قومی مفاہمت کا راستہ

پنجاب اور خیبر پختونخوا میں انتخابات کی تاریخ کا معاملہ شدت اختیار کرتا چلا جا رہا ہے۔ ایک بحران سے مزید کئی بحران جنم لے رہے ہیں۔ ملک کے اندر کیا امیر کیا غریب‘ کیا صنعت کار کیا مزدور‘ کیا تاجر اور کیا خریدار ہر کوئی پریشان ہے۔ اوورسیز پاکستانی وطنِ عزیز کا حالِ زار دیکھ کر سخت رنجیدۂ خاطر ہیں۔ بیرونِ ملک ہمارے سفارت کاروں کی افسردگی اور پریشانی بھی عروج پر ہے۔ ان کی سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ سیاسی افراتفری کا کیسے دفاع کریں۔
ہمارے حکمرانوں اور سیاست دانوں نے اسلامی دنیا کی پہلی ایٹمی قوت کا جو حلیہ بنا رکھا ہے اس پر ہر صاحبِ درد پاکستانی خون کے آنسو بہا رہا ہے۔ معیشت تباہ حال ہے۔ تازہ ترین خبروں کے مطابق مہنگائی کا پچاس سالہ ریکارڈ ٹوٹ گیا ہے۔ مہنگائی کی شرح 35.4 فیصد کی سطح پر پہنچ چکی ہے۔ غریبوں کو دس کلو آٹے کا تھیلا لینے کے لیے اپنی جان گنوانا پڑتی ہے۔ کراچی میں ایک فیکٹری میں زکوٰۃ کی تقسیم کے دوران بھگدڑ مچی اور آٹھ خواتین اور چار بچے لقمۂ اجل بن گئے۔ دنیا کو یہ تاثر جا رہا ہے کہ ہم تذلیلِ آدمیت کیے بغیر کارِخیر بھی انجام نہیں دے سکتے۔
بحران کی شدت کا اس سے اندازہ کیجئے کہ الیکشن کی تاریخ دینے کے از خود نوٹس پر عدالت عظمیٰ میں اختلاف دیکھنے میں آ رہا ہے۔نو ججز سے جو بینچ شروع ہوا تھا اس وقت تینججوں تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ اس وقت سپریم کورٹ کا اندرونی منظر نامہ بھی خاصا ''جذباتی‘‘ ہے۔بقول مرزا اسد اللہ غالبؔ:
ہوئی جن سے توقع خستگی کی داد پانے کی
وہ ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغ ستم نکلے
اسی مقدمے کی سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال ایک موقع پر عدلیہ کے معاملات پر ملک میں جاری تنقید پر اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے اور گلوگیر لہجے میں بولے ''میرا بھی دل اور جذبات ہیں۔ ہم تنقید کا جواب بھی نہیں دے سکتے۔ ایک جج کو سزا دینے کے بارے میں کہا جا رہا ہے۔ کیا ساتھی جج کو ذبح کر دوں۔ آج تک جو کچھ کیا ہے پوری ایمانداری کے ساتھ اللہ کو حاضر ناظر جان کر آئین اور قانون کے مطابق کیا ہے‘‘۔ البتہ سپریم کورٹ کو یہ نکتہ ضرور زیر بحث لانا چاہیے کہ ہائی کورٹ میں کوئی مقدمہ زیر بحث ہو تو اس پر از خود نوٹس لیا جا سکتا ہے؟
سوموار کی سماعت کے بعد انتخابات التوا کیس کا فیصلہ محفوظ کر لیا گیا جو آج (منگل کو) سنایا جائے گا۔ معلوم نہیں کہ جب آپ یہ سطور پڑھیں گے‘ اس وقت تک اس مقدمے کا اونٹ کس کروٹ بیٹھ چکا ہو ۔ البتہ اس وقت ملکی منظر نامہ یہ ہے کہ سیاسی بحران پیچھے رہ گیا ہے اور آئینی بحران نے ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ سیاسی اور آئینی بحران کے حل کے لیے بظاہر کوئی ادارہ بچا ہے اور نہ ہی کوئی ایسی شخصیت دور دور تک دکھائی دیتی ہے جو متحارب سیاسی قوتوں کو مذاکرات کی میز پر آمنے سامنے بیٹھا سکے اور کوئی درمیانی راہ نکال سکے۔ اس وقت تمام سیاست دانوں کو‘ چاہے وہ حکومت میں ہوں یا اپوزیشن میں‘ فی الفور پندار کا صنم کدہ ویران کرنے کی ضرورت کا احساس ہونا چاہیے۔ اناؤں کا ٹکراؤ تعمیرکی طرف نہیں تخریب کی طرف لے جاتا ہے۔ اپنی تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں پچھتاوے ہی پچھتاوے نظر آتے ہیں۔ ہماری شکست و ریخت تیزی سے بڑھتی جا رہی ہے‘ ہمیں شعوری طور پر اس عمل کو روکنا چاہیے کیونکہ ہماری معاشی و سیاسی زندگی میں مزید کسی پچھتاوے کی گنجائش نہیں۔
قرآن مجید میں بھلے آدمی کے لیے رجلِ رشید کی اصطلاح استعمال کی گئی ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں نوابزادہ نصراللہ خان ایک ایسے ہی رجلِ رشید تھے کہ بحرانوں میں متحارب سیاسی شخصیات کو مذاکرات کی میز پر یکجا ہونے پر آمادہ کر لیتے تھے۔ بحالیٔ جمہوریت اُن کی پہچان تھی۔ نوابزادہ نصراللہ خان نے ایوب خان کے خلاف سیاسی اتحاد بنانے کا جو کام شروع کیا‘ وہی کام ان کی شخصیت کا لازمی جزو بن گیا۔ عوام کی طرف سے انہیں بابائے جمہوریت کا لقب عطا کیا گیا۔ اس وقت بظاہر کوئی ایسی شخصیت منظرِ عام پر نہیں۔ جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق بھلے آدمی ہیں‘ تمام جماعتوں بلکہ عدالتوں میں بھی اُن کا احترام کیا جاتا ہے۔ ہماری تجویز یہ ہے کہ جناب سراج الحق فوری طور پر تمام سیاسی جماعتوں پر تنقید بند فرمائیں۔ وہ اپنے زیر قیادت جماعت اسلامی کے موجودہ ممبران پارلیمنٹ جناب عبدالاکبر چترالی اور سینیٹر مشتاق احمد اور سابق ایم این ایز جناب لیاقت بلوچ‘ پروفیسر ابراہیم اور ڈاکٹر فرید احمد پراچہ پر مشتمل کمیٹی قائم کرکے پی ڈی ایم اور پی ٹی آئی کی قیادت سے رابطہ کر کے آل پارٹیز کانفرنس کا اہتمام کریں۔ وقت نہایت تیزی سے گزر رہا ہے‘ اس وقت اگر آگے بڑھ کر مصالحتی کردار ادا نہ کیا گیا تو جمہوریت کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچنے کا قوی اندیشہ ہے۔
اس میں شک نہیں کہ آئین کا تقاضا یہی ہے کہ نوے دنوں کے اندر اندر ٹوٹنے والی اسمبلیوں کے انتخابات کرائے جائیں؛ تاہم اگر یہ انتخابات ہو جاتے ہیں تو اس سے ایک ایسی غیر معمولی صورتحال پیدا ہونے کا خدشہ ہے جس سے ہمارا سیاسی نظام درہم برہم ہونے کا خطرہ ہے۔ اس دوران کہیں سے یہ صدائیں بھی سننے میں آ رہی ہیں کہ ٹوٹنے والی اسمبلیاں بحال کر دی جائیں تاکہ قومی اور صوبائی اسمبلیاں اپنی اپنی مدت پوری کرلیں اور بیک وقت اگست کے بعد تمام اسمبلیوں کے انتخابات کرا دیے جائیں پھر جو جیت جائے وہ شاندار جمہوری روایات کے مطابق حکومت کرے اور اس ملک کے بنیادی مسائل کی طرف توجہ دے۔
کتنے افسوس کی بات ہے کہ پاکستان ایک زرعی ملک ہے مگر آج ہم گندم بھی باہر سے منگواتے ہیں‘ چینی بھی باہر سے درآمد کرتے ہیں خوردنی تیل اور دالیں بھی امپورٹ کرتے ہیں۔ ہماری فی ایکڑ پیداوار دوسرے ممالک کی نسبت کم ہے۔ ہمارا پڑوسی ملک بھارت اربوں ڈالر آئی ٹی انڈسٹری سے کما رہا ہے اور ہم اس معاملے میں ابھی طفلِ مکتب ہیں۔ ہم اس بحث میں نہیں جاتے کہ ذمہ دار کون ہے؟ مگر یہ حقیقت اظہر من الشمس ہے کہ گزشتہ پانچ‘ چھ برس میں ہم آسمان سے زمین پر آن گرے ہیں۔ پانچ برس قبل آج کے مقابلے میں مہنگائی سات گنا کم تھی‘ ڈالر تب 120روپے کا تھا جبکہ آج ایک ڈالر کی قیمت 284روپے ہے۔ پانچ برس قبل ہماری سوسائٹی میں سیاسی اختلاف ضرور تھا مگر انتقام کی سیاست نہ تھی۔ سیاسی اختلاف ذاتی رنجش میں نہ بدلا تھا۔ پانچ برس قبل ہماری سرحدوں پر اور ملک کے اندر بڑی حد تک امن و امن قائم تھا۔ سماجی طور پر بھی گزشتہ آٹھ دس برس کے دوران ہم نے ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالنے کے کاروبار کو نقطۂ عروج پر پہنچا دیا ہے۔ اس دوران نژادِ نو بزرگوں کا احترام کرنے کے بجائے کسی کے بارے میں بغیر تحقیق کے کیچڑ اچھالنے کو اپنا محبوب مشغلہ بنا چکی ہے۔ ہمارے ہاں ریاست کے کچھ ایسے ستون تھے کہ جن کا ہرحال میں بے پناہ احترام کیا جاتا تھا۔ ہم نے نوجوانوں کو اتنا بے باک کر دیا ہے کہ وہ کسی بھی شخصیت یا ادارے کے بارے میں سوشل میڈیا پر کچھ بھی کہہ دیتے ہیں۔
قرآن پاک میں واضح ہدایت ہے کہ اے ایمان والو! جب تمہارے پاس کوئی خبر آئے تو تحقیق کر لیا کرو مگر سوسائٹی میں چیک اینڈ بیلنس کا اخلاقی معیار اتنا پست ہو چکا ہے کہ کوئی تحقیق یا ثبوت کی ضرورت ہی محسوس نہیں کرتا۔ پہلے افواہ اڑائی جاتی ہے پھر معزز سے معزز شخصیت یا ادارے پر الزامات کی بوچھاڑ کر دی جاتی ہے۔ سوسائٹی کے تمام شعبوں کی تعمیر نو کی شدید ضرورت ہے۔
ہماری دعا ہے کہ جو فیصلہ آئے وہ خیر کی خبر لائے۔ اللہ کرے گمبھیر سیاسی‘ آئینی اور عدالتی مسائل سے قومی مفاہمت کا کوئی راستہ نکل آئے۔ بصورت دیگر منافرت اور بڑھے گی اور سیاسی منظر نامہ مزید خرابی کی طرف جائے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں