمز کے جبڑے میں بری طرح جکڑے ہوئے ہیں۔
آج سے تقریباً ربع صدی قبل جناب عمران خان نے کرکٹ کی دنیا میں اپنی ناموری اور فلاحی کاموں میں اپنی نیک نامی کی بدولت کوچۂ سیاست میں قدم رکھا تو شروع میں لوگوں نے زیادہ توجہ نہ دی مگر پھر آہستہ آہستہ شاید انہیں اندرون ملک سے کچھ ایسے اتالیق اور بیرونِ ملک برطانیہ و امریکہ میں کچھ ایسے تھنک ٹینک اور لابیاں ملیں جنہوں نے انہیں مسندِ اقتدار پر براجمان ہونے اور عوامی مقبولیت و شہرت حاصل کرنے کے گر بتائے۔ شروع میں عمران خان بہت سادہ طبیعت تھے اور یہی سادگی ان کی کشش تھی۔ جدہ اور اسلام آباد میں ان کے محدود سیاسی پروگراموں اور ان کے ساتھ ذاتی ملاقاتوں میں ہم اسی سادگی پر مر مٹے تھے۔ عمران خان کوئی باضابطہ خطیب یا مقرر تو نہ تھے مگر انہوں نے عوامی خطابت کا ایک ایسا انداز اپنایا کہ جو ان کی بات سنتا وہ ان کا گرویدہ ہو جاتا۔ گویا
دیکھنا تقریر کی لذت کہ جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے
عمران خان شہری آزادیوں‘ قانون کی بالادستی امیر اور غریب سب کے لیے ایک قانون‘ کرپشن کے خاتمے‘ ہر شخص کے لیے روزگار اور اپنی چھت کی بات کرتے تو لوگ ان کی بار بار دہرائی گئی تقریر دل پذیر سنتے اور سر دھنتے۔ البتہ کم لوگوں نے اس حقیقت کو باور کیا کہ عمران خان کی روز اوّل سے آرزو حصولِ اقتدار تھی۔ ان کی خواہش یہ تھی کہ انہیں اقتدار ملنا چاہیے‘ چاہے وہ کسی راستے سے ہی کیوں نہ ہو۔
ہم اس ساری تفصیل کو تاریخ کے حوالے کرتے ہیں کہ کس کس کے سہارے اور کس کس کے اشارے پر بالآخر خان صاحب 2018 ء میں حاکم بن گئے۔ جناب عمران خان بہت خوش قسمت ہیں کہ انہیں نہ صرف نوجوانوں کی طرف سے بڑی پذیرائی ملی بلکہ مڈل کلاس کو بھی اپنے دیرینہ خوابوں کی تعبیر اس مسیحا کی صورت میں نظر آئی ہے۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خان صاحب عوامی مقبولیت کے عطیۂ خداوندی کی قدر کرتے اور فراخدلی اور سمجھداری سے کام لیتے۔ اپوزیشن کو گلے لگاتے‘ مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے سابقہ حکمرانوں کے تجربات سے فائدہ اٹھاتے اور جمہوریت و معیشت کے استحکام کے لیے سب کو ساتھ لے کر چلتے۔ تاہم خان صاحب نے کسی کی بات نہ سنی اور آئی ایم ایف سے کڑی شرائط پر قرضہ لینے کا معاہدہ کر لیا اور پھر اس طاقتور مالیاتی ادارے کو ناراض کرنے کے لیے ان شرائط پر عملدرآمد بھی نہ کیا۔ جب ایک آئینی طریقے سے اپوزیشن برسراقتدار آ گئی تو عمران خان نے اسے بیرونی مداخلت اور اندرونی سازش کا شاخسانہ قرار دے دیا۔ انہوں نے ملک کے انتہائی واجب الاحترام ادارے کے سربراہان کے بارے میں ناروا زبان استعمال کی۔ عمران خان یہ کہہ کر آئے تھے کہ وہ یہاں مغرب جیسا رول آف لا قائم کریں گے مگر جس طرح انہوں نے اپنے مخالفین پر جھوٹے مقدمات قائم کروائے اس سے معلوم ہو گیا کہ وہ قانون کی نہیں اپنی انا کی عملداری چاہتے تھے۔
تازہ ترین دو آڈیو لیکس نے عمران خان کے سائفر بیانیے کے غبارے سے ہوا نکال دی ہے۔ ان لیکس میں خان صاحب معمول کے ایک سفارتی سائفر کو پاکستان کے خلاف ''سازش‘‘ قرار دینے کی منصوبہ بندی کرتے سنائی دیتے ہیں۔ جب عمران خان محافظ سے چوروں اور ڈاکوؤں کا راستہ روکنے کا مطالبہ کرتے ہیں تو گویا وہ ملک کے اداروں کی نفی کرتے ہیں۔جناب عمران خان جانے انجانے میں استحکام نہیں انتشار اور آئین کی بالادستی کے بجائے آئین شکنی کے مرتکب ہوئے ہیں۔ عوامی مقبولیت عطیۂ خداوندی اور ایک قومی اثاثہ ہے۔ خان صاحب کم از کم اپنے مقررکردہ صدر عارف علوی ہی کی بات سن لیں۔ مقبول لیڈر شپ اگر ملک کو کچھ دینے کے بجائے اپنی انا پسندی کے ٹریپ میں پھنس کر رہ جائے تو اس کا انجام اچھا نہیں ہوتا۔ اللہ عمران خان کو کسی بھی ناخوشگوار انجام سے محفوظ رکھے۔ آمین۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں