خدا خیر کرے

جمعرات کے روز مولانا ظفر علی خان کے شہر وزیر آباد میں ایک انتہائی افسوسناک واقعہ پیش آیا۔ اس واقعے میں کنٹینر پر سوار تحریک انصاف کے چیئرمین جناب عمران خان پر قاتلانہ حملہ کیا گیا۔ حملے میں خان صاحب کے پاؤں پر گولی لگی؛ تاہم مقامِ صد شکر ہے کہ گولی سے زیادہ نقصان نہیں پہنچا۔ اب تک کی خبروں کے مطابق شوکت خانم ہسپتال لاہور میں خان صاحب تیزی سے روبصحت ہو رہے ہیں اور وہ خطرے سے باہر ہیں۔
اس حملے میں پی ٹی آئی کے کچھ رہنما‘ جن میں سینیٹر فیصل جاوید اور احمد چٹھہ شامل ہیں‘ بھی زخمی ہوئے جبکہ ایک کارکن کے جاں بحق ہونے کی بھی غمناک خبر ہے۔ اس واقعے کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ عمران خان ہمارے قومی رہنما ہیں۔ وہ ملک کی بہت بڑی پارٹی کے چیئرمین ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ ہمارے قومی ہیرو بھی ہیں۔ سیاست کو اتنا آتشیں نہیں ہونا چاہیے کہ معاملہ جان لینے تک جا پہنچے۔ اگرچہ واقعہ نہایت تکلیف دہ ہے مگر اللہ کے فضلِ خاص سے زیادہ نقصان نہیں ہوا۔
وزیر آباد سے ٹی وی رپورٹروں کی خبروں اور فوٹیج سے یہ منظر سامنے آیا کہ جونہی حملہ آور نے گولی چلائی تو اسے فوراً پی ٹی آئی کے ایک جرأت مند کارکن ابتسام نے دبوچ لیا اور اس کے پسٹل کا رخ نیچے کی طرف جھکا دیا۔ بعدازاں ملزم کو پولیس کے حوالے کر دیا گیا۔ یہ امر باعثِ اطمینان ہے کہ گزشتہ کئی سالوں سے ہمارے ہاں قانون کو ہاتھ میں لینے کا جو کلچر پروان چڑھ چکا ہے‘ اس کے مطابق ہجوم ملزم کو تشدد کر کے وہیں ٹھکانے لگا سکتا تھا۔ اگر خدانخواستہ ایسا ہو جاتا تو اس طرح سازش کے تانے بانے بننے والوں تک پہنچنا بہت دشوار ہو جاتا۔ اب آسانی سے معلوم ہو جائے گا کہ کوئی سازش ہوئی یا نہیں؟ تھانے میں اپنے ابتدائی بیان میں حملہ آور نے اعتراف کیا کہ پی ٹی آئی کے چیئرمین اس کے نشانے پر تھے۔ ملزم نے یہ بھی بتایا کہ اس کے پیچھے کوئی نہیں۔
لانگ مارچ کے پہلے چند روزہ مناظر دیکھ کر میرے دل کو دھڑکا لگا ہوا تھا کہ خدا خیر کرے کیونکہ سکیورٹی کے انتظامات ناقص تھے۔ وزیرآباد میں لانگ مارچ میں سکیورٹی کے انتظامات ناکافی دکھائی دے رہے تھے۔ لانگ مارچ کے آغاز سے پہلے ہی پی ٹی آئی کے ایک رہنما نے اسے 'خونیں مارچ‘ قرار دیا تھا۔ خان صاحب بھی شدتِ جذبات کے ساتھ اپنے مطالبات پیش کر رہے تھے۔ ادھر سے وزیر داخلہ رانا ثنا اللہ اینٹ کا جواب پتھر سے دے رہے تھے۔ کے پی سے پی ٹی آئی کے بعض جواں سال جذباتی رہنما لائسنس یافتہ اسلحہ اسلام آباد لانے کی دھمکیاں دے رہے تھے۔ان دو طرفہ دھمکیوں نے ماحول کو آتشیں بنا دیا تھا۔ ایسے مواقع پر بالعموم حکومتیں زیادہ تحمل اور برداشت سے کام لیتی ہیں مگر بدقسمتی سے وفاقی حکومت کی طرف سے تحمل سے کام نہ لیا گیا اور سبق سکھانے کی باتیں کی گئیں۔
اب جائزہ لیتے ہیں کہ یہ حملہ کس نوعیت کا تھا۔ یہ حملہ کوئی خوفزدہ کرنے یا دہشت پھیلانے کے لیے نہیں باقاعدہ قاتلانہ حملہ تھا۔ یہ ڈائریکٹ فائرنگ تھی۔ اللہ کے کرم سے خان صاحب محفوظ رہے۔ اس حملے میں ملزم نے نائن ایم ایم کا پسٹل استعمال کیا۔ اس پستول کی گولی سوفٹ تک جا سکتی ہے؛ تاہم پچاس فٹ سے تو یہ انتہائی مہلک ثابت ہوتی ہے۔
ایسے افسوسناک مواقع پر سوائے اظہارِ افسوس اور دعائے صحت کے اور کچھ نہیں کہنا چاہیے۔ عمران خان کے بعض مخالفین سوشل میڈیا پر اس قابلِ مذمت حملے کو ڈرامہ کہہ کر زخموں پر نمک چھڑک رہے ہیں۔ یہ نہایت ہی نامناسب روش ہے۔ بعض ٹی وی رپورٹروں نے عمران خان کے کنٹینر پر جا کر ناظرین کو یہ بتایا کہ عام تاثر کے برعکس کنٹینر کی چادر بلٹ پروف نہیں بلکہ خاصی باریک ہے جس سے گولی پار ہو سکتی ہے۔ یہ سوال بھی اپنی جگہ اہم ہے کہ بظاہر ایک خستہ حال نوجوان کے پاس نائن ایم ایم کا قیمتی آٹومیٹک پسٹل کیسے آیا؟ یقینا تفتیشی ٹیم نے ملزم سے یہ سوال ضرور پوچھا ہو گا۔
پی ٹی آئی کے جرأت مند کارکن ابتسام کے مطابق حملہ آور ایک ہی تھا۔سامنے آنے والی واقعاتی شہادت اور رپورٹروں کی رپورٹنگ سے بھی یہی ظاہر ہوتا ہے کہ حملے میں ایک ہتھیار استعمال ہوا۔ ملزم کے اعترافی بیان کو فوری طور پر وائرل کرنا گجرات پولیس کا نہایت غیرعاقلانہ اور نان پروفیشنل اقدام تھا۔ پولیس کے طریقہ کار کے مطابق جب تک ملزم سے تفتیش مکمل نہیں ہو جاتی اس وقت تک اسے منظرِ عام پر نہیں لایا جاتا۔
جہاں تک پی ٹی آئی کے بعض رہنمائوں کا تعلق ہے تو انہوں نے حملے کے ردِعمل میں غیرذمہ دارانہ رویے کا مظاہرہ کیا۔ وفاقی وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ کے بیان کے مطابق فواد چودھری نے وزیر آباد میں لوگوں کو اکسایا اور بھڑکایا کہ وہ مسلم لیگ (ن) کے رہنمائوں کے گھروں پر چڑھ دوڑیں۔ میں اپنے طور پر فواد چودھری کے اس بیان کی تصدیق نہیں کر سکا۔ اگر یہ بیان درست ہے تو نہایت نامناسب ہے۔ اسی طرح اسد عمر نے وزیراعظم شہباز شریف‘ وزیر داخلہ رانا ثناء اللہ اور ایک اعلیٰ سکیورٹی افسر کو اس قاتلانہ سازش کا ذمہ دار قرار دیا ہے۔ جب تک تفتیش سے کچھ ثابت نہ ہو اور عدالتی فیصلہ نہ آ جائے اس وقت تک ایسے بیانات سے احتراز کرنا چاہیے تاکہ افواہوں کو پھلنے پھولنے کا موقع نہ مل سکے۔
اس وقت سب سے اہم کام یہ ہے کہ فوری طور پر سیاسی ٹمپریچر کو نیچے لایا جائے۔ خان صاحب اگر اگلے تین چار روز کے لیے لانگ مارچ کو ملتوی کر دیں تو اس عرصے کے دوران ایک تو ان کی صحت بحال ہو جائے گی دوسرا بیک ڈور ڈپلومیسی کو مؤثر طریقے سے اپنا کردار ادا کرنے کا موقع مل سکے گا۔ سیاست دانوں کو پاکستان کی سیاسی تاریخ پر ایک نظر ضرور ڈالنی چاہیے۔ ہماری تاریخ میں جب کبھی سیاسی قوتوں کا تصادم حد سے بڑھا اور لاء اینڈ آرڈر کی صورتِ حال خراب ہوئی تو غیرسیاسی قوتوں کو مداخلت کا موقع مل گیا۔ کیا ہمارے سیاست دانوں نے ماضی سے سبق نہ سیکھنے کا تہیّہ کر رکھا ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن‘ دونوں کو چاہیے کہ وہ حالات کو بند گلی کی طرف نہ لے کر جائیں۔ یہ سیاسی معاملہ ہے اسے سیاست دانوں نے ہی حل کرنا ہے۔ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ انتخابات کو دوچار ماہ آگے پیچھے کرنے سے اگر ملکی فضا سازگار ہو سکے تو یہ فریقین کے لیے گھاٹے کا نہیں منافع کا سودا ہے۔ اسے اَنا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہیے۔
اللہ نے ہمیں کسی بڑے قومی سانحے سے محفوظ رکھا۔ اس لمحۂ تشکر کے موقع پر ہماری متحارب سیاسی جماعتوں کو قوت لایموت سے بھی محروم ہوتے عوام کا بھی خیال رکھنا چاہیے۔ مفلوک الحال اور سفید پوش لوگوں کے لیے‘ جن کی تعداد کسی صورت دس کروڑ سے کم نہیں‘ رشتہ جسم و جاں برقرار رکھنا ناممکن ہوتا جا رہا ہے۔ خدا کے واسطے سیاست دان اور حکمران اپنے اپنے رویوں پر نظرثانی کریں۔ تفتیش و تحقیق کے نتائج کا انتظار کریں۔ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے جے آئی ٹی بنانے کا اعلان کیا ہے لہٰذا تفتیش و تحقیق کے نتائج کا انتظار کیا جائے۔ حکمرانوں نے کئی روز سے ایک نئی گردان شروع کر رکھی ہے کہ ہم عمران خان کو فیس سیونگ نہیں دیں گے۔ کوئی معقول بات مان لینا ''فیس سیونگ‘‘ نہیں حکمت و دانائی کا ادنیٰ تقاضا ہے۔ خدا خیر کرے اور ہمیں ہر طرح کے حوادث سے محفوظ رکھے۔ آمین!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں