مشرقی پاکستان‘ ٹوٹا ہوا تارا

جناب الطاف حسن قریشی وہ درخشندہ و تابندہ ستارا ہیں جو تقریباًگزشتہ 65 برس سے آسمانِ صحافت پر ضوفگن ہے اور اپنے تجزیوں اور تحریروں سے دلوں کو منور کر رہا ہے۔ عموماً پیرانہ سالی میں ادیبوں اور صحافیوں کے قلم کی وہ جولانیاں ماند پڑ جاتی ہیں جو اُن کی ابتدائی نگارشات میں دکھائی دیتی ہیں‘ مگر آج بھی قریشی صاحب کے شعور کی دھار تیز تر‘ اُن کے اسلوب کا بانکپن بدستور جوبن پر اور اُن کی تحریر کی کاٹ ایسی ہے کہ جو رگِ جاں کاٹتی ہوئی دل میں جا بستی اور وہاں ہلچل مچا دیتی ہے۔ پامال راستوں پر گامزن ہونا آسان مگر نئی راہیں تراشنا اور نئی دنیائیں دریافت کرنا بہت دشوار ہوتا ہے۔ دنیا میں اکثر انسان سہل پسند مگر کچھ بے قرار روحیں مشکل پسند ہوتی ہیں۔ انہیں اس وقت تک چین ہی نہیں آتا جب تک کہ وہ اپنے لئے چیلنج کا کوئی نیا کوہ ہمالیہ کھڑا نہیں کر لیتیں اور پھر اس پر کوہ پیمائی شروع نہیں کر دیتیں۔
الطاف حسن قریشی ایک ایسی ہی جدت پسند شخصیت ہیں۔ انہوں نے ممتاز انگریزی جریدے ریڈرز ڈائجسٹ کے انداز میں ایک ماہنامہ لانے کا فیصلہ کیا جس سے اس وقت تک اردو ادب و صحافت ناآشنا تھے۔ قریشی صاحب نے اردو ڈائجسٹ کا آغاز 1960ء میں اپنے بردارِ اکبر اعجاز حسن قریشی کے ساتھ مل کر کیا تھا۔ آج 63 برس کے بعد بھی یہ ماہنامہ اسی رعنائی و دلربائی کے ساتھ فہم و شعور کے دیے جلانے اور سوچ کے دریچے وا کرنے کا فریضہ انجام دے رہا ہے۔ میں نے ابھی شعور کی آنکھ نہ کھولی تھی جب سے ہم نے بچپن اور لڑکپن میں اپنے گھر میں ہر ماہ اردو ڈائجسٹ دیکھا۔ میں اور میرا بھائی فرید‘ ہم ہر ماہ نہایت بے چینی سے اردو ڈائجسٹ کی گھر آمد کا انتظار کرتے۔ اس وقت ہمارا پسندیدہ موضوع شکاریات ہوتا تھا۔ جوں جوں شعور کی آنکھ کھلتی گئی توں توں ہم پر آشکارا ہوتا گیا کہ عام شکاری تو شیر چیتے کا شکار کرتے ہیں جبکہ الطاف حسن قریشی اپنے قلم کی جولانی اور اپنے دلائل کی مضبوطی سے عقل و خرد اور قلب و نظر کو شکار کرتے ہیں۔
حال ہی میں الطاف حسن قریشی کی ایک کتاب منظر عام پر آئی ہے۔ 1400 صفحات پر مشتمل اس کتاب کا ٹائٹل ہے ''مشرقی پاکستان‘ ٹوٹا ہوا تارا‘‘۔ یہ اُن تحریروں کا مجموعہ ہے جو 1964ء سے لے کر 2000ء تک ماہنامہ اردو ڈائجسٹ میں شائع ہوئیں۔ ان تحریروں کی انفرادیت یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر الطاف حسن قریشی نے مشرقی پاکستان کے طول و عرض میں گھوم پھر کر اور خواص و عوام سے آزادانہ تبادلۂ خیال کر کے لکھی تھیں۔ ہمارا مشرقی بازو ہمارے تن سے کب جدا ہوا‘ کن حالات میں جدا ہوا‘ جدائی کے کیا اسباب تھے اور ان اسباب کا تدارک کیوں نہ کیا جا سکا۔ اس کتاب میں قاری کو ان سب سوالوں کا تفصیلی جواب ملے گا۔1960ء کی ساری دہائی اور 1970ء کے اوائل میں مشرقی پاکستان میں حالات جب کوئی نئی کروٹ لیتے یا وہاں کوئی بحرانی کیفیت پیدا ہوتی تو قریشی صاحب بنفس نفیس ڈھاکہ جاتے اور معاملے کی تہہ تک پہنچنے کیلئے کئی کئی ہفتے قیام کرتے۔ صحافیوں‘ سیاستدانوں‘ طالب علموں اور دینی رہنماؤں سے ملتے اور سلگتے ہوئے مسائل کے اسباب معلوم کرنے کی کوشش کرتے۔ اس کتاب میں جناب مجیب الرحمن شامی کا وہ یادگار مضمون ''میں کیسے بھول جاؤں‘‘ بھی شامل ہے۔ اس مضمون میں شامی صاحب نے 18 جنوری 1970ء کی سہ پہر پلٹن میدان ڈھاکہ میں جماعت اسلامی کے پہلے انتخابی جلسے کی روداد قلمبند کی تھی۔ شیخ مجیب کے مسلح جیالے جلسے کے منتظمین اور حاضرین پر ٹوٹ پڑے تھے۔ شامی صاحب کے قلم سے اس المناک واقعے کی تفصیلی کہانی اس دور کے مقبول ہفت روزہ 'زندگی‘ میں شائع ہوئی تھی۔ مولانا مودودی‘ جو مغربی پاکستان سے بطور خاص ڈھاکہ تشریف لے گئے تھے‘ انہیں جلسے سے خطاب نہ کرنے دیا گیا۔ اس واقعے میں دو افراد ہلاک اور سینکڑوں زخمی ہوئے تھے۔ اس سے پہلے 1964ء میں مادرِ ملت کی انتخابی مہم کے سلسلے میں مولانا مودودی مشرقی پاکستان گئے تو میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہری اُن کے ہمراہ تھے۔ اسی پلٹن میدان ڈھاکہ میں 29 نومبر 1964ء کو جماعت اسلامی کا جلسۂ عام منعقد ہوا تھا۔ والد صاحب نے اس روز کی ڈائری میں لکھا تھا ''ٹھیک چار بجے جلسہ کی کارروائی کا آغاز ہوا۔ تقریباً پچیس ہزار کا مجمع تھا‘ پہلے چند منٹ میرا خطاب ہوا۔ پھر مولانا مودودی کی تفصیلی تقریر نہایت توجہ اور انہماک سے سنی گئی‘‘۔
قریشی صاحب نے ''محبت کا زمزم بہہ رہا ہے‘‘ کے عنوان سے اگست تا دسمبر 1966ء میں ایک سلسلۂ مضامین شائع کیا۔ ان مضامین میں انہوں نے مشرقی و مغربی پاکستان کے درمیان الفت و محبت اور وحدت و یگانگت کی کئی مبنی بر حقیقت داستانیں سنائیں۔ 1965ء کی جنگ میں بنگال رجمنٹ کی مغربی محاذ پر شاندار کارکردگی کا حال بیان کیا اور اس پر مشرقی پاکستان میں پائے جانے والے جوش و جذبے سے قارئین کو آگاہ کیا۔ انہی مضامین میں قریشی صاحب نے لکھا تھا کہ جب جنگِ ستمبر کے بعد آغا شورش کاشمیری کی نظم 'مشرقی بنگال کے آتش بجانوں کو سلام‘ شائع ہوئی تو مشرقی پاکستان کے لوگوں نے اسے ہاتھوں ہاتھ لیا۔ اس کا فوراً بنگلہ میں ترجمہ ہوا جو گھر گھر تقسیم کیا گیا۔ قریشی صاحب نے اُن دنوں یہ بھی لکھا تھا کہ مشرقی پاکستان کے شہر شہر ا ور قریہ قریہ کرش انڈیا‘ پاکستان زندہ باد کے نعروں سے گونجتا تھا۔ یقینا اس سوال کا جواب اس ضخیم کتاب میں موجود ہو گا کہ ایسا کیا ہوا کہ صرف چار چھ برس میں کایا پلٹ گئی۔ وطن کیلئے نغمے گانے والے پاکستان کے خلاف شعلے اگلنے لگے۔
دراصل مشرقی پاکستان کے لوگ 1964ء میں مادرِ ملت کو ووٹ دینے کے باوجود اُن کی دھاندلی سے شکست اور 1965ء کی جنگ کے دوران اس بازو کے دفاع کا انتظام نہ ہونے پر سخت دلبرداشتہ تھے۔ قریشی صاحب اپنی کتاب کے صفحہ 56 اور 57 پر جو لکھا ہے اس کا لب لباب یہ ہے کہ فروری 1966ء میں سابق وزیراعظم چودھری محمد علی کی لاہور میں رہائش گاہ پر ایک قومی کانفرنس منعقد ہوئی۔اس میں شیخ مجیب الرحمن نے 6 نکات پیش کیے جو اس وقت عوامی لیگ کے سیکرٹری جنرل تھے‘ اور نوابزادہ نصراللہ خان اس پارٹی کے صدر تھے۔ انہوں نے شیخ صاحب پر سخت گرفت کی تو اُن کا جواب تھا کہ آپ حضرات مشرقی پاکستان کے حالات سے بے خبر ہیں۔ شیخ صاحب سے کافی بحث و تمحیص کے بعد نوابزادہ نصراللہ خان عوامی لیگ کی صدارت سے مستعفی ہو گئے۔ نوابزادہ صاحب کا موقف تھا کہ یہ 6 نکات علیحدگی کی دستاویز ہے۔ جماعت اسلامی کے سید ابوالاعلیٰ مودودی بھی چھ نکات پر سخت پریشان تھے۔ چودھری محمد علی اس قدر طیش میں آئے کہ کانفرنس کے میزبان ہونے کے باوجود انہوں نے سختی سے شیخ مجیب الرحمن کو وہاں سے چلے جانے کو کہا۔ یوں یہ کانفرنس آئندہ کا لائحہ عمل ترتیب دینے کے بجائے داخلی انتشار کا شکار ہو گئی۔
کیا واقعی ہمارے جہاندیدہ اور انتہائی سنجیدہ سیاست دان اور دانشور مشرقی پاکستان کے حالات سے بے خبر تھے؟ وہ اس لاوے کا اندازہ ہی نہ لگا سکے جو اندر ہی اندر پک رہا تھا اور صرف چار پانچ برس کے بعد پھٹ گیا اور خون کی ندیاں بہا گیا اور ہمیں سقوطِ ڈھاکہ کا جان لیوا صدمہ دے گیا۔ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بننے کی خونچکاں داستاں کے سارے ابواب مشرقی پاکستان‘ ٹوٹا ہوا تارا‘ میں موجود ہیں۔ نیز تاریخ و سیاست کے طلبہ کے تمام چھپے ہوئے سوالات کے تفصیلی جوابات بھی ان صفحات میں پائے جاتے ہیں۔ اس کتاب کے مطالعے سے میں یہ سمجھا ہوں کہ یوں تو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے سینکڑوں اسباب ہوں گے مگر اس کا مرکزی سبب سیاست دانوں کی اناؤں کا ٹکراؤ تھا۔ بدقسمتی سے آج پچاس برس بعد بھی اناؤں کا ٹکراؤ پاکستان میں اپنے عروج پر ہے۔ خدا خیر کرے!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں