چینی و افغان وزرائے خارجہ کی باتیں

کسی حکیم و دانا بزرگ کا قول ہے کہ حکمت و دانائی مومن کی گم شدہ میراث ہے۔ یہ گراں قدر اثاثہ جہاں سے ملے اسے لے لو۔ مراد یہ کہ دانائی و بھلائی کی بات دشمن بھی کرے تو اسے قبول کرنے میں تامل نہ کرو مگر ''پاکستانی مومن‘‘ کا مزاج نرالا ہے۔ وہ اپنی اَنا کے سامنے کسی حکمت و دانش پر کان دھرتا اور اور نہ کسی نصیحت کو سنتا ہے۔ اس معاملے میں ہمارے سیاست دانوں کی اَنا تو کوہ ہمالیہ کی چوٹیوں کو چھوتی دکھائی دیتی ہے۔ وہ اپنا اور اپنے ملک کا بہت بڑا نقصان کرنے پر تیار ہو جائیں گے مگر اپنے انانیت پسندانہ موقف سے دو قدم پیچھے ہٹنے پر آمادہ نہ ہوں گے۔ مشورے کے بارے میں عمومی اصول تو یہ ہے کہ اُس وقت دیا جائے جب طلب کیا جائے مگر مخلصانہ اور سچی دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ دوست جب کوئی بڑا غلط فیصلہ کرکے اپنا نقصان کرنے والا ہو تو اسے آگے بڑھ کر سمجھانا چاہیے کہ آپ بارودی سرنگوں پر پاؤں رکھنے سے اجتناب کریں۔
پاکستان کے دورے پر آئے ہوئے چینی وزیر خارجہ چن گانگ نے اسلام آباد میں ایک تو پا کستان‘ چین اور افغانستان کے وزرائے خارجہ کے پانچویں سہ فریقی اجلاس میں شرکت کی۔ اس کے علاوہ پاکستان اور چین کے دو فریقی چوتھے تزویراتی اجلاس میں بھی شمولیت کی۔ اس موقع پر دوطرفہ و سہ طرفہ اہم امور کے علاوہ چینی وزیر خارجہ نے پاکستان کے ساتھ حقِ دوستی ادا کرتے ہوئے مشورہ دیا ہے کہ پاکستان میں سیاسی قوتیں مل بیٹھ کر سیاسی استحکام لائیں تاکہ پاکستان اقتصادی میدان میں داخلی طور پر اور ہمارے ساتھ آگے بڑھ سکے۔ چینی وزیرخارجہ نے یہ بھی کہا کہ ہم عالمی اقتصادی دباؤ کو کم کرنے کے لیے پاکستان کے ساتھ ہر ممکن تعاون کریں گے۔
ایک بار پہلے بھی 1971ء میں اس وقت کے انتہائی دانا و بینا چینی وزیراعظم چو این لائی نے پس پردہ سفارتی سطح پر پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ مغربی پاکستان کے قا ئدین مشرقی پاکستان کی کامیاب سیاسی جماعت عوامی لیگ کے سربراہ شیخ مجیب الرحمن کے ساتھ سیاسی ڈائیلاگ کریں اور اپنے ملک کو بچائیں۔ چو این لائی نے اس وقت کے حکمرانوں اور سیاست دانوں کو خبردار کیا کہ بعض قوتیں پاکستان کو دولخت کرنے پر تلی ہوئی ہیں۔ تاریخ شاہد ہے کہ اس وقت کے سیاست دانوں نے کانوں میں روئی ٹھونس کر کسی دانشمندانہ بات کو سننے‘ سمجھنے اور اس پر عمل کرنے سے انکار کردیا۔ نتیجتاً پاکستان بھارت کے ہاتھوں 1971ء میں شکست سے دوچار ہوا۔ مشرقی پاکستان میں دوطرفہ طور پر اپنوں نے اپنوں کو ہی نہایت سفاکانہ طریقے سے موت کے گھاٹ اتارا۔
اسلام آباد میں سہ فریقی وزرائے خارجہ کے پانچویں اجلاس میں بلاول بھٹو زرداری نے پاکستان‘ چن گانگ نے چین اور مولوی امیر خان متقی نے افغانستان کی نمائندگی کی۔ اجلاس میں سیاسی تعاون‘ انسدادِ دہشت گردی‘ باہمی تجارت اور آمد و رفت کی سہولتوں کے بارے میں مفید اور نتیجہ خیز گفتگو ہوئی۔ پاکستان اور چین نے افغانستان کی سالمیت‘ اندرونی استحکام‘ داخلی امن اور خوشحالی کے سلسلے میں اپنے تعاون کی ایک بار پھر یقین دہانی کرائی۔ بلاول بھٹو زرداری نے افغانی وزیر خارجہ سے کہا کہ پاکستان اور افغانستان کا امن ایک دوسرے سے جڑا ہوا ہے۔ افغانی وزیر خارجہ نے اس بات سے اتفاق کیا اور پاکستانی امن کے سلسلے میں ہر ممکن مدد کی پیشکش کی۔
پاکستان اور چین کے دوطرفہ اجلاس میں چینی وزیر خارجہ نے روایتی سفارتی زبان سے کہیں آگے بڑھ کر نہایت پُرجوش طریقے سے کہا کہ ہمیشہ کی طرح چین اب بھی پاکستان کی خود مختاری‘ سرحدی سالمیت اور قومی عزت و غیرت کی بھرپور حمایت کرتا رہے گا۔ انہوں نے چینی ورکرز کے خلاف دہشت گردی کے واقعات کے ذمہ داران کوکیفر کردار تک پہنچانے میں پاکستان کی کوششوں کو بہت سراہا۔ چن گانگ نے سی پیک کے تمام منصوبوں بالخصوص گوادر کو جلد از جلد مکمل کرنے کی نوید بھی سنائی۔ ان دنوں بعض سیاست دان وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری پر دورۂ بھارت کے حوالے سے بلاجواز تنقید کر رہے ہیں۔ بلاول بھٹو نے شنگھائی تعاون تنظیم کانفرنس میں شاندار پرفارمنس دی اور مسئلہ کشمیر کے حوالے سے پاکستانی مؤقف کو پُرزور طریقے سے بیان کیا۔ بھارتی وزیر خارجہ ڈاکٹر جے ایس شنکر نے بڑی بڑی ڈگریوں اور آدابِ میزبانی کو بالائے طاق رکھ کر بی جے پی کے زعفرانی بریگیڈ کمانڈرکا روپ دھارا اور بلاول بھٹو کے بارے میں غیر شائستہ الفاظ استعمال کیے۔ مسٹر شنکر نے کشمیر کے بارے میں جھوٹ بولا۔ بلاول بھٹو نے ایک انڈین چینل کو بھارتی سرزمین پر کھڑے ہو کر کھری کھری سنا دیں۔ بلاول بھٹو زرداری نے اسلام آباد کی سہ فریقی کانفرنس میں بھی اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔
افغان وزیر خارجہ مولوی امیر خان متقی نے اپنے وفد کے ساتھ مولانا فضل الرحمن‘ سراج الحق‘ محمود اچکزئی اور ایمل ولی وغیرہ کے ساتھ ایک ہارٹ ٹو ہارٹ ملاقات کی۔ ہمیں بہت تجسس تھا کہ معلوم کریں کہ اس ملاقات میں برادر اسلامی ملک کے وزیر خارجہ نے کیا کہا۔ ہمیں ان کی باتوں کی بعض ذرائع سے کچھ سن گن تو لگ گئی تھی مگر ہم ان باتوں کی تصدیق چاہتے تھے۔ ہم نے جناب سراج الحق سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ متقی صاحب نے کیا کہا؟ امیر جماعت اسلامی کے بقول متقی صاحب نے کہا کہ امارتِ اسلامیہ افغانستان کی حکومت میں افغانستان کے تمام علاقوں کی نمائندگی ہے۔ ہمارے درمیان اتفاق ہے‘ نفاق نہیں۔ انہوں نے کہا کہ طالبان سے پہلی حکومتوں کے دور میں بھی سرکاری ملازمین کو تنخواہ ملتی‘ کبھی نہ ملتی تھی مگر ہم ساڑھے دس لاکھ ملازمین کو باقاعدگی سے اُن کے مشاہرے اور واجبات ادا کر رہے ہیں۔ افغان وزیر خارجہ نے کہا کہ افغانستان میں گزشتہ دو برس سے مکمل امن ہے۔ کابل میں داعش نے اکا دُکا تخریبی کارروائیاں کیں مگر اب حالات پُرسکون ہیں۔ عیدالفطر کے موقع پر چاند رات کو ساری رات دکانیں کھلی رہیں۔ متقی صاحب نے بتایا کہ جو مسلح لوگ عوام کو تنگ کرتے تھے اور ان پر رعب جماتے تھے‘ ان کو غیر مسلح کر دیا گیا ہے یا آئندہ پُرامن رہنے کا معافی نامہ لکھوا لیا گیا ہے۔ انہوں نے اس ملاقات میں یہ بھی بتایا کہ افغانستان کے 9.7ارب ڈالر امریکی بینکوں میں منجمد ہیں‘ اس کے باوجود دنیا کی آٹھ مستحکم ہوتی ہوئی کرنسیوں میں ایک افغانی سکہ بھی ہے۔ متقی صاحب نے بتایا کہ ہم اپنی سرزمین سے کسی کو پڑوسی ملک کے خلاف کسی دہشت گردی کی اجازت نہیں دیتے۔ تاہم اتوار کے روز آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے افغانی وزیر خارجہ سے ملاقات کے دوران کہا کہ دہشت گردی کے خلاف افغانستان کی حمایت ضروری ہے۔
برادر اسلامی ملک کے وزیر خارجہ نے کہا کہ ہمارے تمام پڑوسی ممالک کے ساتھ خوشگوار تعلقات ہیں۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ ہم پاکستان کو وسط ایشیائی ریاستوں تک پُرامن راہداری دینے کو تیار ہیں۔ پاکستان کو ان ملکوں کو اپنی اشیا برآمد اور وہاں سے گیس اور دیگر اشیا درآمد کرنے کے لیے ہر ممکن تعاون کرنے کو تیار ہیں۔ بچیوں کی تعلیم کے بارے میں ایک سوال کا جواب دیتے ہوئے وزیر خارجہ مولوی امیر متقی نے کہا کہ ہم اصولی طور پر خواتین کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنے کا حق تسلیم کرتے ہیں مگر اس کے لیے نظام وضع کر رہے ہیں۔ ہم جناب سراج الحق کے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ہمیں ہارٹ ٹو ہارٹ ملاقات کی اندرونی کہانی سنائی۔
ہم آخر میں پاکستانی سیاست دانوں کو پاکستان کے عظیم دوست چین کے وزیرخارجہ کا مشورہ یاد دلاتے ہیں کہ آپس میں اتفاقِ رائے پیدا کریں۔ پاکستانی سیاست دانوں نے 1971ء میں اس وقت کے چینی وزیراعظم چو این لائی جیسے دوست اور مفکر کا مشورہ نہیں مانا اور ناقابلِ تلافی نقصان اٹھایا۔ دیکھنا یہ ہے کہ گزشتہ 52برس کے دوران ہمارے سیاست دانوں کی سوچ میں کتنی گہرائی اور بالغ نظری پیدا ہوئی ہے یا وہ ابھی تک اسی لاابالی پن کا شکار ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں