کہ یہ سال بھی کٹ گیا ہے!

محاسبہ ندامت کو جنم دیتا ہے اور ندامت سے اصلاحِ احوال کی راہیں کشادہ ہوتی ہیں۔ دیکھیے شاعر گزرے مہ و سال کے آئینے میں صدقِ دل سے کیسے اپنا محاسبہ کر رہا ہے۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی خوبصورت آزاد نظم ملاحظہ کیجیے:
محاسبہ
اذانِ مغرب سے دن کی پسپا سپاہ کا دل دھڑک رہا تھا
تمام رنگوں کے امتیازات مٹ چکے تھے
ہر ایک شے کی سیہ قبا تھی
شجر حجر سب کے سب گریباں میں سر جھکائے
محاسبہ کر رہے تھے دن بھر کے نیک و بد کا
طویل قامت حزیں کھجوریں
کٹی ہوئی ساعتوں کے ماتم میں
بال کھولے ہوئے کھڑی تھیں
ادھر مرا دل دھڑک دھڑک کر
عجیب عبرت بھری ندامت سے سوچتا تھا
کہ آج کا دن بھی کٹ گیا ہے
عبرت بھری ندامت سے سوچنا تو دور کی بات ہم نے من حیث القوم سوچنا بھی ترک کر دیا ہے۔ 2022 ء ساری دنیا کے لیے ایک تکلیف دہ سال تھا۔ کورونا نے 2020 ء اور 2021 ء میں ساری دنیا کی معیشت کو تہ و بالا کر دیا۔ ترقی پذیر ممالک ہی نہیں چین اور امریکہ جیسے ترقی یافتہ ممالک بھی اقتصادی بحران کا شکار ہو گئے۔ بہت سے ممالک میں فیکٹریاں اور کارخانے بند ہو گئے اور لاکھوں کروڑوں کی تعداد میں لوگ بے روزگار ہو گئے۔ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملکوں کا گزارہ عالمی اداروں کے قرضوں پر ہوتا ہے۔ اس وقت قرضے نہ ملنے کی بنا پر ہماری رگِ جاں بُری طرح شکنجے میں آئی ہوئی ہے۔
ان حالات میں روس نے یوکرین پر جنگ مسلط کر کے اور تیل کی ترسیل کو اپنے سیاسی و عالمی مفادات کے تابع کر کے دنیا کی معیشت کو مزید مشکلات سے دوچار کر دیا ہے۔ ان مشکل اقتصادی حالات میں ہمیں بہت زیادہ محتاط ہونے کی ضرورت تھی مگر ہمارے سیاست دانوں نے اقتصادی و عالمی منظرنامے اور 22 کروڑ عوام کی حالتِ زار کو یکسر نظرانداز کر کے اپنی تمام قوتیں اور صلاحیتیں ایک دوسرے کی حکومتوں کو گرانے پر مرکوز کر رکھی ہیں۔
پی ٹی آئی کی حکومت لشتم پشتم چل رہی تھی مگر اپوزیشن کی جماعتوں نے عوام کو بتایا کہ خان صاحب نے ملکی معیشت کو گور کنارے پہنچا دیا ہے۔ انہوں نے آئی ایم ایف کے چھ بلین ڈالر کے قرضے کے لیے نہایت سخت شرائط تسلیم کر لیں مگر عملاً تنفیذ سے انکار کر دیا۔ نتیجتاً آئی ایم ایف نے قرضے کی اگلی قسط روک لی اور پاکستان کو ڈیفالٹ کا خطرہ لاحق ہو گیا۔سوچا یہ جا رہا تھا کہ اپوزیشن کی تیرہ جماعتوں کے جہاندیدہ سیاست دانوں نے ساری صورتِ حال کا جائزہ لے کر اپنا اصلاحی منصوبہ ترتیب دے لیا ہوگا۔ وہ حسبِ وعدہ عوام کو معاشی مشکلات کی دلدل سے نکال لیں گے مگر آج آٹھ مہینے گزرنے کے بعد وزیراعظم شہباز شریف فرماتے ہیں کہ انہیں اندازہ نہیں تھا کہ معیشت کی حالت اتنی خراب تھی اور خزانہ اس حد تک خالی تھا۔ میاں شہباز شریف اور 76 رکنی کابینہ سے پوچھنے والا سوال یہ ہے کہ حضور! اس دریا کی گہرائی کا اندازہ لگائے بغیر آپ اس میں کیوں کود پڑے ؟
ادھر خان صاحب نے اس حقیقت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا کہ تحریکِ عدم اعتماد پارلیمانی سیاست کا جزو لاینفک ہے۔ خان صاحب نے حکومت کی تبدیلی کو پہلے امریکی سازش قرار دیا پھر اس الزام کو چھوڑ کر انہوں نے اپنی توپوں کا رُخ قمر باجوہ کی طرف پھیر دیااور اُن پر الزامات کی یلغار کر دی۔ اب اس وقت اتحادی حکومت ہو یا تحریک انصاف‘ دونوں معیشت کی ڈوبتی کشتی کو نظرانداز کر کے‘ عوام کی بے پناہ غربت سے منہ پھیر کر‘ اڑھائی تین کروڑ سیلاب زدگان کی کسمپرسی کو بھول کر اور دہشت گردی کے سرحدی علاقوں سے شہروں تک پہنچنے والے شدید خطرات سے آنکھیں بند کر کے ایک دوسرے پر الزامات کی بوچھاڑ کرنے میں مگن ہیں۔ سیاست دانوں کی اوّل و آخر ترجیح کرسی ہے جبکہ غریب عوام کی ایک ہی ترجیح ہے کہ انہیں دو وقت روٹی ملے اور بنیادی ضروریات میسر ہوں۔ اس وقت اشیائے ضرورت کی تمام چیزوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ عوام کے لیے سب سے بڑی ترجیح جان و مال کا تحفظ ہے۔ یہی تحفظ اس وقت پاکستان میں ناپید ہے۔ کراچی میں بندہ مارنا آسان اور پرندہ مارنا مشکل ہے۔ پنجاب کے حکمران اور سیاستدان حکومتیں بنانے اور توڑنے میں مصروف ہیں‘ لہٰذا یہاں بھی جرائم پیشہ لوگوں کو کھلی چھٹی ملی ہوئی ہے۔ پشاور میں دہشت گردی کے علاوہ بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کے گھنائونے‘ جرائم روز افزوں ہیں۔
ایک بزرگ کالم نگار نے بالکل درست لکھا ہے کہ پاکستانی بغضِ عمران اور حبِ عمران کے یرغمال ہیں۔ حکومت اور اپوزیشن کی اس جنگ میں بے چارے عوام اسی طرح کچلے جا رہے ہیں جیسے ہاتھیوں کی لڑائی میں بے قصور گھاس کچلی جاتی ہے۔ اگر ہم کسی حقیقی جمہوری ملک میں ہوتے تو جناب عمران خان پارلیمنٹ کے اندر بیٹھے ہوتے‘ حکومت کی پالیسیوں اور قانون سازیوں پر نظر رکھتے۔ جہاں کچھ غلط ہوتا وہاں دلائل کے ساتھ تنقید کرتے اور صوبوں کے درمیان خدمتِ عوام کا صحت مندانہ مقابلہ جاری ہوتا مگر یہ نہ تھی ہماری قسمت۔ اگر ہم خوش قسمت ہوتے تو یہ تیرہ رکنی اتحاد انرجی کے اتنے بڑے بحران کے حل کے لیے متفقہ طور پر کالا باغ ڈیم تعمیر کرنے کی پارلیمنٹ سے قرارداد منظور کرواتا۔ نجات دہندہ بن کر آنے والے تیرہ رکنی اتحاد کے بارے میں اتنا کہنا کافی ہو گا کہ نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں۔جبکہ خان صاحب کے طرزِ عمل کا خلاصہ یہ سطر ہے کہ جو میں نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
اب حکمران کہتے ہیں کہ ہمیں اپنے انداز و اطوار بدلنا ہوں گے۔ قوم کو چاہیے کہ وہ پرانی عادات کو خیرباد کہے اور نئی عادات کو اپنا لے۔ 9 بجے صبح کام کا آغاز کریں اور چھ سات بجے شام تک دکانیں اور مارکیٹیں بند کر دیں۔ عادات کی تبدیلی کوئی بٹن دبانے یا وعظ‘ نصیحت کرنے سے نہیں ہو جاتی۔ اس عمل کے لیے حکمرانوں کو رول ماڈل بننا ہوتا ہے۔ عربی زبان کا پرانا محاورہ ہے النّاس علیٰ دین ملوکھم لوگ اپنے حکمرانوں کے طرزِ عمل کو اپناتے ہیں۔ حکمران اور سیاست دان اگر تین تین سو کنال کے محلات میں رہائش پذیر ہوں گے‘ سفر کریں گے تو بیس بیس‘ تیس تیس گاڑیوں کا کانوائے اُن کے ساتھ ہو گا تو عوام پر اُن کی نصیحت کا کوئی اثر نہیں ہو گا۔
پاکستان کے حوالے سے 2022 ء کی سب سے بڑی مثبت خبر یہ ہے کہ جاتے جاتے جنرل قمر جاوید باجوہ نے بہت سے اعترافات کیے ہیں۔ ان اعترافات کی روشنی میں فوج نے من حیث الادارہ فیصلہ کر لیا ہے کہ اب وہ سیاست میں مداخلت نہیں کرے گی۔ عمران خان پارلیمنٹ میں آنے‘ سیاست دانوں سے مذاکرات کرنے اور جمہوری و پارلیمانی طرزِ عمل سے کام لینے کے بجائے ابھی تک پرانی روش سے چھٹکارا نہیں پا سکے۔ وہ اب بھی قبل از وقت انتخاب کے لیے پارلیمنٹ کے بجائے فوج کو پکارتے ہیں۔ وہاں سے جواب نہیں آتا تو وہ جھنجھلاہٹ کا شکار ہوتے ہیں۔
بال اب سیاست دانوں کے کورٹ میں ہے۔ مقتدرہ کی طرح وہ بھی اپنا محاسبہ کریں اور سیاست سے فوج کی کناراکشی کا احترام کریں۔ اسی طرح باہمی تعاون سے کام لیتے ہوئے آئندہ سال میں سیاسی استحکام اور معاشی مشاورت کو یقینی بنائیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں