فرازؔ ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو

میرا دل جب اداس ہو اور دل و دماغ پر دھند سی چھائی ہو اور کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو تو میں میجر عامر صاحب کو فون کرتا ہوں۔ میجر صاحب ایک باخبر شخصیت کی شہرت رکھتے ہیں۔ اللہ نے انہیں مستقبل میں جھانکنے اور الجھے ہوئے حالات میں آنے والے دنوں کا منظرنامہ دیکھنے کی صلاحیت بھی عطا کی ہے؛ تاہم میجر صاحب کی جس صلاحیت کا یہ فقیر معترف و اسیر ہے‘ وہ اُن کا شعری و ادبی ذوق ہے۔ یہ تو بہت کم لوگوں کو معلوم ہو گا کہ میجر صاحب کسی زمانے میں کثرت سے اعلیٰ معیار کے شعر کہتے رہے ہیں۔ وہ احمد فرازؔ کے نہ صرف اسلامیہ کالج پشاور میں شاگرد تھے بلکہ وہ فراز صاحب سے اپنے کلام کی اصلاح بھی لیتے تھے۔ میں نے میجر صاحب سے عرض کیا کہ دل بہت اداس ہے‘ کوئی حسبِ حال شعر عطا فرمائیے۔ موصوف کہنے گے کہ ابھی تھوڑی دیر پہلے فواد چودھری صاحب کا فون آیا تھا‘ میں نے اُن کی کیفیت بھانپتے ہوئے انہیں احمد فراز کا ایک شعر سنایا‘ وہی آپ کو بھی سنا دیتا ہوں۔ فراز صاحب کہتے ہیں:
فرازؔ ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
ہر اک کے ہاتھ کہاں یہ خزانے لگتے ہیں
ڈھارس بندھانے کے لیے اس سے زیادہ برمحل اور اثرانگیز کوئی اور شعر نہیں ہو سکتا۔ میں نے عرض کیا کہ مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی‘ نوابزادہ نصراللہ خان اور چودھری محمد علی جیسے لوگ اب کہیں دکھائی نہیں دیتے کہ جن کی دیانت و امانت کی مخالفین بھی قسمیں کھاتے تھے‘ جن کی اصول پسندی ضرب المثل تھی مگر وہ ملکی و قومی مفاد کے لیے ''انا پسندی‘‘ سے کام نہ لیتے اور آمروں سے بھی اداروں اور جمہوریت کی سربلندی کے لیے مذاکرات کر لیتے تھے۔
میجر عامر مسکرائے اور انہوں نے کہا: بھائی میرا اور آپ کا جو مسئلہ ہے اس کی نہایت خوبصورت عکاسی احمد فراز صاحب کے استاد اور اپنے زمانے کے مشہور شاعر شوکت واسطی نے یوں کی ہے:
شوکتؔ ہمارے ساتھ بڑا حادثہ ہوا
ہم رہ گئے، ہمارا زمانہ چلا گیا
یقینا الیکشن کمیشن آف پاکستان کا عمران خان کو توشہ خانہ ریفرنس میں نااہل قرار دینا نہ صرف خان صاحب کے لیے بلکہ اُن کے چاہنے والوں کے لیے بھی غم کا پہاڑ ہے۔ خان صاحب جس طرح سے اپنے سیاسی مخالفین کو ڈاکو‘ چور اور کرپٹ قرار دیتے تھے‘ اس کے پیشِ نظر انہیں اپنے معاملات کو ''ہینڈل وِد کیئر‘‘ کرنا چاہیے تھا مگر خان صاحب نے کسی قسم کی احتیاط کو ملحوظِ خاطر نہ رکھا۔ اُن کا اپنی حکومت کے دوران اور اب بھی رویہ یہ ہے کہ وہ جو چاہیں گے کر گزریں گے۔ انہیں کوئی پوچھنے کی جرأت نہیں کر سکتا۔خان صاحب کے نزدیک اُن کی مقبولیت اُن کی سب سے مضبوط ڈھال ہے۔ الیکشن کمیشن کا کہنا یہ ہے کہ خان صاحب نے تحائف کی تفصیلات دانستہ چھپائیں اور ان تحائف کی فروخت سے ملنے والی رقوم کا کہیں ذکر نہیں کیا۔ اس سلسلے میں خان صاحب کا یہ طرزِ عمل ہر پاکستانی کے لیے باعثِ حیرت ہے کہ انہیں جو قیمتی گھڑی سعودی ولی عہد کی طرف سے تحفے میں ملی تھی‘ اسے انہوں نے دبئی کی ایک بڑی مارکیٹ میں فروخت کروا دیا۔اس طرح کی دو گھڑیاں خصوصی طور پر سعودی ولی عہد نے تیار کروائی تھیں۔ ان میں سے ایک اُن کے پاس تھی اور دوسری انہوں نے برادر اسلامی ملک کے وزیراعظم عمران خان کو تحفتاً پیش کر دی۔ چاہیے تو یہ تھا کہ خان صاحب اعلان کرتے کہ میں اپنے عزیز دوست کا یہ یادگار تحفہ اپنے اثاثے بھی بیچ کر توشہ خانے سے حاصل کروں گا اور اس کے علاوہ باقی سارے ہیرے جواہرات کی طرف آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھوں گا مگر ہوا اس کے برعکس۔ خان صاحب نے اس گھڑی کی فروخت سے حاصل ہونے والی کروڑوں کی رقم کو کہیں ڈکلیئر بھی نہ کیا۔
قارئین جانتے ہیں کہ میں برسوں سعودی عرب میں مقیم رہا ہوں۔ سعودی کلچر یہ ہے کہ وہ نہ صرف بادشاہ بلکہ کسی دوست کی طرف سے بھی دیے گئے تحفے کو سینے سے لگا کر رکھتے ہیں اور اسے فروخت کرنے کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔ کم و بیش یہی پاکستانی کلچر بھی ہے۔ مگر نہ جانے خان صاحب نے ایسا کیوں کیا؟ خان صاحب کے چاہنے والوں کے لیے جو بات زیادہ صدمے کا باعث بنی ہے وہ یہ ہے کہ خان صاحب کا دنیاوی و مالی معاملات میں طریق کار سابق سیاست دانوں جیسا بلکہ بعض پہلوئوں سے اُن سے بھی زیادہ افسوسناک ثابت ہوا ہے۔ اختتامِ ہفتہ تحریک انصاف کے لیے باعثِ غم اور حکومت کے لیے باعثِ اطمینان رہا۔ان دو تین دنوں میں حکومت کو تین اچھی خبریں ملیں ہیں۔ پہلی خبر تو الیکشن کمیشن کا فیصلہ ہے جس کے بارے وزیراعظم شہباز شریف نے معقول بات کہی کہ خان صاحب کے خلاف الیکشن کمیشن کا فیصلہ باعثِ مسرت نہیں‘ باعثِ عبرت ہے۔ مسلم لیگی زعما کا کہنا ہے کہ ہماری خوش گمانی یہ ہے کہ اب خان صاحب دوسروں پر الزام لگانے سے قدرے اجتناب کریں گے۔ مسلم لیگ (ن) کے لیے بالخصوص دوسری اچھی خبر جنرل قمر جاوید باجوہ کی صحافیوں سے بے تکلف ملاقات میں کی گئی باتیں ہیں۔ جنرل صاحب نے کہا کہ شروع میں میری نواز شریف اور شاہد خاقان عباسی کے ساتھ بہترین ریلیشن شپ تھی۔ آرمی چیف نے صحافیوں کو بتایا کہ نواز شریف کا مجھ پر اتنا اعتماد تھا کہ انہوں نے متحدہ عرب امارات سے تعلقات بہتر کرنے کا ٹاسک مجھے سونپا۔ میں امارات گیا اور اللہ کا شکر ہے کہ تعلقات میں بہت بہتری آئی۔ انہوں نے بیوروکریسی پر بھی تنقید کی اور صحافیوں کو بتایا کہ چین کے ذمہ دار افسران نے پاکستانی بیوروکریسی کے رویے کی شکایت کی اور کہا کہ ہم ان افسران کے ساتھ مل کر کام نہیں کر سکتے کیونکہ یہ جان بوجھ کر مسائل اور پیچیدگیاں پیدا کرتے ہیں۔ اتحادی حکومت کے لیے تیسری خوش خبری فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی طرف سے پاکستان کو گرے لسٹ سے نکالنا ہے۔ اس لسٹ سے نکلنے کے بعد پاکستانی تجارت‘ سرمایہ کاری‘ بیرونی لین دین اور کاروباری حضرات کو کئی برسوں سے درپیش مشکلات سے نجات ملے گی۔
اتحادی حکومت کو زیادہ خوش ہونے کی بھی ضرورت نہیں کیونکہ عمران خان نے یہ اعلان کر دیا ہے کہ اُن کے بیک ڈور مذاکرات ناکام ہو گئے ہیں‘ اس لیے وہ آنے والے جمعۃ المبارک کو لانگ مارچ کا اعلان کر سکتے ہیں۔ ہمیں معلوم نہیں کہ خان صاحب کے سیاسی مشیروں میں کون کون شامل ہے اور خان صاحب اُن کی بات سنتے بھی ہیں یا نہیں اور اُن کے مشورے کو کتنی اہمیت دیتے ہیں۔ تاہم عمران خان کے لیے حکیمانہ و سمجھدارانہ رویہ یہ ہوگا کہ وہ ''لانگ مارچ‘‘ کے ذریعے نہیں‘ انتخاب کے ذریعے اپنی قوت کا اظہار کریں۔ خدانخواستہ لانگ مارچ کے دوران اگر کوئی ناخوشگوار واقعہ یا سانحہ ہو گیا تو خان صاحب کو لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔
خان صاحب اپنے غم و غصّے کو اپنے سینے میں ذرا اور تھام کر رکھیں اور مناسب موقع کا انتظار کریں۔ خان صاحب کو یقینا معلوم ہونا چاہیے کہ آتشِ انتقام کو بجھانے کے لیے انتخابی کامیابی سے بڑھ کر اور کوئی شے کارگر نہ ہو گی۔ فراز نے درست ہی کہا تھا کہ:
فرازؔ ملتے ہیں غم بھی نصیب والوں کو
یقینا ایسا ہی ہوتا ہے مگر بڑے نصیب والے وہ ہوتے ہیں جو ایسے دکھ کے بعد خود احتسابی سے کام لیتے اور غم کو خوشی میں بدل دیتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں