ٹریلر

بھارت نے چند روز قبل پاکستان کی شہری آبادیوں بالخصوص مساجد کو میزائلوں سے نشانہ بنایا۔ ان حملوں میں 31 بے گناہ شہری‘ جن میں بچے‘ جوان‘ بوڑھے اور خواتین شامل ہیں‘ لقمۂ اجل بن گئے۔ درجنوں شدید زخمی بھی ہوئے۔ اس وحشیانہ کارروائی کے خلاف پاکستان کی مسلح افواج خاص طور پر ایئر فورس کے شاہین حرکت میں آئے۔ ان شاہینوں نے اپنی فضائی حدود میں رہتے ہوئے بھارت کے رافیل سمیت پانچ جنگی جہازوں کو اُسی کی سرزمین کے اندر نشانہ بنا کر تباہ کر دیا۔ بھارت کو فرانس سے خریدے گئے رافیل طیاروں پر بہت ناز تھا۔ اس ٹریلر نے یہ ثابت کر دیا کہ نیو کلیئر جنگ تو رہی ایک طرف روایتی جنگ میں بھی پاکستان کو ٹیکنالوجی‘ مہارت اور تیز ردِعمل کے اعتبار سے بھارت پر زبردست برتری حاصل ہے۔
اگرچہ پاکستان میں بھارت کے میزائل حملوں کے خلاف عوامی جذبات شدید تھے اور وہ چاہتے تھے کہ دشمن کو ناقابلِ فراموش سبق سکھایا جائے مگر پاکستان نے احتیاط سے کام لیا اور شہری آبادی کو نشانہ نہیں بنایا۔ ہماری ایئر فورس کی کارروائی کے بعد بھارت کی طرف سے قدرے خاموشی کا مطلب یہ لیا گیا کہ دشمن کو اندازہ ہو گیا ہے کہ جس فلم کا ٹریلر اتنا خطرناک ہے وہ فلم کتنی بھیانک ہو گی۔ مگر ایک روز بعد ہی لاہور اور پنجاب کے دوسرے بہت سے شہروں پر بھارت کی طرف سے اسرائیلی ساختہ ڈرون حملوں سے محسوس ہوتا ہے کہ پڑوسی کو ٹریلر کے بعد اصل فلم کی کچھ اور جھلکیاں دکھانے کی فوری ضرورت ہے۔ حیران کن بات یہ ہے کہ پنجاب کے شہری براہِ راست بھارتی حملوں کی زد میں ہیں مگر اس صوبے کے حکمران لب کشائی نہیں کر رہے۔ وہ بھارتی حملوں کے خلاف دشمن کو للکار نہیں رہے اور اپنے عوام کو بھی یقین دہانی نہیں کرا رہے کہ ہم اینٹ کا جواب اینٹ سے نہیں تو پتھر سے ضرور دیں گے۔
جماعت اسلامی کے امیر حافظ نعیم الرحمن نے عوام کی ترجمانی کرتے ہوئے یکجہتی اور ملی یگانگت پر زور دیا ہے۔ انہوں نے افواجِ پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ ساری قوم اُن کی پشت پر کھڑی ہے۔ ہم نے بیرونِ وطن بھی پاکستانیوں کو اپنے ملک پر سب کچھ نچھاور کر دینے کے جذبات سے سرشار پایا ہے۔ ملک کے اندر اور باہر سبھی چاہتے ہیں کہ آل پارٹیز کانفرنس طلب کی جائے جس میں عمران خان سمیت پی ٹی آئی کی قیادت بھی شامل ہو۔ جب ملک کی سبھی پارٹیوں کے قائدین مل کر فیصلے کریں گے تو پھر بھارت کو یہ پیغام جائے گا کہ وہ ہمارے داخلی اختلافات سے فائدہ اٹھانے کا خیال دل سے نکال دے۔ جس طرح 1965ء میں ساری پاکستانی قوم بھارت کے خلاف یکجان تھی وہی جذبہ اور وہی نظارہ دنیا آج بھی دیکھے گی۔ان دنوں حکومتی وزرا اور کم از کم دس بارہ حضرات اپنے تئیں سپوکس پرسن بن کر اپنی اپنی بولی بول رہے ہیں‘ کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم دشمن کو نہ بھولنے والا سبق سکھائیں گے تو کوئی کہہ رہا ہے کہ ہم نے بھارتی کارروائی کا ضروری جواب دے دیا ہے جو کافی ہے۔ عام حالات میں بھی اور بطورِ خاص جنگی صورتحال میں ایک دو ہی حکومتی ترجمان ہونے چاہئیں۔
جب یہاں امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کو وائٹ ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس کے دوران بھارت کے پاکستان پر میزائل حملوں کی خبر ملی تھی تو انہوں نے ارتجالاً کہا کہ یہ تو بڑی شرم کی بات ہے کہ یہ دو قومیں زمانوں سے ایک دوسرے کے خلاف لڑ رہی ہیں اور اپنے مسئلے باہمی بات چیت سے حل نہیں کرتیں۔ دوسری طرف یہ بھی تو افسوسناک ہے کہ عالمی برادری گزشتہ 75برس سے سنجیدگی کے ساتھ اپنی ذمہ داری نبھاتے ہوئے مسئلہ کشمیر حل نہیں کر رہی۔
عالمی منظر نامے پر کچھ عرصے سے مسئلہ کشمیر کسی حد تک پس منظر میں تھا۔ بھارت کے حملوں سے ایک بار پھر دنیا کے سامنے یہ مسئلہ آیا ہے۔ اس وقت پاکستان کی طرف سے ایک تیز رفتار سیاسی و سفارتی جدوجہد کے ذریعے دنیا کو بھارت کی کہہ مکرنیوں کی تاریخ سے آگاہ کیا جائے۔ سننے میں آ رہا ہے کہ اس مقصد کیلئے بلاول بھٹو زرداری کو وزیر خارجہ بنایا جا رہا ہے‘ اگر ایسا ہے تو یہ اچھا انتخاب ہے۔ اقوامِ عالم کو بتایا جائے کہ کس طرح سے پاکستان کے ساتھ وعدے وعید کیے گئے‘ کس طرح سے کشمیریوں کو یقین دہانیاں کرائی گئیں کہ انہیں حقِ خودارادیت دیا جائے گا اور وہ پاکستان یا ہندوستان جس سے چاہیں الحاق کر لیں‘ وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو گیا کے مصداق آج تک سلامتی کونسل کا کشمیر کے بارے میں کوئی وعدہ پورا ہوا اور نہ ہی بڑی طاقتوں کے کسی وعدے پر عملدرآمد ہوا۔
دنیا کے علاوہ اپنی ینگ جنریشن کو بھی یہ یاد دلانا ضروری ہے کہ ریاست جموں و کشمیر پاکستان کی شہ رگ کیوں ہے۔ انہیں یہ بھی بتانے کی ضرورت ہے کہ یہ شہ رنگ پنجۂ ہندو میں ہے۔ نیز نوجوانوں کو مسئلہ کشمیر کی مختصر تاریخ سے آگاہ کرنا بھی بہت اہم ہے۔ بھارت‘ پاکستان کے ساتھ ساتھ کشمیر کی سرحدیں افغانستان اور چین سے بھی ملتی ہیں۔ پاکستان میں بہنے والے تین دریا کشمیر سے نکلتے ہیں۔ 2024ء کی مردم شماری کے مطابق جموں و کشمیر کی آبادی سوا کروڑ سے اوپر ہے۔ آبادی کی اکثریت مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ تقسیم ہند کے وقت ہری سنگھ ریاست کشمیر کا راجہ تھا۔ کشمیر کے لوگوں نے تین جون 1947ء کو پاکستان کے ساتھ الحاق کیا تاہم اندرون خانہ مہاراجہ نے ہندو قیادت کے ساتھ ساز باز کر لی اور کشمیری اکثریت کی خواہشات کے برعکس انڈیا کو الحاق کا عندیہ دیا۔ یہ سازشیں دیکھ کر پاکستانی علاقوں کے قبائلی اپنے بھائیوں کی مدد کیلئے سرینگر کی طرف چل پڑے۔ 27اکتوبر کو بھارتی فوجیں براستہ گورداسپور کشمیر میں اُترنا شروع ہو گئیں۔ 30 اکتوبر کو لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے لاہور میں بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کو یقین دہانی کرائی کہ جونہی کشمیر میں امن قائم ہو جائے گا وہاں استصوابِ رائے کرایا جائے گا اور کشمیری مسلمانوں کو حقِ خودارادیت دیا جائے گا۔ بھارت نے جب اپنی فوجوں کے باوجود سرینگر ہاتھ سے جاتا دیکھا تو وہ بھاگا بھاگا سلامتی کونسل جا پہنچا۔ یو این او کی سلامتی کونسل میں پہلی قرارداد 13اگست 1948ء کے روز اور دوسری 5جنوری 1949ء کو منظور ہوئی۔ ان قراردادوں میں قیام امن کے ساتھ ہی کشمیر میں استصواب رائے کا وعدہ کیا گیا جو آج تک ایفا نہیں ہو سکا۔ باقی تب سے لے کر اب تک کی تاریخ دنیا کے سامنے ہے۔ 77برس سے بھارتی فوجی کشمیر میں لاکھوں کشمیریوں کو شہید کر چکے ہیں مگر کشمیری مسلمانوں کی آتشِ حریت پہلے سے بڑھ کر بھڑک رہی ہے۔
بھارت پاکستانی مہارت اور جذبۂ شہادت کا ٹریلر دیکھ چکا ہے۔ پاکستان میں عوامی جذبات کا سمندر موجزن ہے۔ وہ اپنی حکومت اور فوج سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ بھارت کو بھرپور سبق سکھائیں۔ دشمن کو یقینا ٹریلر سے اندازہ ہو گیا ہو گا کہ پوری فلم کتنی بھیانک ہو گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں