عمر میری تھی مگر…

جناب منیر نیازی نے کیا خوبصورت شعر کہا ہے:
میری ساری زندگی کو بے ثمر اُس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اُس نے کیا
اس شعر کے مصداق جناب عمران خان کا تازہ بیان یہ ہے کہ ''اقتدار میرا تھا مگر اختیار کسی اور کا تھا‘‘ یہ راز اب کو ئی راز نہیں کہ عمران خان کو برسرِاقتدار لانے کے لیے شب و روز بھاگ دوڑ کس نے کی۔ الیکٹ ایبلز خان صاحب کو مہیا کرنے اور وزیراعظم بننے تک قدم قدم پر کس نے اُن کی دل و جان سے مدد کی۔ عمران خان کو یاد ہو کہ نہ یاد ہو مگر اہلِ نظر کو سب کچھ ذرا ذرا یاد ہے۔
خان صاحب کے تازہ ترین بیان کی قدرے تفصیل یہ ہے۔ فرماتے ہیں '' آدھا اختیار بھی ملتا تو شیر شاہ سوری سے مقابلہ کرتے‘ ذمہ داری میری‘ پاور کسی اور کے پاس تھی‘ مجھے اپنا جج چاہیے نہ آرمی چیف‘‘۔ یہی عمران خان کل قوم کو بتایا کرتے تھے کہ وہ مقتدرہ کے ساتھ ایک پیچ پر ہیں۔ وہ کہا کرتے تھے کہ سابق حکمرانوں کو ''پاور فل‘‘ لوگوں کے ساتھ بنا کر رکھنے کا فن نہ آتا تھا‘ اس لیے وہ محرومِ اقتدار ہوئے۔ مجھے حسنِ تعلقات کا سلیقہ آتا ہے۔ یہی عمران خان آج مقتدرہ کو طعنے دیتے ہیں۔ خفیہ کارروائیوں کے بارے میں عدالتی تحقیق کروانا چاہتے ہیں۔ کل یہی پی ٹی آئی کے چیئرمین فخریہ بتایا کرتے تھے کہ باخبر رہنا اور وزیراعظم کو باخبر رکھنا ایجنسیوں کا اوّلین فرض ہے۔
یوں تو عمران خان سے پوچھنے والے ایک دو نہیں سو سوال بنتے ہیں مگر بدھ کے روز لاہور کی مختلف تقریبات میں اُن کے خطابات کے بارے میں پوچھنے والا صرف ایک سوال ہے کہ خان صاحب‘ آپ تو بڑے نڈر‘ بیباک اور بے غرض حکمران تھے۔ جب آپ کے پاس آدھا بھی اختیار نہ تھا تو پھر آپ اقتدار سے کیوں چمٹے رہے؟ آپ اقتدار سے مستعفی کیوں نہ ہوئے؟ آپ کے بقول عوام نے آپ کو منتخب کیا تھا تو پھر آپ نے عوام کی امانت انہیں بروقت لوٹانے کا فیصلہ کیوں نہیں کیا؟ آپ نے عوام کو اعتماد میں کیوں نہ لیا کہ میں بے اختیار ہوں اس لیے آپ سے کیے گئے وعدے پورے نہیں کر سکتا۔ ''آدھے سے بھی کم‘‘ اقتدار جاتے ہوئے دیکھا تو آپ 5 ووٹ خریدنے اور 5 ووٹ غیب سے مینج کروانے کے لیے ہاتھ پائوں مارتے ہوئے دکھائی بھی دیے اور سنائی بھی۔ اس قانون شکنی کا جواب آپ کے ذمے ہے۔
قارئین! اب آپ سے کیا پردہ خان صاحب فرماتے ہیں کہ انہیں اپنا آرمی چیف چاہیے نہ جج۔ قوم کے سامنے عمران خان مقتدر شخصیات کے بارے میں مجمع عام میں قابلِ گرفت القاب استعمال کرتے ہیں مگر شب کی تاریکی میں اپنے نمائندوں کو انہی لوگوں کے منت ترلے کرنے کے لیے بھیجتے ہیں۔ پھر جب ایوانِ صدر میں ملاقات ہو جاتی ہے تو پھر اسی ''بے اختیار اقتدار‘‘ کے لیے منت سماجت کی جاتی ہے کہ پہلے کی طرح فلاں فلاں پارٹی کے ووٹ مینج کر کے دیں تاکہ وہ پھر برسرِاقتدار آ سکیں۔ اس پر انہیں جواب ملتا ہے کہ اب ہم حقیقت میں نیوٹرل ہو چکے ہیں۔ اپنے فیصلے کرنا سیاست دانوں کا اپنا کام ہے۔ اس دو ٹوک جواب کے بعد خان صاحب بہت بدمزہ ہوتے ہیں اور ایک بار پھر مقتدر شخصیات کے خلاف دھاڑتے ہوئے سنائی دیتے ہیں۔
جہاں تک ججز کا معاملہ ہے ان کے بارے میں کبھی ''معتبر جج‘‘ اور کبھی ''اچھی ساکھ‘‘ والے ججز کی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں۔ ایک جج جب میزان عدل تھام کر مسندِ انصاف پر متمکن ہوتا ہے تو پھر وہ اوّل و آخر جج ہوتا ہے اور اپنے خدا اور ضمیر دونوں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے۔اقتدار کے دوران خان صاحب نے مقتدر حلقوں کی کتنی باتیں مانیں اور کتنی نہیں مانیں اس کا تو تفصیلی علم ہمیں نہیں مگر ہم لاہور کے باسی ہونے کے ناتے اتنا جانتے ہیں کہ مقتدر حلقے خان صاحب سے ایک وزیراعلیٰ بھی نہ بدلوا سکے۔ واقفانِ حال جانتے ہیں کہ عمران خان نے اپنے غیرمحتاط اور ناتراشیدہ رویے سے برادر اور قریب ترین دوست ملکوں کے ساتھ تعلقات خراب کر دیے تھے۔ خان صاحب کے طرزِ عمل کے بارے میں یہ دوست ممالک گلے شکوے کرتے تھے اور تعلقات کی گرم جوشی سردمہری میں بدل جاتی تھی۔ تب یہ آرمی چیف ہی تھے کہ جو اپنی ملائمت اور حکمت سے وطنِ عزیز کے لیے ڈیزاسٹر مینجمنٹ کرتے رہے۔ عمران خان اس قومی خدمت کو بھی بھول گئے۔ خان صاحب کی زندگی کا شاید سب سے زریں اصول یہ ہے کہ وقت گزر جانے پر کسی محسن کے احسان کو نہ صرف یاد نہیں رکھنا بلکہ احسان مندی کو اپنے قریب بھی نہیں پھٹکنے دینا۔ یوں لگتا ہے کہ چیئرمین پی ٹی آئی کی سیاسی پالیسی یہ ہے کہ بے دھڑک الزام لگائو‘ جب کوئی ثبوت مانگے تو اس معاملے کو وہیں چھوڑ دو اور اگلا الزام لگا دو۔ اُن کے ترکش میں بے بنیاد الزامات کی کمی نہیں۔ خان صاحب نے روٹین کی تحریک عدم اعتماد کو اپنے خلاف امریکی سازش قرار دیا‘ آنے والی حکومت کو امپورٹڈ کا لقب دیا‘ سائفر کو عوامی جلسوں میں لہرایا۔ سائفر اس مخصوص زبان کو کہتے ہیں جس میں کسی بھی ملک کے سفارتی نمائندے اپنی وزارت خارجہ کو اپنے تازہ مشاہدات کے حوالے سے مسیج بھیجتے رہتے ہیں۔ صدر پاکستان جناب عارف علوی نے بھی کہہ دیا ہے کہ اُن کے خیال میں مشہور زمانہ سائفر میں کوئی سازش نہ تھی۔صدر عارف علوی نے خان صاحب کے غم و غصّے کی کہانی بھی قوم کو ایک جملے میں سنا دی ہے۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ اقتدار سے محروم ہو کر عمران خان فرسٹریشن کا شکار ہو گئے تھے۔ البتہ عمران خان نے ایک اہم سوال اٹھایا ہے کہ وزیراعظم ہائوس کی آڈیوز کیسے لیک ہوئیں؟ تاہم انہوں نے اپنی خلاف آنے والی آڈیوز کی کوئی صفائی نہیں دی۔ ان دونوں سوالوں کی تحقیق ہونی چاہیے کہ وزیراعظم ہائوس کی آڈیوز کیسے لیک ہوئیں نیز خان صاحب اپنی مبینہ آڈیوز کی اونرشپ قبول کرتے ہیں یا نہیں۔
اب خان صاحب نے پیش بندی کے طور پر یہ بھی کہا ہے کہ چور مجھے گندا کرنے کے لیے گندی وڈیوز تیار کر رہے ہیں۔ چیئرمین پی ٹی آئی کو فارن فنڈنگ کیس کا بھی سامنا ہے۔ خان صاحب جس طرح کے دوسروں سے جواب مانگتے ہیں اسی طرح اپنے خلاف ملک کے اہم ترین اداروں میں لگنے والے الزامات کی صفائی بھی پیش کریں۔ خان صاحب سمجھتے ہیں کہ عوام کا حافظہ بہت کمزور ہے۔ بے شک عوام کا حافظہ کمزور ہوتا ہے مگر وہ اپنے قائدین پر لگنے والے الزامات کو خوب یاد رکھتے ہیں۔ تاہم قوم خان صاحب کے متضاد بیانات اور یوٹرنز کے بارے میں بہت کنفیوز ہے۔ عمران خان ہوں یا میاں نواز شریف قوم کو اپنے لیڈروں سے صرف دو سوال پوچھنے چاہئیں کہ آپ نے اپنے دورِ حکومت میں کیا کارنامے انجام دیے اور اگر آپ دوبارہ برسراقتدار آ گئے تو کیا کریں گے؟ بے چاری قوم پچھلے پچھتر برس کے دوران اپنے رہبروں سے امیدیں وابستہ کرتی اور مایوس ہوتی رہی۔ عمران خان مسیحا بن کر آئے تھے۔ انہوں نے قوم کی تقدیر بدلنے کا دعویٰ کیا مگر کوئی ایک وعدہ بھی پورا نہ کیا۔
اب خان صاحب نے تازہ انکشاف یہ کیا ہے کہ اُن کے پاس آدھا اقتدار بھی نہیں تھا۔ اگر اگلی بار برسرِاقتدار آ کر انہوں نے اپنی ناقص کارکردگی کا جواز یہ پیش کیا کہ اُن کے پاس اقتدار تو تھا مگر رتی برابر اختیار نہ تھا‘ تو پھر قوم کیا کرے گی؟ کوئی فیصلہ کرنے سے پہلے عوام اس سوال کا جواب سوچ لے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں