انتخاب سے فرار نامنظور

لوکل حکومتیں یا بلدیاتی ادارے گڈگورننس کی جان سمجھے جاتے ہیں۔ لندن‘ نیویارک اور استنبول جیسے بڑے شہروں میں امن و امان‘ صحت و صفائی اور ٹرانسپورٹ وغیرہ کی اعلیٰ سہولتیں انہی مقامی اداروں کی مرہونِ منت ہیں۔ مگر اسلامی جمہوریہ پاکستان کے بڑے شہروں کی پارلیمانی حکومتیں بلدیاتی اداروں سے یوں خوفزدہ رہتی ہیں جیسے کوّا غلیل سے۔ گڈ گورننس ان صوبائی حکومتوں کا مسئلہ ہی نہیں۔ آج کل جماعتِ اسلامی کی قیادت میں کراچی کے در و بام اس نعرے سے گونج رہے ہیں:
''انتخاب سے فرار نامنظور‘‘
میں نے جب تک بلدیہ عظمیٰ استنبول کے مرکزی دفتر کو وزٹ نہیں کیا تھا اور شہر میں مقامی حکومت کی مہیا کردہ سہولتوں کا بچشم خود مشاہدہ نہیں کیا تھا‘ اس وقت تک میں بلدیاتی اداروں کی بے پناہ اہمیت و افادیت کا قائل نہ تھا۔ استنبول کے شہری کسی ''کرشماتی شخصیت‘‘ یا استحصالی و جذباتی نعرے کو نہیں ہر پارٹی کی حسن کارکردگی دیکھ کر ووٹ دیتے ہیں۔
استنبول کارپوریشن کے دائرۂ اختیار میں پبلک تعمیرات‘ صحت‘ تعلیم‘ ماحولیات‘ پانی‘ ٹریفک‘ ٹرانسپورٹ‘ آبادی‘ زمین کی رجسٹری اور دیہاتی خدمات وغیرہ شامل ہیں۔ پاکستان کے مرکزی و صوبائی حکمرانوں نے ہمیشہ بلدیاتی اداروں کے انتخاب کا راستہ روکا ہے۔ گزشتہ 45 برس کے دوران کراچی میں چھ انتخابات ہوئے جن میں 2015ء کے سوا باقی سارے غیر جمہوری ادوار میں ہوئے۔ حالیہ چار ماہ کے دوران کراچی کے انتخابات کو وہاں کی حکومت اور کئی دوسری جماعتوں نے تین بار ملتوی کروایا ہے۔
23 اکتوبر کو کراچی اور سندھ کے دیگر چند اضلاع میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا حتمی شیڈول الیکشن کمیشن نے جاری کر دیا تھا مگر صرف پانچ روز قبل چیف الیکشن کمشنر نے انتخابات ملتوی کردیے۔ بظاہر یہ کام پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم وغیرہ کے دباؤ کی وجہ سے ہوا۔ چیف الیکشن کمشنر راجہ سکندر سلطان کو جتنا میں جانتا ہوں اس سے مجھے اندازہ تھا کہ وہ آئین و قانون پر حرف بحرف عمل کرتے اور فولادی اعصاب کے مالک ہیں‘ مگر کراچی کے انتخابات کے حوالے سے اُن کے اعصاب تارِ عنکبوت ثابت ہوئے ہیں۔
کراچی میں بڑی بڑی سیاسی جماعتیں بلدیاتی انتخاب سے کیوں راہِ فرار اختیار کر رہی ہیں؟ ایم کیو ایم کو یہ خدشہ تھا کہ کراچی سمیت دیگر شہروں میں بلدیاتی انتخابات ہوئے تو شہر سے اس کا صفایا ہو جائے گا۔ چند روز پہلے کراچی کے ضمنی انتخاب میں ایم کیو ایم کو عمران خان کے مقابلے میں صرف 18 ہزار ووٹ ملے۔ اس کارکردگی نے ایم کیو ایم کے اندیشے پر مہر تصدیق ثبت کر دی ہے۔ سندھ کے شہری علاقوں سے ایم کیو ایم کا اب چل چلاؤ یقینی نظر آ رہا ہے۔ اس پارٹی نے 34 برس حکومت میں رہ کر شہریوں کو قتل و غارتگری‘ بوری بند لاشوں اور چوروں ڈاکوؤں کے علاوہ کچھ نہیں دیا۔
پیپلز پارٹی کا اندازہ تھا کہ وہ ایم کیو ایم کے ساتھ مل کر کچھ نہ کچھ سیٹیں حاصل کر لے گی مگر انتخابات کی تاریخ کے قریب آتے ہی انہیں معلوم ہو گیا کہ اہلِ کراچی کا موڈ بالکل بدل چکا ہے۔ 30 اگست 2020ء میں سندھ کے بلدیاتی اداروں کی ٹرم ختم ہوئی تو آئین کے مطابق 120 دنوں میں انتخابات کا انعقاد ہو جانا چاہیے تھا مگر ''نئی قانون سازی‘‘ کا بہانہ بنا کر سندھ حکومت ان انتخابات کو ٹالتی رہی۔ میئر کراچی کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن نے چیف الیکشن کمشنر کو ان کی آئینی و منصبی ذمہ داریاں یاد دلائیں تو انہوں نے سندھ کے بلدیاتی انتخاب کے لیے 24 جولائی کی تاریخ مقرر کر دی۔ اس بار پی ٹی آئی نے مون سون کا عذر پیش کرکے انتخابات کو ملتوی کرا لیا۔
24جولائی کے التوا کے بعد 28 اگست کی تاریخ مقرر ہوئی تو پیپلز پارٹی نے سیلابوں کو بہانہ بنا کر ایک بار پھر سندھ کے شہری علاقوں میں انتخابات ملتوی کرانے کے لیے درخواست کی اور پسِ پردہ چیف الیکشن کمشنر پر دبائو بڑھا دیا۔ ایک بار پھر 23 اکتوبر کو بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا گیا۔ اب سندھ میں نہ بارشیں ہیں‘ نہ سیلاب ہیں‘ نہ پولیس کہیں گئی ہے نہ رینجرز کی کوئی ایمرجنسی ڈیوٹیاں لگی ہوئی ہیں۔ کراچی میں پیپلز پارٹی‘ ایم کیو ایم اور پی ٹی آئی بلدیاتی انتخابات اس لیے ملتوی کرانا چاہتی ہیں کہ اُن کے پاس شہریوں کے اس سوال کا کوئی جواب نہیں کہ:
پیش کر غافل عمل کوئی اگر دفتر میں ہے
اس معاملے میں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کا دفترِ عمل خانہ آبادی کا نہیں خانہ بربادی کا ہے۔ اڑھائی تین کروڑ کے شہر کراچی میں جگہ جگہ گندگی کے پہاڑ دکھائی دیتے ہیں‘ مین ہولز کے ڈھکن نہیں‘ سڑکیں ٹوٹ کر گڑھوں اور جوہڑوں میں بدل چکی ہیں‘ پینے کا پانی نایاب ہے۔
جس طرح نالائق طالب علم امتحان سے پہلے تیاری نہیں کرتے اور جب امتحان سر پر آ جاتا ہے تو پھر امتحان ملتوی کرانے کی کوشش کرتے ہیں۔ پنجابی زبان کی کہاوت ہے کہ ''بوہے آئی جنج وِنھو کڑی دے کن‘‘ اور ایم کیو ایم کے سابق بلدیاتی نمائندے سالوں بعد اپنے حلقوں میں جا رہے ہیں۔ گٹروں پر ڈھکن رکھے جا رہے ہیں اور بعض سڑکوں کی مرمت کی جا رہی ہے۔ مگر کراچی کے پہاڑ جتنے مسائل کے سامنے یہ اشک شوئی رائی کے برابر بھی نہیں۔
میں نے کراچی کی میئر شپ کے امیدوار حافظ نعیم الرحمن سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ جماعتِ اسلامی کے علاوہ دوسری سیاسی جماعتیں کراچی میں بلدیاتی انتخابات سے بار بار کیوں کترا رہی ہیں؟ حافظ صاحب نے کہا کہ کراچی کی خدمت کی ہماری ایک تاریخ ہے‘ 1979ء اور 1983ء میں عبدالستار افغانی دو بار میئر کراچی منتخب ہوئے۔ انہوں نے دیانت و امانت اور خدمت کے زبردست ریکارڈ قائم کیے۔ 2001ء میں نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ میئر منتخب ہوئے تو انہوں نے ترقیاتی و تعمیراتی منصوبوں سے شہریوں کے لیے عالمی معیار کی بے پناہ سہولتیں مہیا کیں۔ انڈر پاسز‘ پل وغیرہ تعمیر کروائے۔ ہسپتالوں میں مریضوں اور سکولوں میں طلبہ و طالبات کو وہ سہولتیں فراہم کیں جو اُن کے تصور میں بھی نہ تھیں۔
جماعت اسلامی دعویٰ کرتی ہے کہ پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا پیجز پر عمران خان کے حامی یہ مہم چلا رہے ہیں کہ وزیراعظم عمران خان مگر میئر کراچی حافظ نعیم الرحمن ہوں گے۔ ایم کیو ایم کے سپورٹرز بھی حافظ صاحب کو میئر کراچی بنانے کے خواہاں ہیں۔ حافظ صاحب نے بتایا کہ وہ دو بار اپنے مطالبات کے لیے چیف الیکشن کمشنر سے ملے اور انہیں ایک معقول شخصیت پایا مگر کراچی کے بارے میں لگتا ہے اُن پر بہت دبائو ڈالا جا رہا ہے۔ چیف الیکشن کمشنر 17 اکتوبر تک جماعت اسلامی کو یقین دلاتے رہے کہ انتخابات ملتوی نہیں ہوں گے مگر انہوں نے 18 اکتوبر کو کسی بڑے دبائو میں آ کر کراچی کے انتخابات تیسری بار غیرمعینہ مدّت کے لیے ملتوی کر دیے۔ حافظ صاحب کا کہنا ہے کہ اگر چیف الیکشن کمشنر دبائو کا ڈٹ کر مقابلہ نہیں کر سکتے تو وہ مستعفی ہو جائیں۔ جماعت اسلامی اس بلاجواز التوا کے خلاف ایک دو روز میں سپریم کورٹ جانا چاہتی ہے۔ اس کے علاوہ روزانہ ہزاروں شہری التوا کے خلاف شدید احتجاج کر رہے ہیں۔ چیف الیکشن کمشنر کو اچھی طرح معلوم ہوگا کہ اُن کے اختیارات چیف جسٹس جتنے ہیں۔ وہ پولیس‘ رینجرز اور فوج سمیت جس ادارے‘ جس صوبے یا وفاق کو چاہیں انہیں احکامات جاری کر سکتے ہیں مگر نہ جانے کیوں وہ احکامات کے بجائے درخواست کرتے ہیں جسے صوبائی حکومتیں اپنے مفادات کے لیے مسترد کر دیتی ہیں۔ اہل کراچی کا ان دنوں ایک ہی نعرہ ہے:
انتخاب سے فرار نامنظور

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں