سعودی عرب اور چین کے بڑھتے تعلقات

2004ء میں واشنگٹن پوسٹ کے ممتاز صحافی ڈیوڈ اٹاوے کو انٹرویو دیتے ہوئے اُس وقت کے سعودی وزیر خارجہ سعود الفیصل نے بڑی دلچسپ بات کی۔ انہوں نے کہا کہ سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی نوعیت کیتھولک شادی والی نہیں کہ جہاں ایک سے زائد شادیوں کی اجازت نہیں ہوتی۔ ہم مسلمانوں کو چار شادیوں کی اجازت ہے۔ ہمارے بارے میں یہ سوچنا غلط ہے کہ اگر ہمارے دنیا کے اور ملکوں کے ساتھ تعلقات استوار ہوں گے تو اُس کا یہ مطلب نہیں کہ ہم امریکہ سے طلاق لے رہے ہیں۔
اگرچہ دنیا میں کوئی بھی خودمختار قوم جتنے ممالک سے چاہے روابط قائم کر سکتی ہے؛ تاہم گزشتہ سات آٹھ دہائیوں سے امریکہ سعودی عرب کا قریب ترین دوست شمار ہوتا ہے۔ اس لیے جب مملکت کا تھوڑا سا بھی جھکائو کسی اور عالمی طاقت کی طرف ہوتا ہے تو اس پر حیرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ سعودی عرب امریکہ تعلقات میں اتار چڑھائو آتا رہتا ہے۔ 1973ء میں شاہ فیصل بن عبدالعزیز سعودی عرب کے فرمانروا تھے۔ امریکہ نے انہیں عرب اسرائیل جنگ کے دوران تیل کا ہتھیار استعمال نہ کرنے کی دھمکی دی تو شاہ فیصل نے کہا تھا کہ ہم اپنے بدویانہ طرزِ زندگی کی طرف لوٹ جائیں گے مگر کسی کی ڈکٹیشن قبول نہیں کریں گے۔
دو ممالک کے تعلقات میں وقتی اتار چڑھائو کے باوجود کوئی بڑی دراڑ پیدا نہیں ہوئی۔ اب چینی صدر شی جن پنگ کے سعودی عرب کے حالیہ سرکاری دورے کے موقع پر جس گرم جوشی اور غیرمعمولی تپاک کا مظاہرہ کیا گیا ہے اس سے امریکہ یقینا مضطرب و پریشان ہے۔ امریکی سٹیٹ ڈپارٹمنٹ کے ترجمان کا کہنا ہے کہ ہم دنیا کے ملکوں کو یہ نہیں کہتے کہ دوستی کے لیے امریکہ کو چن لو یا چین کو‘ ہم تو صرف اتنا کہتے ہیں کہ ہم آپ کے سامنے مختلف شعبوں میں تعاون کی پُرکشش پیشکش لائے ہیں‘ آگے فیصلہ آپ کا اپنا ہے۔
چینی صدر کے دورے کے مختلف پروگراموں اور معاہدوں پر نظر دوڑانے سے آپ کو معلوم ہو جائے گا کہ یہ دورہ محض دوطرفہ تجارتی تعلقات کو وسعت دینے کے لیے نہیں‘ اس کے علاوہ بھی بہت کچھ تھا۔ اس دورے کے دوران چینی صدر کی ملاقات سعودی فرمانروا شاہ سلمان بن عبدالعزیز سے ہوئی۔ صدر شی جن پنگ کے سعودی وزیراعظم اور ولی عہد محمد بن سلمان سے ون ٹو ون مذاکرات ہوئے۔ دونوں ممالک کے حکمرانوں کا اپنے اپنے وفود کے ساتھ بھی دوطرفہ ملاقات کا طویل سیشن ہوا۔ دونوں زعماء کی موجودگی میں معاہدوں پر دستخط کرنے کی تقریب بھی منعقد ہوئی۔
29 بلین ڈالر کے34 معاہدے کیے گئے۔ گرین ہائیڈروجن‘ پیٹروکیمیکلز‘ آئی ٹی‘ ٹرانسپورٹ‘ میڈیکل‘ بلند و بالا عمارات کی تعمیر‘ عدالتی تعاون اور چینی زبان سکھانے کے معاہدوں پر دستخط ہوئے۔ اس موقع پر چینی صدر نے کہا کہ ہم چاہیں گے کہ ہم سعودی عرب سے تیل ڈالر میں نہیں اپنی کرنسی یوآن میں خریدیں۔ شی جن پنگ کی خواہش اپنی جگہ تاہم اس بارے میں کچھ کہنا قبل از وقت ہوگا کیونکہ اگر اوپیک ممالک تیل کی خرید و فروخت کو ڈالر سے منقطع کرکے یوآن کے ساتھ منسلک کر دیتے ہیں تو اس سے عالمی مالیاتی نظام میں زلزلہ برپا ہو جائے گا۔ ہم چونکہ سعودی عرب کے عدالتی نظام کا بچشمِ خود مشاہدہ کر چکے‘ اس لیے ہمیں حیرت ہوئی کہ شریعت پر مبنی نظامِ عدل کی موجودگی میں سعودی عرب چین سے کیسی رہنمائی لینا چاہتا ہے۔ شاید مملکت اُن کے جدید عدالتی پروسیجر سے کچھ سیکھنا چاہے گی۔
چینی صدر کے دورۂ سعودی عرب کے موقع پر عرب لیگ اور خلیجی ممالک کی تعاون کونسل کے الگ الگ اجلاس بھی منعقد ہوئے جن میں شی جن پنگ نے شرکت کی۔ چینی صدر نے کہا کہ میرے دورے سے نہ صرف ہم دونوں ملکوں کو فائدہ ہوگا بلکہ یہ دورہ علاقائی امن و سلامتی کے لیے بھی مفید ہے۔ عرب زعماء میں عراقی‘ مصری‘ فلسطینی‘ خلیجی‘ قطری‘ سوڈانی‘ مراکشی اور لبنانی سربراہان نمایاں تھے۔ اس دورے کے موقع پر سعودی وزیراعظم محمد بن سلمان نے ایک طرف عرب دنیا میں اپنی قیادت و سیادت کو مستحکم کیا ہے اور دوسری طرف یارِ نامہرباں امریکہ کو بھی پیغام دیا گیا ہے کہ گر تو نہیں تو کوئی اور سہی۔ اس دورے سے یہ واضح ہو گیا ہے کہ سارا شرقِ اوسط نئی عالمی صف بندی کے دوران اپنا وزن چین اور روس کے ایشیائی پلڑے میں ڈال سکتا ہے۔ سعودی عرب ہر معاملے میں امریکہ پر انحصار کے طرزِ کہن کو بدلنے کے راستے پر چل پڑا ہے۔
جب سے اکتوبر میں سعودی عرب سمیت اوپیک ممالک نے 2ملین بیرل یومیہ آئل پروڈکشن میں کمی کرنے کا اعلان کیا ہے‘ تب سے امریکہ سعودی عرب تعلقات نہایت کشیدہ ہیں۔ دوطرفہ رنجشیں پہلے بھی ہوتی رہی ہیں مگر اس بار سرگرانی کا عالم کچھ اور ہے۔ امریکہ سعودی عرب کو انسانی حقوق کی پامالی کا ذمہ دار بھی ٹھہرا چکا ہے۔ ورلڈ سپرپاور یوکرین جنگ کے حوالے سے سعودی عرب کے روس کے ساتھ بڑھتے ہوئے خوشگوار روابط کو بھی ناپسندیدگی کی نظر سے دیکھتی ہے۔
سعودی عرب کے امریکہ کے ساتھ 77 برس پر پھیلے ہوئے مختلف نوعیت کے مفصل تعلقات کی تفصیل کو ایک جملے کے اجمال میں ہم یوں پیش کر سکتے ہیں۔ سعودی تیل کے بدلے میں امریکی سکیورٹی۔ اس تعلق کی جڑیں بہت گہری ہیں۔ سعودی عرب کے علاوہ خلیجی ممالک نے بھی امریکہ کے جارحانہ لب و لہجے کو شدّت سے محسوس کیا ہے۔ ہماری رائے میں سعودی عرب اور امریکہ کے مابین باہمی رنجشوں اور ناراضیوں کا اظہار تو بہت ہوگا مگر اختتام ایک مرتبہ پھر گلے ملنے پر ہوگا۔ اگر سعودی امریکی روابط کی سابقہ تاریخ کو سامنے رکھا جائے تو دیرینہ تعلقات کا تناور شجر‘ وقتی و موسمی تیز ہوائوں سے متاثر تو ہوتا ہے مگر ہوائوں کے رخصت ہوتے ہی اس شجر کی شاخیں پھر اپنی جگہ واپس آ جاتی ہیں۔
البتہ اس بار خطے میں بعض نئے حقائق وجود میں آ چکے ہیں جو اس سے پہلے نہ تھے۔ چین اس سے پہلے صرف مصنوعات کو زیادہ سے زیادہ تیار کرنے اور ساری دنیا کو فروخت کرنے تک محدود رہنے کو ترجیح دیتا تھا مگر اب اُس نے دوسرے ممالک کے ساتھ تجارتی ہی نہیں تزویراتی و دفاعی نوعیت کے معاہدے بھی کیے ہیں۔ سعودی عرب کا نیوم سٹی وژن 2030ء ایک ایسا منصوبہ ہے کہ جس کی تعمیر و توسیع میں امریکہ اور کئی مغربی ممالک شامل تھے۔ اب اس وژن میں بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو بھی شامل کرنے کا معاہدہ چین اور سعودی عرب کے درمیان طے پا گیا ہے۔ جدید ترین آئی ٹی ٹیکنالوجی کے فروغ کے لیے سعودی عرب نے ایک چینی کمپنی کے ساتھ بھی ایک معاہدہ کیا ہے۔ یہ وہی کمپنی ہے جس کو امریکہ نے جاسوسی کا الزام لگا کر بین کر رکھا ہے۔ یقینا یہ بات بھی سعودی عرب کے پرانے پارٹنر امریکہ کو اچھی نہیں لگے گی۔
بہرحال سارے شرقِ اوسط میں ایک نئے منظرنامے کا ظہور ہو رہا ہے۔ سعودی عرب اور چین دونوں سے پاکستان کے دیرینہ انتہائی گہرے اور بامعنی دوستانہ تعلقات قائم ہیں۔ لہٰذا دونوں ممالک کی یہ پارٹنر شپ ہمارے لیے بھی ثمرآور ثابت ہوگی۔ نیز اس نئی عالمی صف بندی سے خطے میں تعاون و خوشحالی کی بہت سی راہیں کھلیں گی۔
اب یہ ہم پر منحصر ہے کہ ہم ان عالمی مواقع سے مستفید ہونے کے لیے غور و فکر اور ہوم ورک کرتے ہیں یا دم توڑتی ہوئی معیشت سے منہ موڑ کر فوری یا اپنے وقت پر انتخاب کی کشاکش میں الجھے رہتے ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں