مادرِ علمی‘ ڈاکٹر امجد ثاقب اور اسحاق ڈار

جب کسی گھر میں اشیائے خورونوش ختم ہو چکی ہوں‘ ادویات لینے کیلئے پیسے نہ ہوں اور نہ بچوں کی سکول کی فیس کیلئے رقم موجود ہو۔ اہلِ خانہ کا بال بال قرض در قرض میں جکڑا ہو اور کوئی عزیز‘ رشتہ دار‘ محلہ دار یا کوئی دوست مزید قرض دینے کو تیار نہ ہو تو گھر والوں کو کتنی بے بسی محسوس ہوتی ہے۔ ایسی ہی بے بسی اس وقت اسلامی جمہوریہ پاکستان محسوس کر رہا ہے۔
دس روز تک پاکستان کی وزارتِ خزانہ اور آئی ایم ایف کے وفد کے درمیان مذاکرات جاری رہے۔ ہر گزرتے پل کے ساتھ آئی ایم ایف نئی سے نئی شرائط پیش کرتا رہا۔ حکومت 20سے 33فیصد تک بجلی کے نرخ بڑھانے پر رضامند ہوئی مگر اس سے بھی بات نہ بنی۔ حکومت جنرل سیلز ٹیکس بھی 17سے 18فیصد کرنے پر آمادہ ہو گئی ہے۔ وزارتِ خزانہ 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکسوں کیلئے بھی رضامند ہو گئی مگر آئی ایم ایف ھل من مزید‘ ھل من مزید پکارے جا رہا ہے۔ حکومت 300یونٹ بجلی استعمال کرنے والے غریب لوگوں کو کم قیمت پر بجلی دینا چاہتی ہے مگر اس پر یہ مالیاتی ادارہ معترض ہے اور وہ کسی کو کوئی چھوٹ دینے پر تیار نہیں۔
پاکستان کے آدھے سے زیادہ گھروں میں بے بسی کا وہی عالم ہے جس کا ہم اوپر تذکرہ کر آئے ہیں۔ نو کروڑ پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ دو وقت نہیں‘ ایک وقت کی روٹی بھی انہیں میسر نہیں۔ اڑھائی کروڑ بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ بے روزگاری روز افزوں ہے۔ اسی پس منظر میں یونیورسٹی آف سرگودھا کے ملک فیروز خان نون بزنس سکول نے یوتھ اور سوشل ویلفیئر کے موضوع پر ایک سیمینار کا اہتمام کیا۔ یونیورسٹی کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس اور بزنس سکول کے ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر غلام علی بھٹی نے اس سیمینار میں بطور مہمانِ خصوصی اخوت کے چیئرمین ڈاکٹر امجد ثاقب کو مدعو کیا۔ خدمتِ خلق کی طرف رہنمائی کے لیے ڈاکٹر امجد ثاقب سے بڑھ کر کوئی اور شخصیت موزوں نہیں۔ اس تقریب سے خطاب کرنے کے لیے فقیر کو بھی دعوت دی گئی جو میں نے بخوشی قبول کر لی‘ کیونکہ ''گھر کو جاتے رستے اچھے لگتے ہیں‘‘۔
سرگودھا میرا شہر اور یونیورسٹی آف سرگودھا میری مادرِ علمی ہے۔ جب میں یہاں طالب علم تھا تب یہ ابھی کالج تھا مگر جب میں دو اڑھائی دہائیوں کی جہاں گردی کے بعد پاکستان لوٹا تو پھر برضا و رغبت اسلام آباد کی ایک بڑی یونیورسٹی چھوڑ کر 2010ء میں یونیورسٹی آف سرگودھا گیا۔ تب یہاں پروفیسر ڈاکٹر محمد اکرم چودھری وائس چانسلر تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے آٹھ برس تک جن خطوط پر یونیورسٹی کے ہمہ جہت ترقیاتی سفر کا آغاز کیا تھا‘ اب پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس اسے ایک نئے ویژن اور ولولے کے ساتھ ترقی کی نئی منازل سے روشناس کروا رہے ہیں۔میں نے طلبہ و طالبات کو بتایا کہ سرگودھا سے تعلق رکھنے والے ملک فیروز خان نون 16دسمبر 1957ء سے لے کر 7 ستمبر 1958ء تک وزیراعظم رہے۔ ان دس ماہ میں ملک صاحب نے کمال وژن کا ثبوت دیا۔ آج جس گوادر اور سی پیک کا شب و روز ہم تذکرہ کرتے نہیں تھکتے‘ وہ گوادر 1958ء سے پہلے پاکستان کا نہیں‘ سلطنتِ عمان کا حصہ تھا۔ ملک صاحب نے اَنتھک ہوم ورک کرکے صرف تین ملین ڈالرز کے عوض عمان سے خرید کر پاکستان کا حصہ بنا دیا تھا۔ یونیورسٹی آف سرگودھا کا ہال نوجوان سکالرز سے کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ میں نے ان سکالرز کے سامنے ویلفیئر اور سوشل ویلفیئر سٹیٹ کا فرق واضح کیا۔ میں نے بتایا کہ سکینڈے نیویا کے ممالک اور کینیڈا اور نیوزی لینڈ وغیرہ فلاحی ریاستیں ہیں۔ یہاں کے شہریوں کے لیے روزگار‘ تعلیم‘ علاج معالجہ اور روزگار نہ ہونے کی صورت میں بیروزگاری الاؤنس ان حکومتوں کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ یہ حکومتیں امیر شہریوں سے بھاری ٹیکس وصول کرتی اور غریب شہریوں پر خرچ کرتی ہیں۔ سوشل ویلفیئر خدمت خلق کا نام ہے۔ یہ کام اہلِ خیر اور فلاحی ادارے اپنی مدد آپ کے تحت انجام دیتے ہیں اور سوسائٹی کے ضرورت مندوں اور محتاجوں کے لیے مالی امداد‘ طبی سہولتیں‘ تعلیم اور ہنر مندی کے اداروں کا اہتمام کرتے ہیں۔
میں نے طلبہ و طالبات سے عرض کیا کہ یقینا آج کے پُرآشوب دور میں اپنے لیے جینا بھی ایک کمال ہے مگر اصل کمال دوسروں کے لیے جینا ہے۔ میں نے ینگ سکالرز کو بتایا کہ جب کسی کام کا کوئی ماڈل موجود ہو تو پھر اس کی انجام دہی آسان ہوتی ہے اور اگر اس کارِ عظیم کے لیے کوئی رول ماڈل ہو تو پھر یہ کام آسان تر ہو جاتا ہے۔ نوجوانوں سے عرض کیا کہ ڈاکٹر امجد ثاقب پاکستانی نقطۂ نظر سے سی ایس پی افسر تھے مگر خدمتِ خلق کے لیے انہوں نے اپنے شاندار کیریئر کو خیر باد کہا۔ ڈاکٹر صاحب نے دس ہزار روپے کے عطیے سے بے وسیلہ لوگوں کو وسیلۂ روزگار مہیا کرنے کے لیے 20 برس قبل خدمتِ خلق کا کام شروع کیا تھا۔ اس وقت تک ڈاکٹر صاحب اہلِ خیر کے عطیات سے 85 ارب روپے بانٹ چکے ہیں۔ بلاسود چھوٹے قرض حسنہ کی اس سکیم سے 55 لاکھ گھرانے فیض یاب اور اپنے پیروں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ انہی خدمات کو دیکھ کر نوبیل پیس پرائز کمیٹی نے ڈاکٹر امجد ثاقب کا نام نوبیل پرائز کے لیے نامزد کیا ہے۔ میں نے ڈاکٹر صاحب سے عرض کیا کہ اس وقت ملکی معیشت جاں کنی کے عالم میں ہے۔ آئی ایم ایف و دیگر مالیاتی ادارے ہمیں مزید قرض دینے پر آمادہ نہیں۔ قوم آپ پر بھرپور اعتماد کرتی ہے‘ آپ دیگر فلاحی اداروں کے ہمراہ اوورسیز پاکستانیوں سے اپیل کریں گے تو وہ آپ کی پکار پر لبیک کہتے ہوئے دل کھول کر ڈالر پیش کریں گے۔ڈاکٹر امجد ثاقب کے خطاب کے دوران طلبہ و طالبات ہمہ تن گوش تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں کو بتایا کہ جب انہوں نے پنجاب کے دیہی علاقوں میں اپنی ملازمت کے دوران دیکھا کہ لوگ بہت مفلوک الحال اور ان کے بچے زیورِ تعلیم سے محروم ہیں تو وہ تڑپ اٹھے۔ انہوں نے کہا کہ اس کشمکش میں اُن کی کئی راتیں گزریں کہ خدمتِ خلق کے لیے ان کی تڑپ سچی ہے یا وقتی و جذباتی۔ جب انہیں حق الیقین ہو گیا کہ یہ تڑپ مبنی بر اخلاص و صداقت ہے تب وہ اعلیٰ ملازمت سے مستعفی ہو گئے اور انہوں نے اپنے ''شاندار‘‘ کیریئر کو خیرباد کہہ دیا۔ ڈاکٹر صاحب نے نوجوانوں کو بتایا کہ فی الواقع خدمتِ خلق میں ایک ایسی لذت ہے جو کسی شاندار سے شاندار کیریئر میں نہیں۔ انہوں نے نوجوانوں کو بتایا کہ آپ اپنے اندر خدمتِ خلق کے لیے سچی لگن پیدا کریں اور اپنے زمانۂ طالب علمی میں کسی ایک بچے کو جہالت کی تاریکیوں سے نکال کر علم و عرفان کی وادیٔ پُرنور میں لانے کا کارخیر انجام دیں۔
یونیورسٹی آف سرگودھا کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر قیصر عباس نے بتایا کہ اس یونیورسٹی کے مرکزی کیمپس میں 20ہزار جبکہ اس کے ساتھ منسلک کالجوں میں 30ہزار طلبہ و طالبات اعلیٰ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ انہوں نے ڈاکٹر امجد ثاقب صاحب کو بتایا کہ ہم کوشش کر رہے ہیں کہ ترقی یافتہ دنیا کی یونیورسٹیوں کی طرح ہماری یونیورسٹی کے پروفیسروں اور طلبہ و طالبات کو پروجیکٹ چلانے کی اجازت ہونی چاہیے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ مستقبل میں ہماری یونیورسٹی پاکستان کی دیگر جامعات کے لیے ایک رول ماڈل ہوگی۔ خدمتِ خلق کے حوالے سے نون بزنس سکول کے اس شاندار سیمینار کو کامیاب کرانے میں بزنس سکول کے ڈائریکٹر ڈاکٹر غلام علی بھٹی اور ان کی ٹیم مبارکباد کی مستحق ہے۔ ہم وزیر خزانہ جناب اسحق ڈار سے عرض کریں گے کہ ضرورت کے وقت اوورسیز پاکستانی اور دیگر اہلِ خیر دل کھول کر ڈالرز دیں گے بشرطیکہ ان ڈالروں کا انتظام و انصرام ڈاکٹر امجد ثاقب جیسی شخصیات کے سپرد کیا جائے جن کی امانت و دیانت پر لوگوں کو سو فیصد یقین ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں