سیاست دانوں کا امتحان

اتوار کے روز کامونکی کے نزدیک خاتون ٹی وی رپورٹر صدف نعیم‘ عمران خان کے کنٹینر کے نیچے آ کر ہلاک ہو گئی۔ اس افسوسناک موت پر ہر آنکھ اشک بار ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کے درجات بلند کرے اور اس کے اہلِ خانہ کو صبرِ جمیل کی ہمت عطا فرمائے۔ آمین!
بلامبالغہ گزشتہ چار پانچ روز کے دوران درجنوں قارئین اور نوجوانوں نے مجھ سے بڑے چبھتے ہوئے سوالات پوچھے ہیں۔ کچھ نوجوانوں نے میرے نقطۂ نظر کی تائید اور کچھ نے اس پر تنقید بھی کی ہے۔ یہ سوالات سیاست دانوں کے بارے میں بھی ہیں‘ مقتدرہ اور عدلیہ کے بارے میں بھی۔ اگرچہ اپنی پریس کانفرنس میں ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے اوپر دلیل و منطق کے ساتھ تنقید کرنے کو شہریوں کا بنیادی حق تسلیم کیا ہے؛ تاہم سردست ہم اس حق کے استعمال سے اجتناب ہی کریں گے کیونکہ پرانا جھاکا ابھی برقرار ہے جو جاتے جاتے کچھ وقت تو لے گا۔
نوجوانوں کا ایک سوال یہ ہے کہ جب ارشد شریف کا 5 جولائی کو لکھا ہوا خط صدرِ پاکستان کو وصول ہو گیا تھا تو انہوں نے اس پر محض روٹین کی کارروائی پر اکتفا کیوں کیا اور کوئی فوری ایکشن کیوں نہ لیا؟ اسی طرح وزیراعظم نے ارشد شریف کے بارے میںصدرِ پاکستان کے مکتوب کو کماحقہٗ اہمیت کیوں نہ دی اور شدتِ احساس میں جلتے ہوئے اینکر کی تشویش کا مداوا کیوں نہ کیا گیا؟
عدلیہ کے حوالے سے بالعموم کہا جاتا ہے کہ وہ اس وقت تک کوئی کارروائی نہیں کرتی جب تک کوئی جرم واقع نہیں ہو جاتا۔ کیا تعزیرات پاکستان یا آئینِ پاکستان میں کوئی ایسی شق موجود نہیں کہ جو کسی شخص کی زندگی کو لاحق شدید نوعیت کے خدشات کی پیش بندی کرے اور خطرات میں گھرے شخص کی زندگی محفوظ بنانے کے لیے فوری طور پر خاطرخواہ اقدامات کی نشاندہی کرے۔ ڈی جی آئی ایس پی آر اور ڈی جی آئی ایس آئی کی پریس کانفرنس کے بارے میں بھی بعض اہم سوالات پوچھے گئے۔ زیادہ تر سوالات ارشد شریف کے حوالے سے کیے گئے تھے۔ قارئین کے اطمینان کے لیے یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ دونوں اعلیٰ فوجی افسران نے آزادانہ تحقیق و تفتیش کا خیرمقدم کیا ہے اور اس سلسلے میں ہر طرح کے تعاون کی یقین دہانی کروائی ہے۔
ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان نے پوچھا کہ ہم نے تو کتابوں میں ہی پڑھا ہے کہ کن حالات میں پاکستان ٹوٹا اور بنگلہ دیش وجود میں آیا؟ ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کا سانحہ کیوں دیکھنا پڑا؟ سقوطِ ڈھاکہ اور سانحۂ مشرقی پاکستان سے قدم قدم پر بچا جا سکتا تھا مگر اس وقت کے سیاست دانوں شیخ مجیب الرحمن اور ذوالفقار علی بھٹو کو اس ٹریجڈی کا یا تو ادراک نہ تھا یا وہ یہی چاہتے تھے کہ پاکستان ٹوٹتا ہے تو ٹوٹ جائے۔
دونوں سیاست دانوں میں سے کوئی بھی اپنی انا کو لگام دینے پر آمادہ نہ ہوا۔ رہے اس وقت کے حکمران جنرل یحییٰ خان تو اُن کے پاس کارِ جہاں بانی جیسے سنجیدہ کام کے لیے وقت نہ تھا۔ اُن کی راتیں شبستانوں میں گزرتیں اور دن سوتے ہوئے بیت جاتے۔ آج کے نوجوان بے حد فکرمند ہیں کیونکہ اس وقت پاکستان میں انائوں کا ہولناک کھیل ایک بار پھر عروج پر ہے۔
اگرچہ صدر پاکستان ڈاکٹر عارف علوی کا تعلق تحریک انصاف سے ہے مگر اُن کی شہرت ایک حکیم و دانا شخص کی ہے۔ وہ گزشتہ کئی ہفتوں سے پسِ پردہ حکمران اتحاد کے ساتھ کسی نہ کسی سطح پر گفتگو کر رہے ہیں۔ اسی طرح پنجاب کے وزیراعلیٰ چودھری پرویز الٰہی کا تعلق بھی ایک ایسے سیاسی خانوادے سے ہے جو سیاست میں افہام و تفہیم پر یقین رکھتا ہے۔ چودھری صاحب نے بھی تیقن سے کہا ہے کہ ٹریک ٹو مذاکرات جاری ہیں۔
گمانِ غالب ہے کہ وزیراعظم شہباز شریف بھی اپنی انا کو تصادم تک لے جانے سے گریز کریں گے۔سابق وزیراعظم عمران خان کے بارے میں حکمران جماعتوں کو بہت سے تحفظات و شکوک و شبہات ہیں۔ ایک طرف خان صاحب مذاکرات کی بات کرتے ہیں اور دوسری طرف علی امین گنڈا پور بندوقیں اور بندے اکٹھے کرنے کی تگ و دو کرتے سنائی دیتے ہیں۔ مذاکرات کی پس پردہ خبریں اپنی جگہ مگر اتوار کے روز عمران خان نے ایک بار پھر حدّت اور شدّت کے ساتھ مقتدرہ اور حکومت پر جارحانہ وار کیے ہیں۔
تحریکِ انصاف کے چیئرمین ایک Unpredictable شخصیت ہیں۔ ایک طرف وہ مقتدرہ پر شدید تنقید کرتے ہیں اور دوسری طرف اُن کے ساتھ آج بھی مذاکرات کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ ایک طرف ریاست مدینہ کی بات کرتے ہیں دوسری طرف وأمرھم شوریٰ بینھم سے اجتناب کرتے ہوئے پارلیمنٹ سے قطع تعلقی کر لیتے ہیں۔خان صاحب ہر معاملے میں اناپسندی اور من مانی سے کام لیتے ہیں۔ ایک سابق وزیراعظم ہوتے ہوئے بھی خان صاحب آئین پاکستان سے نابلد ہیں۔ وہ ڈیڑھ سال کا اقتدار بچانے کے لیے آرمی چیف کو غیر معینہ توسیع دینے کی پیشکش تک کر دیتے ہیں۔ اس پیشکش کی خان صاحب نے تردید نہیں کی۔ حیرت تو اس بات کی ہے کہ اپنی مقبولیت کے باوجود عمران خان کو بیساکھیوں کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے۔
ایک پی ایچ ڈی سکالر کا سوال یہ تھا کہ کیا فوج سیاست سے کنارہ کشی کے قول و قرار کو مستقلاً نبھائے گی؟ اس بارے میں ڈی جی آئی ایس آئی نے واضح کیا کہ ادارے کے اس فیصلے میں وہ افسران بھی شامل ہیں جو اگلے پندرہ بیس سال کے دوران فوج کی سربراہی کا فریضہ انجام دیں گے؛ تاہم میری رائے میں اس کمٹمنٹ کا استمرار سیاست دانوں کے رویے پر ہو گا۔1971 ء کے سانحے کے بعد سیاست دانوں نے مغربی پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کی اکثریت کو تسلیم کیا اور 1973 ء کا متفقہ آئین تشکیل دینے میں بھرپور تعاون کیا۔ اس وقت بھٹو صاحب آل پاور فل تھے اور انہیں مقتدرہ کی طرف سے کوئی خطرہ نہ تھا۔ بھٹو صاحب چاہتے تو حزبِ اختلاف کے اشتراک سے ایک حقیقی جمہوری کلچر پروان چڑھا سکتے تھے مگر انہوں نے من مانی کو اپنا طرزِ سیاست بنا لیا۔
اس وقت انہوں نے اپنے ہی تشکیل کردہ آئین کے سامنے سرِتسلیم خم کرنے کے بجائے راولپنڈی کے لیاقت باغ میں ولی خان کو لاشوں کا تحفہ دیا‘ بلوچستان میں فوجی مداخلت کر دی۔ بھٹو صاحب نے نہ صرف سیاسی مخالفین کو دیوار سے لگایا بلکہ اپنی ہی پارٹی کے سرکردہ رہنمائوں کو بے عزت کیا اور انہیں غیر ریاستی قید خانوں میں مقید کر دیا۔ پھر دو تہائی اکثریت کے حصول کے لیے 1977 ء کے انتخابات میں دھاندلی کروائی۔ نتیجہ یہ ہوا کہ صرف پانچ برس بعد فوج پھر برسرِ اقتدار آ گئی۔ بعدازاں 1990 ء کی دہائی میں میاں نواز شریف اور بے نظیر بھٹو اپنی اپنی راجدھانیوں کو مضبوط کرنے کے چکر میں مقتدر حلقوں کے ساتھ مل کر ایک دوسرے کی حکومتیں گراتے رہے۔
آج پھر سیاست دانوں کے تدبر کا امتحان ہے۔ عمران خان کے مقتدرہ پر تابڑ توڑ حملوں کو بھارتی میڈیا فوج اور سیاست دانوں کی چپقلش قرار دے کر پاکستان کے خلاف پروپیگنڈاکر رہے ہیں۔ اسی صورتحال سے فائدہ اٹھا کر بھارتی وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے آزادکشمیر‘ گلگت بلتستان کو سری نگر میں کھڑے ہو کر پاکستان سے واپس لینے کی دھمکی دی ہے۔ کیا ہمارے سیاست دان گھر پھونک تماشا دیکھنے پر تلے ہوئے ہیں؟کیا خان صاحب کا مسئلہ صرف جلد انتخابات ہیں۔ اگر ایسا ہی ہے تو پھر انتخابات کو دو چار ماہ آگے پیچھے کرنے کے لیے وہ حکومت کے ساتھ سنجیدہ مذاکرات کیوں نہیں کرتے۔ یہی آج کے سیاست دانوں کا امتحان ہے۔ ہماری دعا ہے کہ حکمت تدبر کے امتحان میں سیاست دانوں کو کامیابی نصیب ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں