عید کی خوشیوں کے مختلف رنگ

مجھے نہیں معلوم کہ یہ کالم آپ کی ضیافتِ طبع کے لیے عین عید کے روزِ سعید آپ کی خدمت میں پیش ہوگا یا عید کے ا گلے روز۔ رسول اللہﷺ اور خلفائے راشدہ کے زمانوں میں نماز کے اوقات کا تعین طلوعِ فجر اور غروبِ شمس اور ستاروں کی پوزیشن کو دیکھ کر کیا جاتا تھا۔ اسی طرح رمضان المبارک کی ابتدا اور انتہا کا فیصلہ رویتِ ہلال پر چھوڑ دیا جاتا تھا۔ اب ساری دنیا میں نمازوں کے اوقات کا تعین گھڑیوں اور طلوع و غروبِ آفتاب کے سائنسی طور پر طے شدہ اوقات کے حساب سے کیا جاتا ہے۔ دنیا میں ہر ماہ رویتِ ہلال کا تعین جدید نظام فلکیات کے آلات اور دیگر سائنسی معلومات سے کر لیا جاتا ہے۔ دنیا کے کئی اسلامی ممالک اور دیگر ترقی یافتہ ممالک میں آباد مسلمانوں نے نمازوں کے اوقات کی طرح رویتِ ہلال کا تعین بھی علم الافلاک اور دیگر سائنسی معلومات سے کرنا شروع کر دیا ہے مگر ہم ابھی تک آئینِ نو اپنانے سے ہچکچا رہے ہیں۔
دیگر معلومات میں بھی ہمارے انداز ساری دنیا سے نرالے ہیں۔ ہم نے انہی کالموں میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ سیاستدان اور حکمران کم از کم رمضان المبارک کے آخری عشرے اور عید کے چار پانچ ایام کیلئے سیز فائر کر لیں۔ ان ایّام میں نہ تو حکومتی اتحاد اپوزیشن کے اراکین کی پکڑ دھکڑ کرے اور نہ ہی اپوزیشن حکومت پر چاند ماری کرے مگر نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے‘ لہٰذا اب حزبِ اقتدار اور حزبِ اختلاف میں اتفاق پیدا کرنے کیلئے سپریم کورٹ نے عید نہ ہونے کی صورت میں جمعۃ المبارک کو عید کی پہلی چھٹی کے روز بھی عدالت لگانے کا کہا تھا۔ دنیا کے اکثر اسلامی ممالک میں رمضان المبارک کے آخری عشرے میں خصوصی عبادات اور عید کی تیاری کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ دنیا میں عیدالفطر کا اپنا رنگ اور اپنی رونق ہے۔ بات عرب ممالک کی کریں یا غیر عرب اسلامی ممالک کا ذکر کریں‘ ہر جگہ عید کے تہوار کو بے پناہ مسرت و شادمانی کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ اسی طرح مسلمان غیر مسلم ممالک میں جہاں جہاں آباد ہیں یا جن ملکوں میں وہ تارکینِ وطن کے طور پر سکونت پذیر ہیں وہاں وہ رمضان کی عبادات اور عیدالفطر کی خوشیوں کو دوبالا کرنے کیلئے خصوصی انتظام کرتے ہیں۔ مختلف ممالک میں دلچسپ روایات ہیں۔ ترکی میں عید کے موقع پر بزرگوں کے دائیں ہاتھ کو بوسہ دینے کی روایت ہے۔ انڈونیشیا میں عید کے موقع پر بزرگوں کی خدمت میں حاضری دے کر اُن سے اپنی کوتاہیوں یا غلطیوں کی معافی طلب کی جاتی ہے۔ ملائیشیامیں تو گھروں کے دروازے کھلے رکھے جاتے ہیں تاکہ پڑوسی اور عزیز و اقارب کو اندازہ ہو کہ گھر کے ہی نہیں‘ اس کے مکینوں کے دلوں کے در بھی وا ہیں۔
سعودی عرب مرکزِ اسلام ہے۔ یہیں سے بات شروع کرتے ہیں۔ ہمیں سعودی عرب میں اپنے طویل قیام کے دوران سعودیوں کی رمضان اور عید کی مصروفیات و روایات کو قریب سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ سعودی عرب میں رمضان المبارک میں نماز و تراویح کے خصوصی انتظامات کے ساتھ ساتھ ایک فیسٹیویل کا سا سماں ہوتا ہے۔ رمضان المبارک میں خاندانوں کی ایک دوسرے کے ہاں افطاریوں کے موقع پر مہمان خواتین بھی گھر سے کوئی نہ کوئی میٹھی ڈش بنا کر لاتی ہیں۔ کھانے سے فارغ ہونے کے بعد مرد حضرات بیٹھک میں گپ شپ کرتے ہیں جبکہ مہمان خواتین میزبان گھر کی عورتوں کے ساتھ برتن دھلاتی اور گھر کی صفائی میں مدد کرتی ہیں۔
جہاں تک بادیہ کا تعلق ہے وہاں رمضان کی راتوں میں ایک مرکزی جگہ پر اشیائے خورو نوش وافر مقدار میں موجود ہوتی ہیں۔ ہر کوئی گھر سے کچھ نہ کچھ لاتا ہے۔ آگ جل رہی ہوتی ہے۔ چائے قہوہ بن رہا ہوتا ہے۔ یہ اہتمام مردوں کیلئے ہوتا ہے جبکہ خواتین بھی دیہات کے مختلف گھروں میں عبادات سے فارغ ہو کر چائے کے جرعوں کے ساتھ گپ شپ کرتی ہیں۔ سعودی شہر ہوں یا دیہات‘ رمضان المبارک میں شب کو دن کا سماں ہوتا ہے۔ دفاتر و مدارس بالعموم دس بجے صبح کھلتے ہیں۔ عید کی نماز علی الصباح ادا کی جاتی ہے۔ شہروں میں تو لوگ نماز کے بعد آرام کرتے ہیں البتہ دیہات میں میل ملاقات اور اونٹوں کی ریس اور تلواروں کے ساتھ رقص کیا جاتا ہے۔ شہروں میں مغرب کے بعد گھروں میں عید مبارک کیلئے آمد و رفت شروع ہو جاتی ہے۔ عید کے موقع پر سعودی لوگ پلاؤ وغیرہ کے ساتھ ساتھ اپنے روایتی کھجوروں کے پکوان‘ شوربے میں ڈبوئی روٹی‘ شہد‘ اونٹنی کا دودھ اور روغنِ زیتون میں بھنا ہوا گوشت وغیرہ بھی استعمال کرتے ہیں۔
ترکی میں بھی رمضان المبارک کی عبادات کیلئے مساجد کی تزئین و آرائش کی جاتی ہے۔ عید کے روز بچے عزیزوں رشتہ داروں کے گھر عید مبارک کہنے جاتے ہیں جہاں انہیں چاکلیٹس اور نقدی عیدی دی جاتی ہے۔مصر میں عید کا تہوار تین چار روز تک منایا جاتا ہے مرد بچوں کے ساتھ نمازِ عید ادا کرنے چلے جاتے ہیں جبکہ خواتین کھانا پکانے اور گھر کو سجانے میں مشغول ہو جاتی ہیں۔ نمازِ عید کے بعد لوگ ایک دوسرے کو نہایت پُرجوش انداز میں عید مبارک کہتے ہیں۔ عید کے پہلے روز دعوتوں کا دور رہتا ہے جبکہ اگلے دو تین روز لوگ پارکوں‘ تھیٹروں اور تفریحی مقامات کا رخ کرتے ہیں۔
انڈونیشیا میں ہماری طرح لوگ دور دراز علاقوں سے سفر کرکے اپنے آبائی علاقوں کا رُخ کرتے ہیں اور اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ عید مناتے ہیں۔ ہم عید سے قبل رات کو چاند رات کہتے ہیں جبکہ انڈونیشیا میں ا سے ''تیکرائن‘‘ کہا جاتا ہے۔ اس رات کو انڈونیشیا کے گلی کوچوں میں ایک ہی کلمہ گونج رہا ہوتا ہے اور وہ ہے ''ماشاء اللہ‘‘۔ اس موقع پر گھروں کے دروازوں پر موم بتیاں‘ لال ٹینیں اور دیے جلائے جاتے ہیں جس سے ماحول ایک روایتی حسن کیساتھ جگ مگ‘ جگ مگ کرنے لگتا ہے۔ یورپ و امریکہ جیسے غیرمسلم ممالک میں مسلمان اسلامی ملکوں سے کہیں بڑھ کر رمضان و عید الفطر کی خوشیوں کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان ممالک کی مساجد و اسلامک سنٹرز میں ایشیا‘ افریقہ اور یورپ و امریکہ کے مسلمانوں کے درمیان ہم آہنگی دیکھ کر بے حد خوشی ہوتی ہے۔ امریکہ میں مسلمانوں کے مختلف رنگ و روپ ایک چھت تلے اکٹھے ہو کر ربّ ذوالجلال کے حضور سجدہ ریز ہوتے ہیں تو محسوس ہوتا ہے کہ یہ ہے حقیقی امت مسلمہ۔ ہزاروں امریکی مساجد میں تقریباً ساری رات تراویح و تلاوتِ قرآن کے روح پرور مناظر دیکھنے میں آتے ہیں۔ یورپ و امریکہ میں پروان چڑھنے والے مسلمان بچے مساجد کی ان عبادات میں ہمارے پاکستانی بچوں کے مقابلے میں کہیں زیادہ شوق و ذوق کے ساتھ شامل ہوتے ہیں۔
ہم نے گزشتہ برس کی طرح اس سال بھی سیاست دانوں کی خدمت میں یہ تجویز پیش کی تھی کہ تمام سیاسی جماعتیں رمضان المبارک کے آخری دو ہفتے خدمت عوام کیلئے وقف کریں۔ پارٹیاں اپنے قومی اسمبلی‘ صوبائی اسمبلی اور بلدیاتی اداروں کے امیدواروں کو پابند کریں کہ وہ اپنے اپنے انتخابی حلقوں کی غریب آبادیوں کا نہ صرف رخ کریں بلکہ اپنے ذرائع اور خوشحال طبقوں کے وسائل سے ہر غریب خاندان اور اس کے بچوں کیلئے سامانِ عید مہیا کریں تاکہ کم از کم انہیں عید کے موقع پر محرومی کا احساس نہ ہو۔ اس تجویز پر کان نہیں دھرے گئے کیونکہ ہمارے سیاست دانوں کو رمضان کی مبارک و معطر ساعتوں میں بھی اپنی سیاسی لڑائیوں سے فرصت نہیں ہوتی۔ تاہم اخوت‘ الخدمت اور دیگر فلاحی تنظیمیں ساری قوم کے شکریے کی مستحق ہیں کہ انہوں نے اپنی سابقہ روایات کے مطابق اس برس بھی دور دراز کے علاقوں میں بھی پژمردہ چہروں پر رونقیں اور خوشیاں لانے کا زبردست اہتمام کیا ہے۔ ہم دعاگو ہیں کہ عید کے موقع پر اللہ ہمارے متحارب سیاست دانوں کو یوں گلے ملائے کہ سارا گلہ جاتا رہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں