کرکٹ سے سیاست تک

سردیوں میں گہرے سیاہ بادلوں کی اوٹ سے جب یکایک چمکتا دمکتا سورج اپنا رخِ روشن دکھاتا ہے تو سردی سے ٹھٹھرتے ہوئے لوگوں کے چہرے خوشی سے تمتما اٹھتے ہیں۔ یہی کچھ سڈنی میں ہوا۔ ورلڈ کپ کے ابتدائی میچز میں پاکستانی ٹیم کی کارکردگی شاندار نہ تھی مگر نیدرلینڈ کی سائوتھ افریقہ سے غیرمتوقع کامیابی اور پھر پاکستان کی بنگلہ دیش سے جیت نے معجزانہ طور پر پاکستان کو سیمی فائنل میں پہنچا دیا۔
ایک طرف چند عمر رسیدہ سابق کرکٹرز نے کپتان بابر اعظم اور پاکستانی ٹیم کے خلاف زہریلے اور مایوس کن تبصروں اور تجزیوں کا بازار گرم کر رکھا تھا تو دوسری طرف پاکستان کے اندر اور پاکستان سے باہر پاکستانیوں نے دعائوں کو تیز تر کر دیا تھا اور پھر 9 نومبر کو پاکستانی ٹیم کے بائولرز شاہین آفریدی اور نسیم شاہ وغیرہ نے تباہ کن بائولنگ کی اور نیوزی لینڈ کی منجھی ہوئی ٹیم کو 152 رنز سے اوپر نہ جانے دیا۔ بابر اعظم نے ''شاندار کم بیک‘‘ کیا اور محمد رضوان کے ساتھ مل کر پاکستانی ٹیم کے سکور کو 100 سے اوپر پہنچا دیا۔
دورانِ میچ ڈھول کی تھاپ پر دل دل پاکستان‘ جاں جاں پاکستان اور اس پرچم کے سائے تلے ہم ایک ہیں‘ ہم ایک ہیں‘ نے ماحول کوگرمائے رکھا اور ٹیم کا جوش و جذبہ بڑھایا۔ دورانِ میچ اور جیت کے بعد سڈنی کرکٹ سٹیڈیم میں فی الواقع ہم ایک تھے۔ وہاں نہ کوئی پی ٹی آئی تھا‘ نہ ن لیگی‘ نہ پیپلز پارٹی اور نہ ہی جماعتیا۔ سب ایک تھے‘ سب جسدِ واحد تھے اور سب پاکستانی تھے۔ اپنے سٹینڈرڈ ٹائم کے مطابق آسٹریلیا ہم سے ہی نہیں ساری دنیا سے آگے ہے۔ ٹائم کے اس فرق کے باوجود کرّۂ ارض کے کسی گوشے اور کونے میں بسنے والے پاکستانی اپنے سونے جاگنے کے نظام الاوقات کو درہم برہم کر کے دھڑکتے دلوں کے ساتھ ٹیلی وژن سکرینوں کے سامنے بیٹھے تھے۔
میں 9 نومبر کو اپنے ہوم ٹائون سرگودھا میں تھا۔ لاہور میں بعض ضروری مصروفیات کے لیے مجھے 5 بجے شام تک پہنچنا تھا مگر میں نے ان ملاقاتوں سے معذرت کر لی اور سرگودھا میں ساری فیملی کے ساتھ جم کر ٹی وی سکرین کے سامنے بیٹھ گیا۔ اس دوران سعودی عرب‘ یو کے اور امریکہ سے دوستوں اور بچوں کے سیمی فائنل کے بارے میں میسجز اور کالیں آتی رہیں۔ اس وقت امریکہ کی بعض ریاستوں میں صبح کے 3 اور بعض میں 4 بجے تھے۔
یہی حال پاکستان میں گھروں کے اندر‘ گلی کوچوں‘ شہروں اور دیہات میں ہر جگہ تھا۔ لوگوں کا ولولہ اور جذبہ دیدنی تھا۔ کرکٹ میچوں کے دوران فرق من و تو مٹ جاتا ہے۔ لوگ شیر و شکر ہو جاتے ہیں۔ کرکٹ پاکستانیوں کو اکٹھا کر دیتی ہے۔ اسی لیے سیمی فائنل میں پاکستان کی عظیم الشان فتح پر ملک کے اندر ہی نہیں ساری دنیا میں پاکستانیوں نے جشن منایا۔ اگرچہ لڑکپن میں ہمیں بھی کرکٹ سے بہت دلچسپی تھی۔ ہماری بیٹنگ کے چرچے مقامی اخبارات میں ہوا کرتے تھے مگر وہ دن گئے جب خلیل خان فاختہ اڑایا کرتے تھے۔
اک دھوپ تھی جو ساتھ گئی آفتاب کے
اب مجھے کرکٹ کے بارے میں اتنا ہی معلوم ہے جتنا عمران خان کو امرائو القیس کی شاعری کے بارے میں۔ تاہم میں اتنا جانتا ہوں کہ بابر اعظم وغیرہ کے خلاف زہریلے تبصرے کرنے والے سابق کرکٹرز کو منہ کی کھانا پڑی۔ بعض لبرل تجزیہ کاروں کو ثقلین اور محمد یوسف جیسے باریش مذہبی رجحان رکھنے والے کوچز سے چڑ سی تھی۔ ان شیریں کلام کوچز نے ہر مرحلے پر ٹیم کو حوصلہ دیا اور انھیں اپنی مہارت اور اپنے خدا پر بھرپور بھروسا کرنے کا سبق یاد دلایا۔
کرکٹ ساری قوم کو ایک لڑی میں پرو دیتی ہے۔ کاش ہماری سیاست کے متحارب کھلاڑی کرکٹ سے ہی کچھ سیکھ لیتے۔ کاش ہم اپنے اپنے نقطۂ نظر کے ساتھ اس پرچم کے سائے تلے ایک ہوتے۔ کاش ہم دوسری پارٹی کی کامیابی کو خوش آمدید کہتے اور اپنی ناکامی کو خوش دلی سے قبول کر لیتے۔ کاش ہمارے سیاست دان ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہ ہوتے۔ شاید بیماری کے گوشۂ تنہائی میں غور و خوض کا نتیجہ ہے یا کرکٹ میں پاکستانی ٹیم کی کامیابی سے قائم ہونے والی اتفاقِ باہمی کی عمومی فضا کا ثمر ہے کہ عمران خان نے منگل کے روز کچھ صحافیوں سے ملاقات کے دوران کہا کہ شہباز شریف نئے آرمی چیف کی تقرری ضرور کریں۔ اُن کے اس حق سے انہیں کوئی مسئلہ نہیں۔
خان صاحب کے مذکورہ بالا الفاظ و خیالات یقینا خوشگوار حیرت کا باعث ہوئے ہیں کیونکہ چند روز قبل تک وہ ''چوروں اور ڈاکوئوں‘‘ کو پاور فل بنانے پر سخت معترض تھے۔ ان دنوں خان صاحب سے ملنے والے ایک صاحب سے بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ خان صاحب کے لہجے میں تلخی کے بجائے قدرے مایوسی تھی۔ ایف آئی آر کے بارے میں پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں خان صاحب نے اپنے سابقہ رویے کے برعکس کوئی تند و تیز بات نہ کی اور کہا کہ اس کا جواب اُن کے وکلا دیں گے۔ اس دوران یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ لاہور سے کہیں دور پاکستان کے جڑواں شہروں میں اصلاحِ احوال کی کچھ کوششیں کی جا رہی ہیں۔
ایک بات یہ بھی سننے میں آئی کہ شرم الشیخ مصر کی موسمیاتی کانفرنس کے بعد وزیراعظم شہباز شریف کا لندن کی طرف رخ کر لینے اور اپنے بڑے بھائی سے شرفِ ملاقات حاصل کرنے کے پیچھے کوئی خاص بات ہے۔ اسی وزٹ اور بعض دوسرے قرائن کی بنا پر اس طرح کی افواہیں گردش کرنے لگیں کہ شاید جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید چھ ماہ کی ایکسٹینشن دینے کا کوئی منصوبہ بن رہا ہے؛ تاہم جمعرات کے روز جنرل باجوہ کے سیالکوٹ اور منگلا گریژن کے الوداعی دوروں سے یہ افواہیں دم توڑ گئی ہیں۔
ان افواہوں کو عمران خان سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب سے تقویت ملی تھی۔ اُن سے جنرل باجوہ کی ایکسٹینشن کے بارے میں پوچھا گیا تو خان صاحب کا جواب یہ تھا کہ یہ تو ''بلین ڈالر سوال‘‘ ہے۔ اب جنرل قمر جاوید باجوہ کی الوداعی ملاقاتوں سے اس طرح کی قیاس آرائیاں ختم ہو جائیں گی۔
اگرچہ وزیراعظم اس اہم تقرری کا اعلان نومبر کے تیسرے چوتھے ہفتے میں بھی کر سکتے ہیں مگر نیکی کے کام میں تاخیر کیے بغیر نئے آرمی چیف کے نام کا اعلان ہو جانا چاہیے۔ اب جبکہ عمران خان نے آرمی چیف کی تقرری کے بارے میں اپنے پرانے مؤقف سے رجوع کر لیا ہے تو اس سازگار فضا میں ہی نئے چیف آف آرمی سٹاف کا اعلان ہو جائے تو یہ سیاسی ماحول کے لیے بھی ممد و معاون ثابت ہو گا۔
ہفتے کے روز جب آپ یہ کالم ملاحظہ کریں گے اور اس سے اگلے دن اتوار کو وہ تاریخی لمحہ آئے گا جب پاکستان 1992 ء کے 30 برس بعد کرکٹ کے فائنل میں انگلینڈ کے مدمقابل میلبورن کے میدان میں اترے گا۔ یقینا کھیل کھیل ہے اور اسے عزّت بے عزتی کا مسئلہ ہرگز نہیں بنانا چاہیے مگر اپنے وطن پاکستان کو کسی شعبے میں کامیابی نصیب ہو تو پاکستانیوں کا سر فخر سے بلند ہو جاتا ہے۔ ہمیں امید ہے کہ جناب عمران خان ہفتہ اتوار اور پیر کو لانگ مارچ معطل رکھیں گے تاکہ لوگوں کو آمد و رفت میں کوئی دقت نہ ہو اور وہ اپنے پیاروں کے ساتھ مل کر کرکٹ میچ دیکھ سکیں اور ان شاء اللہ کامیابی ملنے پر ملک کے اندر اور ساری دنیا میں بسنے والے پاکستانی فتح نصیب ہونے پر پاکستان زندہ باد‘ کرکٹ ٹیم پائندہ باد کے نعرے بلند کر سکیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں