6دنوں کا کھیل شروع

شاعر نے تو کہا تھا ؎
ہم تو موسم کا تغیر بھی نہیں سہہ پاتے
آپ لہجے کو بدلتے ہوئے سوچا تو کریں
جناب عمران خان شاید ایسی کسی سوچ کا تکلف روا نہیں رکھتے۔ وہ قریب ترین دوستوں اور عنایات کی بارش کرنے والے محسنوں سے بھی نہ صرف یکایک آنکھیں پھیر لیتے ہیں بلکہ لب و لہجہ بھی بدل لیتے ہیں۔ واقفانِ حال ہی نہیں خود عمران خان‘ قمر جاوید باجوہ صاحب کے اخلاص‘ تحمل اور پی ٹی آئی کے ساتھ تعاون کے بارے میں اپنے دورِ حکومت میں تعریفوں کے پل باندھا کرتے تھے مگر اب وہی عمران خان کہتے ہیں کہ اقتدار میرا تھا مگر اختیار کسی اور کے پاس تھا۔ محروم اقتدار ہو کر اب خان صاحب فرماتے ہیں کہ اقتدار میں رہتے ہوئے وہ مکمل بے بس تھے۔
17دسمبر کی شب چیئرمین پی ٹی آئی نے اعلان کیا کہ وہ 23دسمبر بروز جمعۃ المبارک پنجاب اور خیبرپختونخوا کی اسمبلیاں توڑ دیں گے۔ بہت سے لوگ حیرت سے پوچھتے ہیں کہ کیا واقعی خان صاحب اسمبلیاں توڑ دیں گے؟ جو باہمت شخص آئے روز دوستوں اور محسنوں کا دل توڑ سکتا ہے‘ اس کے لیے اسمبلیاں توڑ دینا کون سا مشکل کام ہے؟ البتہ سوال بس اتنا ہے کہ خان صاحب اسمبلیاں کیوں توڑ رہے ہیں؟ اطلاعات ہیں کہ وزیراعلیٰ پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے سر توڑ کوشش کی کہ خان صاحب ایسا نہ کریں۔ انہوں نے خان صاحب کے سامنے منطقی دلائل اور واقعاتی مشاکل کا انبار لگا دیا مگر خان صاحب نے اُن کی ایک نہ مانی‘ ایک نہ سنی۔ پرویز الٰہی کے دلائل میں وزن بہت تھا کہ ہم نے بہت سے ترقیاتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں جو پنجاب کے عوام کے لیے نہایت مفید ثابت ہوں گے۔ چودھری صاحب کی سابقہ وزارتِ اعلیٰ کے دوران وجود میں آنے والا کارنامہ ریسکیو 1122 یادگار حیثیت اختیار کر چکا ہے۔ اگر وزیراعلیٰ پنجاب لاہور میں انڈر گرائونڈ ریلوے کے منصوبے کا سنگِ بنیاد رکھ جاتے ہیں اور اس پر کام کا آغاز ہو جاتا ہے تو یہ کام بھی پنجاب‘ بالخصوص لاہور میں اُن کی نیک نامی میں گراں قدر اضافے کا باعث ہوگا۔
خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی کو موجودہ صوبائی اسمبلی میں تقریباً دو تہائی اکثریت حاصل ہے۔ اس وقت خیبرپختونخوا کے تاجر بھتہ خوروں اور خرکاروں کے ہاتھوں سخت پریشان ہیں۔ امن و امان کی صورتِ حال ناگفتہ بہ ہے۔ عوام الناس مہنگائی کی چکی میں پس رہے ہیں۔ ان حالات میں اگر وہاں ضمنی انتخابات ہوتا ہے تو مذکورہ بالا پس منظر کی روشنی میں وہاں تحریک انصاف کی سیٹیں کم ہو سکتی ہیں۔ جہاں تک پنجاب کا تعلق ہے تو یہ بھی شنید ہے کہ اسمبلی توڑنے کی سمری پر دستخط کرنے سے قبل چودھری پرویز الٰہی نے ضمنی یا اگلے عام انتخاب میں پی ٹی آئی سے کم از کم پچیس تیس صوبائی نشستوں کی یقین دہانی طلب کی تھی۔ہمیں یہ تو معلوم نہیں کہ انہیں کوئی ایسی یقین دہانی کرائی گئی تھی یا نہیں؛ البتہ ہمیں 17 دسمبر کی شب کا وہ منظر نہیں بھولتا جب اسمبلیاں توڑنے کے دھماکہ خیز خطاب کے بعد چودھری صاحب عمران خان کے گھر سے رخصت ہو رہے تھے۔ وہ بوجھل قدموں اور بوجھل تر دل کے ساتھ خان صاحب کی رہائش گاہ سے باہر نکل رہے تھے۔ ایسے ہی مواقع کے لیے فیض احمد فیض نے کہا تھا:
اٹھ کر تو آ گئے ہیں تری بزم سے مگر
کچھ دل ہی جانتا ہے کہ کس دل سے آئے ہیں
چودھری پرویز الٰہی 17 دسمبر کی شب جب اپنا حکومتی مال و متاع لٹا کے اور سیٹوں کا محض وعدۂ فردا لیے باہر نکلے تو انہیں شدّت سے احساس ہوا کہ:
نہ خدا ہی ملا نہ وصالِ صنم
نہ اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
محسوس یوں ہوتا ہے کہ 17 اور 18 دسمبر کی درمیانی شب چودھری پرویز الٰہی نے اضطراب اور پیچ و تاب میں بسر کی۔ البتہ صبح ہونے تک انہوں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ دل کے پھپھولے پھوڑے جائیں اور ''اہلِ درد‘‘ کے سامنے سینے کے داغ آشکارا کیے جائیں۔ لہٰذا 18دسمبر کی بریکنگ نیوز اسمبلیاں توڑنے کی 17دسمبر کی خبر سے کہیں زیادہ ڈرامائی تھی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ قمر جاوید باجوہ نے عمران خان کے لیے وہ کچھ کیا جس کا عام لوگ تصور بھی نہیں کر سکتے۔ وہ عمران خان اور ہمارے محسن تھے۔ پرویز الٰہی صاحب نے دل سے لب تک کسی مصلحت کو آڑے نہیں آنے دیا۔ چودھری صاحب کو اس بات کا شدید قلق تھا کہ عمران خان نے انہیں ساتھ بٹھا کر اپنے اور اُن کے محسن جنرل (ر) باجوہ کے لیے سخت الفاظ استعمال کیے۔
یہاں چودھری صاحب سے پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ سب کچھ جانتے بوجھتے آپ اور آپ کا بیٹا پندار کا صنم کدہ ویراں کیے ہوئے طواف کوئے جاناں بلکہ ''کوئے خانہ‘‘ کے لیے کیوں بیتاب ہو گئے اور آپ نے پی ڈی ایم کے ساتھ کیا گیا معاہدہ کیوں توڑ دیا تھا۔ 18دسمبر کو وزیراعظم شہباز شریف اور آصف علی زرداری نے مسلم لیگ (ق) کے چیئرمین چودھری شجاعت حسین کے ساتھ ملاقات کی اور نئی صورتِ حال میں انہیں ہر فیصلے کا اختیار دے دیا ہے۔
ہمیں حیرت ہے کہ عوامی مقبولیت کے دعویدار ہونے کے باوجود خان صاحب پرانی یادوں کو تازہ کرتے ہوئے کبھی مقتدر حلقوں کو پکارتے ہیں اور کبھی اعلیٰ عدالتوں کو۔ خان صاحب کھلے دل و دماغ کے ساتھ صدر عارف علوی کی طرح حکومت سے براہِ راست مذاکرات کیوں نہیں کرتے۔ اس وقت پاکستان معاشی مشکلات کی دلدل میں پھنس چکا ہے‘ زرِمبادلہ نہ ہونے کے برابر ہے اور ڈیفالٹ کی تلوار ہمارے سر پر لٹک رہی ہے۔ سارے پاکستان میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتِ حال انتہائی مخدوش ہے۔ خاص طور پر خیبر پختونخوا میں دہشت گردی اور کالعدم مذہبی تنظیموں کی جانب سے قتل و غارت گری اور خود کش حملوں میں بہت اضافہ ہو چکا ہے۔
خان صاحب کی بے نیازیوں کو دیکھیں تو یوں لگتا ہے کہ خدانخواستہ ملک ڈیفالٹ کرتا ہے تو کر جائے‘ عوام مہنگائی کی چکی میں پستے ہیں تو پس جائیں‘ ملک میں امن و امان تباہ ہوتا ہے تو ہو جائے‘ انہیں اس طرف توجہ دینے کی فرصت نہیں۔ عمران خان کا یک نکاتی ایجنڈا صرف اور صرف یہ ہے کہ انہیں ایک بار پھر وزیراعظم بنایا جائے۔ خان صاحب کو شاید اندازہ نہیں کہ سنگین نوعیت کے مقدمات میں اعلیٰ عدالتوں کی طرف سے اُن کے خلاف فیصلے بھی آ سکتے ہیں۔
پنجاب میں پردہ اٹھنے کی منتظر ہے نگاہ۔ اسمبلیاں ٹوٹنے کی 6 روزہ مہلت کا ڈرامائی مرحلہ شروع ہو چکا ہے۔ یہاں ایک بار پھر چودھری پرویز الٰہی ایک نئے روپ میں جلوہ گر ہونے والے ہیں۔ البتہ اس بار انہیں پھر وزارتِ اعلیٰ تو شاید مل جائے مگر اس کے لیے انہیں اپنے بڑے بھائی چودھری شجاعت حسین کو منانا پڑے گا اور اُن سے اپنے آئندہ کے سیاسی طرزِ عمل ضمانت حاصل کرنا ہوگی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں