کیا پاکستان خطرناک ترین ملک ہے؟

جمعرات کے روز لاس اینجلس میں لوکل ڈیموکریٹس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی صدر جوبائیڈن نے اچانک گفتگو کا رخ پاکستان کی طرف موڑ دیا۔ ماضی میں بحیثیت نائب صدر جوبائیڈن کی شہرت ایک معاملہ فہم اور زیرک شخصیت کی تھی؛ تاہم امریکی صدر کی حیثیت سے اُس روز اُن کا بیان ناقابلِ فہم تھا۔ انہوں نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملک اور حیران کن طور پر پاکستان کے جوہری پروگرام کو غیرمحفوظ قرار دیا۔
مسٹر بائیڈن نے جو کچھ کہا وہ سو فیصد خلافِ حقیقت ہے۔ پاکستان کا جوہری پروگرام بہترین کمانڈ اینڈ کنٹرول سسٹم کے تابع ہے۔ امریکی صدر کا اندازِ گفتگو غیر ذمہ دارانہ ہی نہیں سفارتی آداب کے بھی منافی تھا۔ مسٹر بائیڈن کی بے وقت اور بے موقع تنقید غیر ذمہ دارانہ ہی نہیں بلکہ عالمی سطح پر سفارتی حلقوں کے لیے بھی غیرمتوقع تھی۔ وہ لاس اینجلس کی تقریب میں چین اور روس کی پالیسیوں کو نشانۂ تنقید بنا رہے تھے۔ اس موقع پر پاکستان کے خلاف اتنے تند و تیز لہجے سے‘ کیا اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت کو کوئی ملفوف پیغام دینا تو مقصود نہیں؟ یہ پیغام کہیں ویسا تو نہیں جو جارج ڈبلیو بش نے نائن الیون کے موقع پر پاکستان کو دیا تھا کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا ہمارے مخالف ہیں۔ مراد یہ کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں یا چین اور روس کے ساتھ۔ پاکستان نے جوبائیڈن کے اس بے بنیاد بیان کو یکسر مسترد کر دیا ہے اور اسلام آباد میں امریکی سفیر کو وزارتِ خارجہ بلا کر شدید احتجاج کیا ہے۔
2016ء کے بعد سے لے کر چند ماہ پہلے تک امریکہ اور پاکستان کے تعلقات میں ایک سرد مہری پائی جا رہی تھی۔ اب کئی ماہ سے امریکہ کی طرف سے قدرے التفات دیکھنے میں آ رہا تھا۔ کہا یہ جا رہا تھا کہ ہمارے پاکستان کے ساتھ 75 سالہ تعلقات ہیں جن کی ہم ایک بار پھر تجدید چاہتے ہیں۔ امریکہ کو جب پاکستان کی ضرورت ہوتی ہے تب اس کے رویے میں گرم جوشی نمایاں ہو جاتی ہے اور جب ہماری ضرورت نہیں رہتی تو امریکہ آنکھیں پھیرنے میں دیر نہیں لگاتا۔ 2017ء کے اواخر میں امریکہ کی یونیورسٹی آف الینوائے ایٹ اورباناشیمپیئن میں مجھے ''پاک امریکہ تعلقات‘‘ کے موضوع پر ایک سیمینار سے خطاب کا موقع ملا تو میں نے بے دھڑک دل کے پھپھولے پھوڑے اور امریکی پروفیسروں‘ سکالروں اور طلبہ و طالبات کو پاک امریکہ تعلقات کی تاریخ یاد دلائی۔ میں نے عرض کیا کہ دنیا میں امریکہ جمہوریت اور بنیادی انسانی حقوق کا چیمپئن بنتا ہے مگر ہمیشہ پاکستان جیسے تیسری دنیا کے ملکوں میں جمہوری حکومتوں کی حوصلہ شکنی کرتا اور آمریت کو آنکھوں پر بٹھاتا ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے درمیان دو طرفہ روابط کا سنہری دور ایوب خان کا ابتدائی دورِ حکومت تھا۔ امریکہ میں پہلے ایوب خان کا بطور وزیر دفاع اور پھر بحیثیت صدرِ مملکت غیرمعمولی استقبال کیا گیا۔ امریکہ کو 1950ء کے ابتدائی برسوں میں سیٹو اور سینٹو کے لیے پاکستان کی حسبِ منشا کردار ادا کرنے کے لیے ضرورت تھی۔ جب سپر پاور کو ایوب خان کی ضرورت نہ رہی تو اُس نے اُن سے بھی آنکھیں پھیر لیں۔ تبھی ایوب خان نے امریکہ کے حوالے سے اپنی خود نوشت تحریر کی جس کا عنوان تھا: ''فرینڈز ناٹ ماسٹرز‘‘۔ ایوب خان کے بعد 1971ء میں امریکہ‘ پاکستان پر بھارتی حملے کو روک سکا اور نہ ہی ہمارے وطنِ عزیز کو دو لخت ہونے سے بچا سکا۔ دورِ آمریت کے بعد 1972ء سے 1977ء تک کے جمہوری دور میں پاک امریکہ تعلقات نہایت کشیدہ رہے۔ اس دور کے وزیر خارجہ ہنری کسنجر نے منتخب وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کو فرانس سے جوہری توانائی پلانٹ حاصل کرنے کا ارادہ ترک نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو بھیانک انجام سے دوچار کرنے کی دھمکی دی تھی۔
1980ء سے لے کر 1989ء تک‘ صدر ضیا الحق کے زمانے میں امریکہ کو افغانستان میں روس کی ہزیمت کے لیے پاکستان کی ضرورت تھی۔ پاکستان کے افغان جہاد میں مدد کرنے کے اپنے اہداف تھے۔ اُس زمانے میں پاک امریکہ تعلقات اپنے عروج پر تھے مگر آخر میں امریکہ اور صدر ضیا الحق کے تعلقات کشیدہ ہو گئے۔ نائن الیون کے بعد جب امریکہ نے افغانستان کی اینٹ سے اینٹ بجانے کا ہدف طے کیا تو پرویز مشرف نے امریکہ کو ہوائی اڈے اور مکمل لاجسٹک سپورٹ دی۔ جواباً امریکہ نے پاکستان کو دفاعی‘ مالی اور فنی معاونت دی۔ تعلیمی وظائف دیے اور عسکری تربیت کے وافر مواقع فراہم کیے۔ پاکستانی لیڈروں نے مجموعی طور پر امریکی صدر کے بیان کو مسترد کر دیا ہے۔ جناب عمران خان‘ میاں نواز شریف اور امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے امریکی صدر کے بیان کی بھرپور مذمت کی ہے اور اسے بلاجواز قرار دیا ہے۔ پی ٹی آئی کے چیئرمین نے صدر جوبائیڈن کے بیان کی مذمت کی اور امریکی صدر کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان جب سے ایٹمی قوت بنا ہے اس نے دنیا میں کبھی جارحیت نہیں کی۔ عمران خان نے موجودہ حکومت سے چبھتا ہوا سوال کیا ہے کہ کیا یہ ہے امریکہ سے تعلقات کی بحالی؟
موجودہ حکومت جب سے برسر اقتدار آئی ہے وہ یہی ڈنکا بجا رہی ہے کہ عمران کے دورِ حکومت میں امریکہ کے ساتھ تعلقات نہایت نچلے درجے پر چلے گئے تھے مگر ہم نے آ کر تعلقات بحال کرنے شروع کیے ہیں۔ حکومت‘ وزیراعظم شہباز شریف کی جوبائیڈن کے ساتھ اور وزیرخارجہ بلاول بھٹو زرداری کی امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن کے ساتھ اپنی ملاقاتوں کا کریڈٹ لیتی ہے۔ اصل حیرانی اس پہ ہے کہ پاکستان جو 2020ء تک امریکہ کا فرنٹ لائن اتحادی تھا اوراب پھر تعلقات میں بہتری کے باوجود یکایک امریکی صدر نے یہ بیان کیوں داغ دیا۔ دراصل افغانستان میں امریکی ہزیمت اور خطے میں بڑھتے ہوئے چینی اور روسی اثرات سے امریکہ پریشان ہے۔ صدر جوبائیڈن نے اپنا غصہ پاکستان پر اتارا ہے۔ امریکہ کو سی پیک منصوبہ بھی ایک آنکھ نہیں بھاتا۔
حکومت ملکی سیاست کو بالائے طاق رکھتے ہوئے عمران خان کی پی ٹی آئی سمیت تمام سیاسی جماعتوں کے قائدین کی کانفرنس فی الفور بلائے۔ متفقہ طور پر امریکی صدر کے بیان کی مذمت کی جائے۔ امریکہ کو باور کرائے کہ ایٹمی معاملات سے منسلک بیرونی افسران اور عالمی تھِنک ٹینکس پاکستان کے جوہری پروگرام پر مکمل اطمینان کا اظہار کر چکے ہیں۔ اس لیے امریکی صدر کا بیان باخبر نہیں ''بے خبر‘‘ ہونے کا شاخسانہ ہے۔ اس موقع پر دوٹوک انداز میں امریکہ پر واضح کیا جائے کہ ہم غلام ہیں نہ باجگزار۔
پاکستان کے قائدین کو نہایت سنجیدگی سے سوچنا چاہیے کہ امریکہ ہمیں ہر دو چار سال کے بعد دھمکیاں کیوں دیتا رہتا ہے؟ ان دھمکیوں کا بنیادی سبب ہمارا سیاسی عدم استحکام اور ہماری معاشی تباہی ہے۔ سیاسی زعما کو ملک کے بنیادی مسائل کے بارے میں نہایت سنجیدگی سے سوچنا اور ایک قومی حکمت عملی وضع کرنے پر غور و فکر کرنا چاہیے۔ ہماری آبادی بے تحاشا بڑھ رہی ہے‘ پانی کے ذخائر میں بے پناہ کمی ہو رہی ہے‘ وسائلِ معیشت سے خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا جا رہا۔ اوپر سے سیاست دانوں نے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرکے ملک کو اس حال تک پہنچا دیا ہے۔ جب تک ہم ہوش کے ناخن اور بالغ نظری سے کام نہیں لیں گے اور اپنی سیاست و معیشت کو مضبوط بنیادوں پر کھڑا نہیں کریں گے اس وقت تک ہمیں یونہی دھمکیاں ملتی رہیں گی۔ پاکستان خطرناک ترین نہیں ہر عالمی معیار کے مطابق ایک پُرامن ملک اور اس کے ایٹمی اثاثے محفوظ ترین ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں