کراچی کے بلدیاتی انتخابات‘ الیکشن کمیشن کا امتحان

تازہ ترین خبروں کے مطابق معاشی دیوالیہ پن کے شکار سری لنکا کے الیکشن کمیشن نے وہاں کے وزیراعظم کی کوششوں کے برعکس فروری میں مقامی حکومتوں کے انتخابات کا اعلان کر کے اپنی آزادی ثابت کر دی ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ پاکستانی الیکشن کمیشن کراچی میں 15 جنوری کے مقامی انتخابات کو یقینی بنا کر اپنی آزادی ثابت کرتا ہے یا نہیں؟ ہم کالم میں کراچی کی سیاسی صورتِ حال کا تفصیل سے جائزہ لیں گے مگر پہلے ایک وضاحت ضروری ہے۔
ہمارے قارئین کو خدا خوش رکھے‘ تعریف بھی کرتے ہیں اور دلیل کے ساتھ تنقید بھی۔ میرے گزشتہ کالم کا ٹائٹل تھا ''کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘۔ اس کالم میں معیشت کی ہچکولے کھاتی کشتی کی نشاندہی اور سیاستدانوں کی اَنا پرستی کا تذکرہ تھا۔ کالم کا اختتام بھی اس جملے پر ہوا کہ ''کوئی صورت نظر نہیں آتی‘‘۔ہمارے قارئین نے مختلف ذرائع سے کالم کے یاس انگیز اختتام پر گرفت کی اور کہا کہ آپ ہمیشہ ابر آلود افق پر بھی امید کی کرنوں کو ضرور اجاگر کرتے ہیں۔ مجھے قارئین کی اس تنقید سے اتفاق ہے؛ تاہم دراصل خاکسار حکمرانوں کو معیشت و سیاست کی تشویشناک صورتِ حال سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔ اس لیے ارادتاً امید کی کرنوں کو مخفی رکھا گیا تھا۔ اب آئیے کراچی کی طرف‘ ان دنوں کراچی ہی مرکزِ نگاہ بنا ہوا ہے۔ باقی ملک میں تو سیاست ایک لحاظ سے جامد اور جوں کی توں ہے مگر کراچی میں سبھی پارٹیاں متحرک ہیں۔ جماعت اسلامی یکسوئی کے ساتھ 15 جنوری کو منعقد ہونے والے الیکشن کے لیے انتخابی مہم چلا رہی ہے۔ اس وقت مختلف غیرجانبدار تجزیوں اور میڈیارپورٹوں کے مطابق کراچی سمیت سندھ کے شہری علاقوں میں سب سے آگے ہے۔
بالخصوص کراچی کے عوام گزشتہ کئی سالوں کے دوران حافظ نعیم الرحمن اور اُن کی ٹیم کی عوامی خدمت دیکھ کر اس بات پر یکسو ہیں کہ وہ اس مرتبہ حافظ صاحب کو ہی کراچی کا میئر منتخب کروائیں گے تاکہ کھنڈر بنتے ہوئے شہر کی رونقیں واپس لائی جا سکیں۔ کراچی کے بلدیاتی انتخابات کے منظرنامے کو سمجھنے کے لیے اس پس منظر پر ایک نظر ڈالنا ضروری ہے۔ 2015 ء کے انتخابات میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کو واضح کامیابی ملی تھی اور وسیم اختر میئر کراچی منتخب ہوئے تھے۔ اس کے بعد مکافاتِ عمل کے بروئے کار آنے سے کراچی میں ایم کیو ایم کا ستارہ گردشِ ایّام کا شکار ہو گیا۔ 2018 ء کے عام ملکی انتخابات میں کراچی کی روایتی کامیابی کا سہرا غیبی قوتوں نے پی ٹی آئی کے سر باندھ دیا۔ پی ٹی آئی نے بھی اہل شہر کے سامنے بلند بانگ دعوے اور کئی سنہری وعدے کیے تھے مگر ان وعدوں میں سے کوئی ایک بھی ایفا نہ ہوا۔ پیپلز پارٹی برس ہا برس سے سندھ کی حکمران ہے‘ ایم کیو ایم کے وسیم اختر پانچ چھ برس تک کراچی کے میئر رہے۔ یہ ساری جماعتیں حکومتوں کے مزے لوٹتی رہیںمگر عروس البلاد کی سڑکیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار رہیں‘ ٹرانسپورٹ کی سہولتیں ناپید رہیں‘ اہلِ کراچی بوند بوند میٹھے پانی کو ترستے رہے‘ ڈاکوئوں کے ہاتھوں شہری لٹتے اور مرتے رہے اور کراچی کے باشعور عوام خون کے آنسو روتے رہے۔ عوامی خدمت کے اس زیرو ریکارڈ کے ساتھ یہ جماعتیں سوچتی ہیں کہ وہ کس منہ کے ساتھ لوگوں کے سامنے جائیں گی اور اُن سے ووٹ کا تقاضا کریں گی۔ اسی لیے وہ گزشتہ دو برس سے کراچی کے بلدیاتی انتخاب کو کسی تو کسی عذر یا بہانے کے ذریعے ملتوی کراتی آئی ہیں۔ یکم ستمبر 2020 ء کو سندھ بھر کی مقامی حکومتیں اپنی مدّت پوری ہونے کے بعد تحلیل کر دی گئیں۔ دسمبر 2021 ء میں سندھ حکومت نے اعلان کیا کہ وہ فروری یا مارچ میں بلدیاتی الیکشن کروا دے گی۔ بعدازاں الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اعلان کیا کہ انتخاب 24 جولائی 2022 ء کو ہوں گے۔ تاہم سندھ حکومت کی درخواست پر الیکشن کمیشن نے ممکنہ بارشوں اور سیلابوں کے خطرات کے پیش نظر انتخابات 28 اگست تک ملتوی کر دیے۔ اس کے بعد سندھ حکومت نے سیلابوں کا عذر تراشا اور پولیس کی مطلوبہ نفری کی عدم دستیابی کا حیلہ پیش کر کے الیکشن کمیشن سے ایک بار پھر مقامی حکومتوں کے انتخابات ملتوی کروا لیے۔ پھر الیکشن کمیشن کی طرف 23 اکتوبر کی تاریخ دی گئی مگر اس روز بھی انتخابات نہ کرائے گئے۔ یوں روز روز کے تاخیری حربوں کے سامنے سرنگوں ہوتے ہوئے چیف الیکشن کمشنر کی نیک نامی اور قانون پسندی پر کئی سوالیہ نشان اُٹھ گئے۔ اس کے بعد جماعت اسلامی نے سندھ ہائی کورٹ میں درخواست دائر کی‘ اس درخواست کی شنوائی کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے 15 جنوری کو کراچی میں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد کا اعلان کر دیا۔
کراچی کا تازہ ترین منظرنامہ یہ ہے کہ بلدیاتی الیکشن میں اپنی ناکامی کا نوشتۂ دیوار پڑھ کر ایم کیو ایم کے تینوں دھڑے آپس میں حقیقی یا نمائشی اتحاد کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ایم کیو ایم نے وفاق میں اپنی اتحادی جماعت پیپلز پارٹی کو الٹی میٹم دیا ہے کہ وہ کراچی کی حلقہ بندیوں کو درست کرے وگرنہ وہ وفاق میں بھی اتحادی حکومت سے علیحدگی کے بارے میں فیصلہ کرنے میں آزاد ہوں گے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ انتخابات سے عین دس پندرہ روز قبل ایم کیو ایم کو حلقہ بندیوں کا خیال کیوں آیا ہے؟ ایم کیو ایم کے ایک وفد نے خالد مقبول صدیقی کی زیرقیادت جماعت اسلامی کراچی کے دفتر جا کر حافظ نعیم الرحمن سے ملاقات کی ہے اور انہیں پہلے حلقہ بندیوں کی درستی اور پھر انتخاب کے انعقاد پر قائل کرنے کی کوشش کی۔ اس کے جواب میں حافظ نعیم الرحمن نے نہایت واضح اور دوٹوک مؤقف اختیار کیا کہ حلقہ بندیوں اور انتخابی فہرستوں کی اصلاح کا عمل طولانی ہے۔ اس لیے سرِدست اس موضوع کو نہیں چھیڑنا چاہیے۔
6 جنوری کو حافظ نعیم الرحمن نے ایک بڑے جلوس کی قیادت کرتے ہوئے چیف منسٹر کراچی کی رہائش گاہ کے قریب دھرنا دیا اور ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان پائے جانے والی کشاکش کو نورا کشتی قرار دیا۔ حافظ صاحب نے کہا کہ اہلِ کراچی کسی طور بھی 15 جنوری کے انتخابات کا التوا قبول نہیں کریں گے۔ انہوں نے میڈیا کو یہ بھی بتایا کہ 8 جنوری کو کراچی میں ان تاخیری حربوں کے خلاف ایک تاریخی جلوس نکالا جائے گا۔ پی ٹی آئی نے بھی 6 سے 8 جنوری تک کراچی میں میگا جلوس نکالنے اور اور بڑے زور و شور سے 15 جنوری کے الیکشن کے لیے انتخابی مہم چلانے کا اعلان کیا ہے۔
5 جنوری کے اخبارات میں ایک ایسی خبر شائع ہوئی جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترقی یافتہ ہی نہیں تیسری دنیا بھی مقامی حکومتوںکو کتنی اہمیت دیتی ہے۔ اقتصادی دیوالیہ پن کے شکار سری لنکا نے فروری میں بلدیاتی الیکشن کے انعقاد کا اعلان کر دیا ہے۔ اس وقت سری لنکا میں معاشی مسائل کے باعث ملک گیر مظاہرے ہو رہے ہیں‘ وزیراعظم وکرما سنگھے نے ان انتخابات کو رکوانے کی کوشش کی۔ انہوں نے کہا کہ ملک الیکشن پر دس ارب روپے خرچ کرنے کا متحمل نہیں ہو سکتا‘ لیکن آزاد الیکشن کمیشن نے بلدیاتی الیکشن اور مقامی حکومتوں کے قیام پر اصرار کیا۔ سری لنکا کے الیکشن کمیشن نے دو ٹوک انداز میں کہا کہ انتخابات پہلے ہی ایک سال کی تاخیر کا شکار ہو چکے ہیں‘ مزید التوا ممکن نہیں۔
سری لنکا کا الیکشن کمیشن تاخیری حربوں اور معاشی مجبوریوں کو رد کر کے اپنی آزادی ثابت کر چکا ہے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ پاکستان کا الیکشن کمیشن کس حد تک آزاد ہے؟

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں