محسنِ انسانیتﷺ

ہفتے کے دن جب یہ کالم آپ کی نظروں سے گزرے گا تو اس سے اگلے روز پاکستان بھر کے گلی کوچوں میں جشنِ میلادِ رسولﷺ عقیدت و مسرت سے منایا جائے گا۔اس مناسبت سے محسنِ انسانیتﷺ کی مکۃ المکرمہ سے ہجرت کے بعد مدینہ منورہ آمد کے موقع پر اُن کے والہانہ استقبال کی چند جھلکیاں ملاحظہ کیجیے۔
پروانے شمع رسولﷺ کی راہ میں
کھڑے تڑپ رہے تھے
ادھر رک جائیے
آقا فرماتے ہیں:
''آپ پر خدا کی برکت ہو
میری ناقہ خدا کے حکم پہ ہے
جدھر رکے گی ادھر رہوں گا‘‘۔ (آقا: ابدال بیلا)
ناقہ‘ جس کا لقب قصوا ہے‘ بنو نجار کے محلے میں کئی بار رکی‘ کہیں ٹھہری اور پھر چل پڑی۔ بالآخر ناقہ مدینہ کے 31 سالہ خوش خصال ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے اطمینان سے بیٹھ گئی۔ ابو ایوبؓ نے فرطِ محبت سے قصوا کا کجاوہ ہاتھوں میں لیا اور جذبات کو آواز میں ڈھالتے ہوئے عرض کیا:آقا! وہ سامنے قریب ترین گھر ہمارا ہے۔ ہمیں میزبانی کا شرف بخشیے۔ بنو نجار کے بخت کا ستارہ جس طرح سے روشن ہوا اس کی تابانی کے جلوے کوئی اس محلے کے باسیوں سے پوچھے۔
اس قبیلے کی بچیاں شوق و ذوق سے گا رہی تھیں: ہم ہیں بنو نجار کی لڑکیاں۔ محمدﷺ کتنے اچھے پڑوسی بن گئے۔ اس مطلع کے بعد ان لڑکیوں نے جو نغمہ مل کر گایا اسے آج تک عقیدت و محبت سے سنا بھی جاتا ہے اور الاپا بھی جاتا ہے۔
وداع کی گھاٹیوں کی طرف سے
چودہویں کا چاند ہم پر طلوع ہو گیا ہے
ہم پر شکر واجب ہو گیا ہے
جب تک کوئی پکارنے والا اللہ کو پکارتا رہے
شاید صفحہ ہستی پر محلہ بنو نجار اس روز باوقار مسرت سے جس طرح سرشار تھا‘ ایسی خوشی کہیں اور دیکھنے سننے میں نہ آئی ہو گی۔
مائیکل ایچ ہارٹ نے دنیا پر سب سے زیادہ اثرانداز ہونے والے ایک سو افراد کی فہرست مرتب کی اور اسے کتابی شکل میں 1978 ء میں پہلی بار شائع کیا۔ جب سے یہ کتاب منظرِعام پر آئی ہے بلامبالغہ اس کی لاکھوں کاپیاں فروخت ہو چکی ہیں۔ اس کتاب میں پیغمبر بھی ہیں‘ مختلف مذاہب کے بانی بھی ہیں‘ سائنسدان بھی ہیں‘ فلسفی بھی ہیں‘ مؤرخ اور تاریخ دان بھی ہیں‘ سیاست دان اور حکمران بھی ہیں‘ شعرا اور مصنفین وغیرہ بھی ہیں۔ فاضل مصنف نے اپنی کتاب میں شخصیات کو منتخب کرنے کا معیار یہ وضع کیا ہے کہ کس شخصیت نے بنی نوع انسان کو کتنا زیادہ متاثر کیا ہے۔ صاحبِ کتاب نے ہر طرح کے تعصبات سے ماورا ہو کر دیانتداری سے کام لیتے ہوئے ایک سو شخصیات میں جناب محمد مصطفی ﷺ کی ذاتِ بابرکات کو پہلے نمبر پر رکھا ہے۔ مائیکل ایچ ہارٹ نے اس حسنِ انتخاب کی تفصیلات بتاتے ہوئے لکھا ہے کہ محمدﷺ نے لوگوں کی زندگیوں کو بدل دیا اور انہیں پہلے سے بالکل مختلف شخصیات بنا دیا۔ جناب مصطفی ﷺ نے یہ کارنامہ انفرادی طور پر ہی نہیں بلکہ معاشروں کو بھی یکسر نیا رنگ و روپ عطا کیا۔ مصنف نے آنحضورﷺ کی فتوحات کی بہت تعریف و تحسین کی ہے۔ مائیکل کے علمی مشاہدے کے مطابق کم عرصے میں اسلام کے دور دور تک پھیلائو میں محمدمصطفی ﷺ کا کلیدی کردار تھا۔ صاحبِ کتاب نے جزیرۃ العرب متحد کرنے اور اپنے بعد خلفا کے ادوارِ حکومت کو بھی جناب مصطفی ﷺ کا کارنامہ شمار کیا ہے۔
بلاشبہ خدا کے آخری رسولﷺ کا سراجِ منیر اس وقت جگمگایا جب پوری انسانیت گھٹا ٹوپ اندھیروں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہی تھی۔ کہیں وحشت و بربریت عروج پر تھی اور کہیں شرک و بت پرستی کا پرچار کرنے والے انسانوں کو اپنے ہی تراشیدہ بتوں کے سامنے جھکنے کے فوائد گنوا رہے تھے۔ مصر اور ہندوستان‘ بابل اور نینوا‘ یونان اور چین میں پرانی تہذیبیں اپنی شمعیں گل کر چکی تھیں۔ اس وقت فارس اور روم اپنی شان و شوکت کے پھریرے ہوا میں لہر ارہے تھے۔ ایرانی و رومی عظمت کی ظاہری چمک دمک ہر طرف پھیلی ہوئی تھی مگر ان شیش محلوں کے اندر بدترین مظالم کا دور دورہ تھا۔ بادشاہ خدا کے اوتار ہی نہیں خود خدا بنے ہوئے تھے۔ اُن کے ساتھ جاگیردار اور مذہبی پیشوا نتھی تھے۔ عام انسانوں کی گردنوں کو بادشاہوں کے کارندوں نے دبوچ رکھا تھا۔ وہ عوام الناس سے بھاری ٹیکس‘ رشوتیں اور نذرانے وصول کرتے اور اُن سے جانوروں کی طرح بیگاریں لیتے تھے۔ انہیں لوگوں سے کوئی ہمدردی تھی اور نہ ہی اُن کے مسائل حل کرنے میں کوئی دلچسپی۔
یہ تھے وہ حالات جن میں محمدﷺ تبدیلی کا پیغام لے کر یک و تنہا اٹھتے ہیں۔ مایوس کن حالات اور حریفانہ ہتھکنڈے قدم قدم پر اُن کا راستہ چٹانوں کی طرح روکے کھڑے تھے۔ کوئی دوسرا ہوتا تو تبدیلی کی اس جدوجہد کو بھاری پتھر سمجھ کر چومتا اور چھوڑ دیتامگر اللہ کے رسول ایک لمحے کے لیے بھی اس مقدس مشن کو چھوڑنے کا خیال دل میں نہ لائے۔ پھر چشم فلک نے دیکھا کہ روم اور ایران کے مقابلے میں کھڑی ہونے والی تیسری قوت نہ صرف میدان میں اتری بلکہ دیکھتے دیکھتے اس نے اپنے زمانے کی دو عالمی قوتوں کو چیلنج کر دیا۔ پھر تاریخ نے یہ گواہی بھی دی کہ اس تیسری قوت نے پہلی دونوں قوتوں کا تختہ الٹ دیا اور عوام الناس کو اُن کے سیاسی و سماجی چنگل سے رہائی دلائی۔ یوں رسول پاک ﷺخلقِ خدا کے لیے نجات دہندہ ثابت ہوئے۔کئی صدیوں تک انسانیت کو علم و حکمت اور عدل و انصاف کا درس دینے اورعملاً انہیں ظلم و ستم سے رہائی دلوانے والی امت آج مظلوم و مجبور کیوں بنی ہوئی ہے؟
آج دنیا میں ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمان ہیں مگر اُن کی اکثریت اُن صفات سے عاری ہے جن صفات کی بنا پر انہیں دنیا کی سیادت و قیادت نصیب ہوئی تھی۔ مسلم دنیا کے اکثر ملکوں میں بادشاہتیں ہیں یا فوجی آمریتیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ مسلمان ایک ہاتھ میں مصدرِ رشد و ہدایت قرآن پاک اور دوسرے ہاتھ میں سیرتِ طیبہ کو تھامتے‘ اللہ کی رسی کو مضبوطی سے پکڑتے‘ آپس میں جسدِ واحد کی طرح الفت و یگانگت پیدا کرتے اور دنیا میں اُسی طرح معزز و محترم بن جاتے جیسے اُن کے اجداد تھے۔ تاہم مسلم دنیا کی اکثر حکومتیں اسلامی تعلیمات کو خاطر میں لاتی ہیں اور نہ ہی اپنے عوام کی بات سنتی ہیں۔ وہ اقتدار کے تسلسل کے لیے عالمی قوتوں کی طرف دیکھتی اور ان سے ہدایات لیتی ہیں۔ آج ہر اسلامی معاشرے کا فرض ہے کہ وہ جشنِ میلاد النبی منانا چاہتا ہے تو منائے مگر اسوۂ حسنہ پر عمل کرنے کو اپنا شعار بنائے۔ آج من حیث الامت ہمارا فرض ہے کہ ہم دنیا کو بتائیں کہ محسنِ انسانیتﷺ کسی ایک قوم یا علاقے کے لیے نہیں بلکہ ساری خلقِ خدا کے لیے نجات دہندہ بن کر دنیا میں تشریف لائے تھے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں