سو تو یہ معاشرہ رہا ہے

ہماری روزمرہ زندگی اکثر بے حسی کی بنیاد پر چلتی رہتی ہے تاآنکہ کوئی غیرمعمولی طور پر حساس دل ہمیں بعض ایسے حقائق سے آنکھیں چار کرنے پر مجبور کر دیتا ہے جن سے ہم ہمیشہ آنکھیں چراتے چلے آتے ہیں۔ لینہ حاشر ایک ایسا ہی حساس دل رکھتی ہیں۔ ان کی اثر انگیز تحریریں دلوں پر براہِ راست نفوذ کرتی ہیں۔ حقیقتوں سے جنم لینے والی یہ کہانیاں نہ صرف ہمیں جھنجھوڑتی ہیں بلکہ بسا اوقات ہمیں اپنے سنگ بستہ رویوں پر نظرثانی کی ترغیب دیتی ہیں۔ لینہ حاشر کی کتاب ''دھنک کا آٹھواں رنگ‘‘ میں اُن کا مضمون ''مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط‘‘ پڑھ کر میں سناٹے میں آ گیا۔ کتنا درد ناک ہے یہ فسانہ جسے سننے سے اکثر ہم کتراتے رہتے ہیں۔ خواجہ سرا کے بعد از مرگ خط کی چند ابتدائی سطور ملاحظہ کیجئے۔
ماں جی! میری عمر نو دس برس کی تھی جب ابا نے مجھے زمین پر گھسیٹتے ہوئے گھر سے بے گھر کر دیا تھا۔ میں چیخ چیخ کر تمہیں پکارتا رہا مگر تم بے حس و حرکت سہمی ہوئی مجھے تکتی رہی۔ واحد روانی تمہارے آنسوؤں کی تھی جو ابا کے غیظ و غضب کے آگے بھی تھمنے کو تیار نہ تھی۔ تمہارا ہر آنسو اس بات کا ثبوت تھا کہ تم ابا کے اس فعل سے بہت نالاں تھی مگر ابا کی ہر بات پر سر تسلیم خم کرنے پر مجبور بھی۔ محلے والوں کے طعنے‘ رشتہ داروں کے طنز اور لوگوں کی چبھتی نگاہوں سے جب ابا بے قابو ہو جاتے تو پھر اپنے کالے چمڑے کی چپل سے میری چمڑی ادھیڑتے۔
ٹرانس جینڈر ایک قدرتی تخلیق ہے۔ اب تو رحمِ مادر میں اس تخلیق کے ابتدائی مراحل سے لے کر دنیا میں وارد ہونے تک کی تفصیل بائیولوجی کی کتابوں اور جدید ترین سائنسی تحقیق میں بیان کر دی گئی ہے‘ تاہم ہماری سوسائٹی نے صدیوں سے اس معاملے کی حقیقت سمجھنے میں کوتاہی کا ثبوت دیا ہے۔ کالم میں آگے چل کر ہم اس مسئلے کے مختلف پہلوؤں پر بات کریں گے مگر پہلے میں آپ کو 10نومبر بروز جمعۃ المبارک ملکی سطح پر ہونے والے پہلے ہیجڑا فیسٹیول کی چند جھلکیاں دکھانا چاہتا ہوں۔ کراچی میں یہ فیسٹیول ریلی کی صورت میں منایا گیا جس میں سینکڑوں خواجہ سراؤں نے رنگے برنگے نسوانی ملبوسات زیب تن کرکے فخریہ اپنی شناخت سے دنیا کو روشناس کرایا۔ اُن کے فیسٹیول کا سلوگن تھا ''دوسری اصناف کی طرح ہماری صنف کا وجود بھی تسلیم کیا جائے‘‘۔ پلے کارڈز پر مختلف نعرے لکھے ہوئے تھے جن میں یہ درج تھا کہ ہمیں قدرت کے فیصلے پر کوئی ندامت ہے نہ شرمندگی بلکہ ہمیں اپنے وجود پر فخر ہے۔ ہم اپنے وجود کو اپنی خداداد صلاحیتوں سے زندگی کے ہر شعبہ میں منوائیں گے۔ ریلی کا فرنٹ بینر نہایت ہی دل آویز اور فکر انگیز تھا۔ اس عبارت میں درد بھی تھا اور طنز بھی۔ملاحظہ فرمائیے: ہیجڑے تو جاگ رہے ہیں‘ سو تو یہ معاشرہ رہا ہے۔
کئی صدیوں سے یہ معاشرہ پہاڑ جتنی بڑی غلطیاں کرتا چلا آ رہا ہے۔ تخلیقی طور پر اگر کسی بچے میں مکمل مردانہ یا زنانہ صفات کے بجائے دونوں کا مرکب جنم لیتا ہے تو اس میں بچے کا کیا قصور ہے؟ اس تخلیق کی سائنسی و طبی وجوہات سے ایک باشعور معاشرہ مکمل طور پر آگاہ ہوتا ہے۔ کسی بھی زندہ سوسائٹی کے اطبا‘ سائنسدان‘ علما‘ مفکرین اور دانشور اس آگہی سے اپنے معاشرے کو ایجوکیٹ کرتے ہیں اور اس کے مطابق ہر فرد کو اپنے قدیم رویوں کو جدید معلومات کی روشنی میں بدل لینے پر زور دیتے ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ 75برس سے خواجہ سرا ہمارے معاشرے کا ایک ایسا حصہ ہیں کہ جو لوگوں کے رحم و کرم پر زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ کوئی ناچ گانے سے اور کوئی بھیک مانگ کر گزارہ کرتا ہے۔ کوئی اپنے گرو کے اشارۂ ابرو کے مطابق لوگوں کو خوش کرکے اپنے پیٹ کی آگ بجھاتا ہے۔ 2018ء میں ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ سامنے آیا تھا۔ یہ ایکٹ بعض باہمت خواجہ سراؤں کی کوششوں اور بعض انسانی حقوق کی تنظیموں کی کاوشوں کا ثمر تھا۔ اس ایکٹ میں خواجہ سراؤں کو شناختی کارڈ کا حق‘ تعلیم کا حق‘ بنیادی ضروریات کا حق‘ صحت کا حق اور معاشرے کا مساوی شہری ہونے کا حق دیا گیا ہے۔ 2022ء میں ایک بار پھر یہ ایکٹ اپنی بعض متنازع شقوں کی بنا پر موضوعِ بحث بن گیا تھا۔ اس ایکٹ میں کچھ ایسی شقیں بھی ڈال دی گئی تھیں جن کے مطابق مرد ہوتے ہوئے اگر کوئی شخص اپنے اندر نسوانی میلانات پاتا ہو تو وہ نادرا میں بطور خاتون اپنا اندراج کروا سکتا ہے۔ اسی طرح عورت ہوتے ہوئے اگر کوئی خاتون اپنے اندر مردانہ صفات محسوس کرتی ہے تو وہ بطور مرد اپنا اندراج کروا سکتی ہے۔
ان شقوں پر دینی طبقات نے تنقید کی اور انہیں خلافِ شرع قرار دیا۔ علمائے کرام کے مؤقف کے مطابق کسی فرد کو اپنی مرضی کے مطابق جنس کی تبدیلی کا حق حاصل نہیں۔ اسلامی امور کے بارے میں ملک کے اہم آئینی ادارے اسلامی نظریاتی کونسل نے بھی ان شقوں پر شدید تحفظات کا اظہار کیا تھا۔ اس شدید جائز تنقید کے بعد نادرا نے یہ شقیں واپس لے لیں تھیں۔ 2018ء کے ٹرانس جینڈر پروٹیکشن ایکٹ کے مطابق خواجہ سراؤں کو تعلیم‘ بنیادی ضروریات‘ صحت اور معاشرے کا برابر کا شہری ہونے کے جو حقوق دیے گئے ہیں‘ ان پر حقیقی معنوں میں عمل درآمد ہونا چاہیے۔
سب سے اہم بات یہ ہے کہ قدرت کی تخلیق خواجہ سراؤں کے بارے میں معاشرے کو اپنا رویہ تبدیل کرنے کی فوری ضرورت ہے۔ اب تک تو یہ ہوتا چلا آ رہا ہے کہ اس تخلیق کو اپنے ہی گھر میں دھتکارا جاتا ہے‘ اُن پر تشدد کیا جاتا ہے‘ انہیں پرلے درجے کی قابلِ نفرت مخلوق سمجھا جاتا اور ان سے انتہائی حقارت آمیز سلوک کیا جاتا ہے۔ ان بچوں کو سکولوں میں بھیجنے کے بجائے گھر سے بچپن یا لڑکپن میں ہی دھتکار کر باہر نکال دیا جاتا ہے اور پھر ہمیشہ کے لیے ان کی گھر واپسی یا اپنے بہن بھائیوں سے ملنے جلنے پر شدید ترین پابندی لگا دی جاتی ہے۔ ٹرانس جینڈر ایکٹ سے یقینا خواجہ سراؤں کو بعض حقوق تو مل جائیں گے مگر جب تک معاشرہ اُن کے بارے میں اپنے نفرت انگیز رویے کو نہیں بدلتا‘ اس وقت تک ٹرانس جینڈرز کی زندگی پُرسکون ہو سکتی نہ خوشحال اور نہ ہی وہ سوسائٹی کا ایک قابلِ قبول حصہ بن سکتے ہیں۔
اس جمعۃ المبارک کو پشاور میں اپنے گھر میں موجود ایک ٹرانس جینڈر طاہر الیاس غزل کو اپنے کمرے میں چاقوؤں کے پے در پے وار کرکے نہایت بے دردی کے ساتھ موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ پشاور میں آئے روز ٹرانس جینڈر کے قتل کا کوئی نہ کوئی درد ناک واقعہ سامنے آتا رہتا ہے۔ اس طرح کے افسوسناک واقعات ملک کے دوسرے حصوں میں بھی وقوع پذیر ہوتے رہتے ہیں۔ لینہ حاشر ''مرنے کے بعد خواجہ سرا کا اپنی ماں کو خط‘‘ کے آخر میں لکھتی ہیں۔ ماں! میں ساری زندگی جینے کی چاہ میں مرتا چلا گیا۔ سفید خون رکھنے والے لوگ کبھی مذہب کی آڑ میں تو کبھی جسم فروشی سے انکار پر ہمارے جسموں میں گولیاں اتار دیتے ہیں۔ میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا‘ مجھے گولیاں ماری گئیں۔ جب مجھے ہوش آیا تو ڈاکٹر نے میرے کان میں سرگوشی کی تم ہمت کرو تو زندگی کی طرف لوٹ سکتے ہو۔ میں نے بمشکل ہونٹوں کو جنبش دی اور ڈاکٹر سے کہا اگر میں ہمت کرکے لوٹ بھی آیا تو کیا مجھے جینے کا حق دیا جائے گا؟ یہ معاشرہ قدرت کی اس تخلیق کو جینے کا حق کب دے گا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں