جانتے نہیں ہو میں کون ہوں؟

آج آپ کو دو منظر دکھانے ہیں‘ ذرا دل تھام کر پہلا منظر دیکھئے! یہ اسلامی جمہوریہ پاکستان کا سب سے بڑا‘ سب سے امیر ترین‘ سب سے زیادہ تعلیم یافتہ اور تہذیب و ثقافت کا مرکز شہر کراچی ہے۔ تقریباً صبح دس بجے کا وقت ہے‘ ضیاء الدین احمد روڈ کے ایک انتہائی مصروف چوک پر اشتیاق حسین نامی ایک ڈی ایس پی نہایت تندہی سے ٹریفک کو کنٹرول کر رہے ہیں۔ ان کے ساتھ ایک دو پولیس مین بھی مصروفِ عمل ہیں۔ اتنے میں ایک گاڑی آندھی کی طرح اُڑتی اور ٹریفک سگنل توڑتی ہوئی چوک میں پہنچتی ہے۔ ڈی ایس پی آگے بڑھ کر ڈرائیور سے اس تیز رفتاری اور قانون شکنی کا سبب پوچھتے ہیں۔ ڈرائیور معذرت کرنے کے بجائے تلخ کلامی پر اتر آتا ہے۔ اتنے میں ڈرائیور کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی خاتون سخ پا ہو کر گاڑی سے اترتی ہے اور انتہائی بدتمیزی اور ترش روئی کے ساتھ پولیس افسر سے پیش آتی ہے۔ اس خاتون نے ڈی ایس پی کو دھکے دینے‘ ان کی چھڑی چھیننے کی کوشش کی۔ انہیں گالیاں دینے سے بھی احتراز نہ کیا۔ وائرل ہونے والی وڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پولیس افسر تحمل و بردباری سے کام لیتے رہے۔ خاتون کہہ رہی تھیں: تم جانتے نہیں میں کون ہوں؟ مجھے روکنے کا ابھی تمہیں مزہ چکھاتی ہوں۔ تمام ثقہ قومی اخبارات کی رپورٹنگ کے مطابق ڈی ایس پی صاحب نے اعلیٰ پولیس حکام کو اس واقعہ کی جو ایف آئی آر پیش کی ہے‘ اس کے مطابق اس میں خاتون کی گاڑی کا نمبر اور دیگر معلومات درج تھیں۔ پولیس افسر کی اس رپورٹ کے مطابق مذکورہ خاتون ڈرامے کا پہلا سین پیش کرنے کے بعد منظر سے غائب ہو گئیں۔ تھوڑی دیر کے بعد محترمہ دوبارہ وہاں پہنچیں‘ اس بار ان کے ساتھ ایک سرکاری افسر بھی تھا۔ ڈرامے کا کلائمیکس یہ ہے کہ اُس نے آتے ہی چیخنا چلانا شروع کر دیا۔ ڈی ایس پی کی ایف آئی آر کے مطابق کراچی کے تھانہ سول لائنز میں مقدمہ درج کر لیا گیا اور ایک اخباری رپورٹ کے مطابق گرفتاری بھی عمل میں آ چکی ہے۔
کسی ملک کے لوگوں کی عادات اور ان کا رویہ ایک ایسا آئینہ ہوتا ہے جس میں اس قوم کے اجتماعی تشخص کا سراپا دیکھا جا سکتا ہے۔ اس سراپے سے واضح ہو جاتا ہے کہ یہ قوم کتنی مہذب‘ کتنی قانون پسند‘ کتنی منصف مزاج اور کتنی ترقی یافتہ یا پسماندہ ہے۔ میں اکثر کہا کرتا ہوں کہ اگر کوئی غیرملکی مورخ‘ محقق یا سوشل سائنٹسٹ پاکستان کی تاریخ و سیاست اور اس کی معاشرتی و اجتماعی زندگی کے بارے میں تحقیق کے حوالے سے پاکستان آئے تو اسے زیادہ عرق ریزی کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ مثلاً ایک ریسرچ سکالر لاہور ایئر پورٹ پر اترتا ہے اور وہ مال روڈ سے ہوتا ہوا براستہ ہال روڈ اور گوالمنڈی‘ داتا دربار پہنچتا ہے پھر وہاں سے مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد کی سیاحت کے لیے اپنے میزبان کے ساتھ پیدل چل پڑتا ہے۔ مینارِ پاکستان اور بادشاہی مسجد کی سیاحت کے بعد وہ سستانے یا چائے پینے کے لیے وہاں کسی قریبی کیفے میں بیٹھ جاتا ہے۔ پھر تین چار گھنٹوں کے اس خاموش مشاہدے کے بعد اگر آپ اُس محقق سیاح سے پوچھیں گے کہ پاکستانی سوسائٹی کے بارے میں آپ کا پہلا تاثر کیا ہے؟ تو وہ فوراً مبنی برحقیقت تفصیلی تجزیہ پیش کر دے گا۔ تجزیے کے آئینے میں آپ کو ویسے ہی مناظر اور ویسے ہی رویے نظر آئیں گے جن کی چند جھلکیاں کالم کے آغاز میں ہم آپ کو دکھا چکے ہیں۔
اب ہم آپ کے سامنے دوسرا منظر پیش کرتے ہیں۔ یہ واشنگٹن ہے‘ دنیا کی سب سے بڑی طاقت امریکہ کا دارالحکومت۔ دوپہر کا وقت ہے‘ امریکی کلچر کے مطابق اُس وقت لوگ ہلکا پھلکا لنچ کرتے ہیں۔ کوئی سینڈوچ یا برگر وغیرہ کھا لیتے ہیں۔ ایک برگر شاپ کے سامنے قطار لگی ہے۔ اسی قطار میں دنیا کا امیر ترین آدمی بھی کھڑا ہے۔ یہ مائیکرو سافٹ کا مالک اور سب سے بڑا خیراتی ادارہ چلانے والا شخص بل گیٹس ہے۔ خلقِ خدا کو ان کی اوقات یاد دلانے کیلئے نہ اس کے ساتھ اسلحہ بردار گارڈز ہیں‘ نہ ہی بڑی بڑی گاڑیاں۔ یہ بندہ چاہے تو پوری برگر شاپ ہی نہیں‘ اس کی مکمل چین بھی خرید سکتا ہے۔ مگر وہ نہایت صبر و سکون کیساتھ اپنی باری کا انتظار کر رہا ہے اور برگر شاپ کا عملہ بھی بل گیٹس کے ساتھ ویسا ہی برتاؤ کر رہا ہے جیسا وہ ہر گاہک کیساتھ کرتا ہے۔ یہی وہاں کا دستور ہے‘ یہی وہاں کا کلچر ہے۔ ایسا ہی ہر قانون پسند جمہوری معاشرے میں ہوتا ہے۔
آئے روز کسی نہ کسی یورپی ملک کے وزیراعظم کی وڈیو نظر سے گزرتی ہے‘ ان وڈیوز میں سے ایک میں ہالینڈ کا وزیراعظم سائیکل پر دفتر آ رہا ہے کیونکہ وہاں کے عوام بھی آمد و رفت کے لیے یہی سواری استعمال کرتے ہیں۔ یورپ کو تو چھوڑیے‘ سنگاپور کی صدر حلیمہ یعقوب کا کوئی ''ایوانِ صدر‘‘ ہے نہ اس کا لاتعداد پروٹوکول گاڑیوں کا بیڑا ہے۔ وہ اپنے فلیٹ میں رہائش پذیر ہیں جس کے باہر صرف ایک سپاہی بیٹھا دکھائی دے گا۔
دنیا کو عاجزی‘ برابری‘ انصاف پسندی‘ قانون کی عملداری اور فرقِ من و تُو کو مٹانے کا درس اسلام اور فرزندانِ توحید نے دیا تھا۔ ان اوصافِ حمیدہ سے ہمارے خلفاء اور دیگر کئی مسلمان حکمران آراستہ تھے۔ حضرت عمرؓ بن خطاب دوسرے خلیفۂ راشد تھے۔ ان کے سنہری دور میں مسلمانوں کی عظیم فتوحات کی بنا پر اسلامی ریاست کی حدود 22لاکھ مربع میل تک پھیل گئی تھیں۔ انہی کے دور میں اس زمانے کی دوسپر طاقتوں‘ روم اور فارس کو مسلمانوں نے شکستِ فاش دی تھی۔ ہجرت کے پندرہویں سال حضرت عمرؓ بن خطاب نے حضرت ابو عبیدہؓ بن جراح کو کچھ اور صحابہ کرام ؓکے ساتھ بیت المقدس کی کنجیاں وصول کرنے کے لیے بھیجا۔ شہر کے حکمران پادری جعفر وینوس نے شہر کی کنجیاں ان کے حوالے کرنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگا کہ ہم نے اپنی مذہبی کتابوں میں بیت المقدس کی کنجیاں وصول کرنے والے شخص کے جو اوصاف پڑھے ہیں‘ وہ تم میں نظر نہیں آتے۔
یہ پیغام حضرت عمرؓ بن خطاب تک مدینہ منورہ میں پہنچایا گیا تو وہ اپنے غلام کے ہمراہ سفرِ فلسطین پر اس شان سے روانہ ہوئے کہ راستے میں باری باری کبھی خود سوار ہوتے اور کبھی غلام کو سواری کے جانور پر بٹھاتے اور کبھی دونوں پیدل چلنے لگتے تاکہ سواری کا جانور تھکاوٹ سے آرام پا لے۔ نہ کوئی قافلہ‘ نہ خدم و حشم‘ نہ پروٹوکول‘ صرف ایک سواری کا جانور اور دو مسافر۔ سفر کے آخری حصے میں جب کیچڑ سے لت پت سواری کی زمام تھامے ہوئے پیدل مقدس سرزمین کے حاکم کے دربار میں مسلمانوں کا خلیفہ اس حال میں پہنچا کہ غلام اپنی باری کے مطابق سوار تھا اور مسلمانوں کے خلیفہ کے کرتے میں سترہ پیوند لگے ہوئے تھے۔یہ دیکھتے ہی پادری حکمران پکار اٹھا: ہاں ہاں! ہماری کتابوں کے مطابق آپ میں وہی اوصافِ حمیدہ پائے جاتے ہیں جو ہم سے مقدس شہر کی کنجیاں وصول کرنے والے شخص کے حوالے سے بیان کیے گئے تھے۔عاجزی‘ برابری‘ انصاف پسندی اور دیانت داری کے وہ سارے اوصاف جو کبھی ہمارا طرۂ امتیاز سمجھے جاتے تھے‘ اب مغربی معاشرے میں منتقل ہو گئے ہیں اور ہم نے روم و فارس کے شہنشاہوں والے طور اطوار اختیار کر لیے ہیں۔
کراچی واقعہ میں ملوث خاتون اگر مجھ سے پوچھتیں کہ جانتے نہیں ہو کہ میں کون ہوں؟ تو میرا جواب ہوتا: جی محترمہ‘ میں جانتا ہوں کہ آپ کا تعلق ایک ایسی قوم سے ہے جس کا آپ سمیت ہر ہر فرد قرضوں کی زنجیروں میں جکڑا ہوا ہے۔ ہماری حالت فقیروں جیسی اور رویے شہنشاہوں جیسے ہیں۔ ڈیوٹی پر موجود کسی سرکاری اہلکار کے منہ پر تھپڑ ریاست کے منہ پر تھپڑ مارنے کے مترادف ہوتا ہے۔ خاتون اور اُس کے ساتھ آنے والے افسر کو اس حرکت کی سخت ترین سزا ملنی چاہیے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں