گرفتاری

میں اڑھائی تین ہفتے علیل رہا۔ اس دوران مین سٹریم اور سوشل میڈیا دونوں سے تقریباً لاتعلق رہا۔ کبھی کبھی 9بجے شب کے خبرنامے پر ایک نظر پڑ جاتی تھی۔ زمانۂ بیماری کے دوران میں سوچتا رہا کہ جب میں صحت یاب ہو جاؤں گا تو اُس وقت تک شاید ملکی حالات بدل چکے ہوں گے۔ لوگ ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں بلکہ مہر و مروت کی تصویریں بن چکے ہوں گے مگر جب میں روبصحت ہوا تو مجھے یہ دیکھ کر بہت افسوس ہوا کہ ملکی حالات جوں کے توں بلکہ پہلے سے کہیں بڑھ کر دگرگوں ہیں۔
علالت کے دوران میں نے ایک دلچسپ خواب دیکھا کہ ایک مفاہمتی اجلاس کی صدرِ پاکستان جناب عارف علوی صدارت فرما رہے ہیں‘ ان کے دائیں طرف وزیراعظم شہباز شریف‘ آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمن اور بائیں طرف عمران خان‘ شاہ محمود قریشی اور پرویز خٹک تشریف فرما ہیں۔ اجلاس کی کارروائی کے آغاز سے پہلے ہی میری آنکھ کھل گئی۔ اور یوں میرے سارے خواب بکھر گئے۔ رواں ہفتے دو تین روز تک لاہور کے زمان پارک میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر پولیس اور رینجرز موجود رہی۔ ان کے پاس عمران خان کی گرفتاری کے وارنٹ موجود تھے۔ خان صاحب اپنے خلاف چلنے والے کیسوں میں عدالتوں میں پیش ہونے سے کتراتے رہے جس پر عدالت کو اُن کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنا پڑے۔
عدالتی وارنٹ گرفتاری کے مقابلے میں کوئی شہری چاہے کتنا ہی طاقتور یا پاپولر کیوں نہ ہو‘ وہ کب تک ریاست کے سامنے ڈٹ سکتا ہے‘ بالآخر اسے سرنڈر کرنا ہی پڑتا ہے۔ عدالتوں میں مستقلاً عدم حاضری کی پالیسی کو کوئی کب تک مینج کر سکتا ہے۔ بالآخر اسے حاضر ہونا ہی پڑتا ہے۔ خان صاحب قانون کی نظر میں سب کے برابر ہونے کی تلقین کرتے رہتے ہیں مگر جب ان کی باری آئی تو انہوں نے اسے پرِکاہ کی اہمیت بھی نہیں دی۔ خان صاحب کے اس روّیے کا اصل محرک کیا ہے؟ ہمارے نزدیک تو اس کا محرک یہی ہو سکتا ہے کہ ان کیلئے الگ قانون ہے اور اوروں کے لیے الگ۔ اگر ہر ملزم گرفتاری کے وارنٹ کی تعمیل کروانے کے لیے آنے والی پولیس کے ساتھ وہی برتاؤ کرے جو خان صاحب کے حامیوں کی طرف سے اسلام آباد اور لاہور پولیس کے ساتھ ہوا تو پھر گلی گلی اورقریہ قریہ پولیس اور شہریوں کے درمیان میدانِ جنگ بن جائے گا۔
جناب عمران خان کا طرزِ عمل دلچسپ ہے۔ ایک طرف وہ قانون کی بالادستی‘ آئین کی سربلندی اور رُول آف لاء کی عملداری کی تلقین کرتے ہیں اور دوسری طرف اسی قانون و آئین کو خود پر لاگو نہیں کرتے۔ میں نے ایک ایسے ماحول میں آنکھ کھولی کہ جہاں بچپن سے ہی گرفتاری اور قیدو بند کی آوازیں میرے کانوں سے ٹکرائیں۔ میرے والد گرامی مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کی بھیرہ اور میانوالی سے گرفتاریاں ہمارے بچپن میں ہوئیں۔ والد صاحب کی پہلی گرفتاری 1953ء میں تحریک ختم نبوت کے سلسلے میں ہوئی۔ انہیں گرفتار کرکے لاہور کے شاہی قلعہ میں رکھا گیا اور 1964ء میں ایوب خاں دور میں ان کی گرفتاری ہمارے لڑکپن کا واقعہ ہے۔ تاہم گھر میں آنے والے اخبارات اور ہماری والدہ کے حسنِ تربیت سے ہمیں معلوم تھا کہ ہمارے والد صاحب کی قید سر جھکانے والی نہیں‘ سر اُٹھا کے چلنے والی ہے۔ مولانا گلزار احمد مظاہریؒ کو جماعت اسلامی کے دوسرے قائدین کے مقابلے میں غالباً سب سے زیادہ جیل کی کال کو ٹھڑیوں اور زندانوں کی بلند و بالا فصیلوں کے پیچھے جانا پڑا۔ اس کا سبب یہ تھا کہ اکثر والد صاحب کی ''باجماعت نظر بندی‘‘ ہوتی اس کے علاوہ آئے روز انہیں اپنی باغیانہ حق گوئی کی پاداش میں بھی قید خانوں کو آباد کرنا پڑتا۔ مجھے اپنی پچاس سالہ شعوری زندگی میں ایک واقعہ بھی یاد نہیں جب کسی بھی دینی قائد یا سیاسی لیڈر نے گرفتاری میں رکاوٹ ڈالنے یا مزاحمت کرنے کی کوشش کی ہو۔ جب پولیس والے مولانا مودودیؒ کو گرفتار کرنے آتے تو وہ ان کی چائے و لوازمات سے تواضع کرتے اور اجازت لے کر اندر جا کر اچھی طرح تیار ہوتے‘ باقاعدہ چست پاجامہ اور شیروانی زیب تن کرتے‘ اپنی ضرورت کا مختصر سا سامان اور ادویات وغیرہ لے لیتے اور پولیس کیساتھ چل دیتے۔
میں نے برصغیر کی تا ریخ پر نظر ڈالی تو مجھے سو ڈیڑھ سو سال کی تاریخ میں مزاحمت کا صرف ایک واقعہ ملا۔ وہ ایک عظیم الشان تحریک تھی۔ اس تحریک کے بانی صدر علامہ مشرقی بہت بڑے عبقری تھے۔ 20ویں صدی کے اوائل میں انہوں نے کیمبرج یونیورسٹی کے یکے بعد دیگرے کئی امتحانات آٹھ سو سالہ ریکارڈ توڑ تے ہوئے پاس کیے مگر دوسری طرف علامہ مشرقی بالکل بے لچک شخصیت تھے۔ افہام و تفہیم‘ گفت و شنید‘ عدل و انصاف کے ادارے اور اپنی پالیسی پر نظرثانی کے الفاظ ان کی ڈکشنری سے خارج تھے۔
19مارچ 1940ء کو اُس وقت کی انگریز حکومت نے عسکری انداز کی تنظیموں کو خلافِ قانون قرار دیا اور فوجی وردیوں جیسی یونیفارم پر پابندی عائد کر دی اور اُس روز خاکسار کی لاہور میں نکالی جانے والی ریلی بین کر دی۔ علامہ مشرقی اپنے تربیت یافتہ نوجوانوں اور اپنی ڈسپلن کی پابند خاکسار تنظیم کو محفوظ رکھنے کے بجائے ریاست کے سامنے ڈٹ کر کھڑے ہو گئے۔ علامہ صاحب کے پاس گرفتاری دینے اور عدالت جانے کے دو آپشن تھے مگر انہوں نے کوئی لچک نہ دکھائی اور ڈٹ گئے۔ انگریز ایس پی نے تڑا تڑ گولیاں چلانے کا حکم دیا۔ آنِ واحد میں بیسیوں کڑیل جوانوں کے لاشے تڑپنے لگے۔ شہید ہونے والوں کا تخمینہ 50سے 300تک کا لگایا گیا ہے۔ اس تصادم کے بعد خاکسار تحریک کی کمر ٹوٹ گئی مگر علامہ مشرقی کی اَنا کی تسکین ہو گئی۔
جمعرات 16مارچ 2023ء تک عمران خان نے قانون کے سامنے سرنڈر نہیں کیا۔ وہ کبھی لاہور ہائی کورٹ کی طرف دیکھتے رہے تو کبھی اسلام آباد ہائی کورٹ کو پکارتے رہے اور کبھی حکومت کو للکارتے رہے۔ اس دوران خان صاحب کہتے رہے کہ میرے پاس 18مارچ تک کی حفاظتی ضمانت ہے جبکہ صورتحال اس کے برعکس تھی۔ اگر ان کے پاس یہ ضمانت تھی تو پھر جھگڑا کیا تھا۔ اب گزشتہ روز چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی اسلام آباد اور لاہور میں درج 9مقدمات میں حفاظتی ضمانت منظور کر لی گئی۔ چیئرمین تحریک انصاف اپنے خلاف درج 9مقدمات میں حفاظتی ضمانت کے لیے خود لاہور ہائی کورٹ گئے تھے‘ اگر وہ پہلے ہی عدالتوں کا رُخ کر لیتے تو حالات اتنی سنگین صورت اختیار نہ کرتے۔
عدالت بڑی ہو یا چھوٹی‘ اس کا احترام فرض ہے۔ یہ کیسا عجیب تضاد ہے کہ ایک طرف خان صاحب فرماتے ہیں کہ 90روز کے اندر اندر انتخاب کرانا لازمی ہے‘ یہی سپریم کورٹ کا بھی حکم ہے۔ دوسری طرف خان صاحب توشہ خانہ سمیت اپنے خلاف درج دیگر مقدمات میں پیش ہونے سے احتراز برتتے رہے۔ آخر کار عدالت کو عدم حاضری پر خان صاحب کے ناقابلِ ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری کرنا پڑے مگر خان صاحب نے اس حکم کو بھی ماننے سے انکار کر دیا اور ان کے حامی پولیس سے گتھم گتھا رہے۔اس دوران ایک بردبار‘ سمجھدار اور دانا خاتون ہونے کے ناتے ڈاکٹر یاسمین راشد کبھی صدرِ پاکستان عارف علوی اور کبھی اعجاز شاہ صاحب سے نہایت عاجزی کے ساتھ درخواست کرتی ر ہیں کہ خان صاحب سے کہیں کہ یہ سب روکیں‘ مگر خان صاحب کے دل میں نہ جانے کیا تھا کہ وہ کسی کی بات سننے پر آمادہ نہ ہوئے اور نہ ہی کسی فریاد پر کان دھرنے کو تیار۔ ایسی ضد کا کیا نتیجہ نکلتا؟ اسے جاننے کے لیے زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں۔ 1977ء کے حالات پر ایک نظر ڈال لیجئے۔قارئین کرام! ہماری دعا ہے کہ لاہور سمیت پاکستان کا چپہ چپہ امن و سلامتی کا گہوارہ ہو۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں