غزہ میں قحط کا خطرہ اور بمباری

گزشتہ دنوں امریکہ کی چند خوبصورت جھیلوں کی سیاحت کا موقع ملا۔ پیچھے دور تک سبزہ ہی سبزہ اور سامنے تاحدِ نگاہ نیلگوں جھیلیں۔ قدرت کی صناعی کا یہ عظیم شاہکار دیکھ کر زباں سے بطور تحسین یہ کلمہ نکلا کہ تم اپنے رب کی کن کن نعمتوں کو جھٹلاؤ گے۔ انہی جھیلوں کے بارے میں لکھنے کا ارادہ تھا مگر آج جب غزہ کی تازہ ترین خبریں سنیں اور دیکھیں تو دل لہو سے بھر گیا۔ جھیلوں کے تذکرے کا خیال معدوم ہوا‘ اب یہ ذکر پھر کبھی۔
تازہ خبروں کے مطابق غزہ میں شدید ترین قحط کا قوی خطرہ ہے۔ اگر اگلے 48گھنٹے میں وہاں غذائی اور طبی امداد نہ پہنچی تو 14ہزار بچے دم توڑ سکتے ہیں۔ صرف چند روز قبل ڈونلڈ ٹرمپ مشرقِ وسطیٰ کے دورے پر آئے تھے۔ ہمارے عرب بھائیوں نے کھربوں ڈالر سرمایہ کاری کے لیے امریکی صدر کو پیش کر دیے۔ یہ کہا جا رہا تھا کہ ایسی فراخدلانہ اور ضیافانہ میزبانی کے بدلے ہمارے سعودی اور اماراتی بھائی اپنے معزز مہمان سے اتنی بات تو منوا لیں گے کہ وہ غزہ پر اسرائیلی حملوں کو رکوائیں‘ فوری طور پر خوراک و ادویات کے وہاں داخل ہونے پر عائد شدہ پابندیاں اٹھوائیں اور مکمل سیز فائر کو یقینی بنوائیں۔ مگر سپر پاور کے سربراہ مشرقِ وسطیٰ سے لدے پھندے واپس آ گئے ہیں اور غزہ میں ہمارے بھائی‘ بہنوں اور بچوں پر مزید قیامت ٹوٹ رہی ہے۔ سیز فائر کا کوئی عارضی معاہدہ ہوتا ہے‘ قیدیوں کے تبادلے کا طریق کار وضع کیا جاتا ہے مگر ان معاہدوں کو اسرائیل پرکاہ کی اہمیت بھی نہیں دیتا اور ساری دنیا اس کے سامنے بے بسی کی تصویر بنی ہوئی دکھائی دیتی ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کی ہٹ دھرمی کا یہ حال ہے کہ اس نے دو مارچ یعنی گزشتہ 80 روز سے غزہ میں خوراک پہنچانے کے سارے راستے بند کر رکھے ہیں۔ وہ روزانہ نہتے اہلِ غزہ پر بمباری بھی کر رہا ہے۔ اب اسرائیل نے جمعہ کے روز سے غزہ پر پوری قوت سے نئے حملے کرنے کا اعلان کیا ہے۔ اسرائیلی وزیراعظم کا کہنا ہے کہ یہ حملے تب تک جاری رہیں گے جب تک کہ اہلِ غزہ کو ان کی زمین سے نکال نہیں دیا جاتا۔
اسرائیلی وزیراعظم کے اس پاگل پن پر برطانیہ‘ فرانس اور کینیڈا نے مشترکہ طور پر شدید ردِعمل کا اظہار کیا ہے کہ اگر اسرائیل نے فوری طور پر غزہ میں خوراک کے ٹرک نہ داخل ہونے دیے‘ مزید حملوںکا ارادہ ترک نہ کیا اور مغربی کنارے میں مزید یہودی بستیوں کا پروگرام منسوخ نہ کیا تو اس کے خلاف شدید نوعیت کی بندشیں عائد کی جائیں گی۔ برطانیہ نے اسرائیل کے ساتھ تجارتی معاہدوں کے لیے جاری مذاکرات معطل کر دیے ہیں۔ مغربی ملکوں کے اس شدید ردِعمل کے بعد 21 مئی کو اسرائیلی وزیراعظم نے اعلان کیا کہ وہ غزہ کے ساتھ واضح شرائط پر جنگ بندی کے لیے تیار ہے۔ نیتن یاہو نے کہا کہ ہم نے غزہ خوراک کے 100 امدادی ٹرک جانے دیے مگر اقوام متحدہ نے اعلان کیا کہ یہ واضح جھوٹ ہے‘ یہاں ایک ٹرک بھی نہیں آیا‘ ہماری ٹیمیں خوراک کی تقسیم کے لیے انتظار کر رہی ہیں۔ دوسری طرف اسرائیلی فوج کے ایک سابق نائب سربراہ نے کہا ہے کہ ہم معصوم بچوں کو قتل کرنے والی ایک پاگل ریاست بن چکے ہیں۔
مغربی ممالک کی طرح مسلم ممالک کو بھی اسرائیل کے ساتھ عارضی طور پر ہی سہی‘ تجارتی و سفارتی تعلقات منقطع کرنے چاہئیں۔ امریکہ و یورپ کی سرپرستی میں اسرائیل نے فلسطین کے ساتھ جو معاہدے کیے ہوئے تھے ان سب پر عمل درآمد کرایا جائے۔ عالمی ضمیر کتنا ہی خوابیدہ کیوں نہ ہو جائے مگر کچھ نہ کچھ احساس کی رمق تو باقی رہتی ہے۔ ایک بااختیار فلسطینی ریاست ہی مشرقِ وسطیٰ میں امن کی ضمانت فراہم کر سکتی ہے۔ اسرائیل کو سمجھ لینا چاہیے کہ اب ظلم کی انتہا ہو چکی ہے۔ سات اکتوبر 2023ء سے لے کر اب تک صہیونی ریاست 53 ہزار سے زائد اہلِ غزہ کو شہید اور تقریباً ایک لاکھ اکیس ہزار کو زخمی کر چکی ہے۔ سعودی عرب کے تعلیمی اداروں میں ہمارے ساتھ کام کرنے والے کئی فلسطینی دوست غزہ میں مقیم تھے۔ یہ لوگ وہاں طائف میں بڑے مہمان نواز ہوا کرتے تھے۔ آج یہ زندہ رہنے کے لیے کم از کم خوراک اور پانی سے بھی محروم ہیں۔ کبھی غزہ میں انٹرنیٹ کام کر رہا ہوتا ہے تو بھی ان سے بات کرنے کا یارا نہیں ہوتا۔ کتنے ہی بمباری سے اللہ کو پیارے ہو چکے ہیں‘ کتنے غزہ میں اپنے عالیشان گھروں کے ملبے پر پھٹے پرانے خیموں میں نہایت کسمپرسی کی حالت میں زندگی کے باقی ماندہ سانس لے رہے ہیں۔ میں ان معزز اور غیرت مند لوگوں کا تصور کرتا ہوں کہ جب وہ اور ان کے بچے برستی گولیوں میں دو چار روٹیوں کے لیے پہروں قطاروں میں کھڑے رہنے پر مجبور ہوتے ہیں تو ان کے جذبات کا کیا عالم ہوتا ہوگا۔
کل تک جو لوگ اپنی زمینوں کے مالک و مختار تھے آج انہیں اپنی ہی بستیوں سے بے دخل کیے جانے کی باتیں کی جا رہی ہیں۔ غزہ کے فلسطینیوں کی کل تعداد بائیس لاکھ کے لگ بھگ ہے۔ کہنے کو اس مختصر آبادی کے دو ارب مسلم بھائی ہیں۔ ان مسلمانوں میں بڑے بڑے امیر ممالک بھی شامل ہیں‘ ان میں کئی ممالک کی بڑی بڑی افواج بھی ہیں اور ان میں ایک ملک تو ایٹمی قوت بھی ہے۔ مگر بے حسی یا بے بسی دیکھئے کہ یہ ملک آگے بڑھ کر ظالم حملہ آوروں کو منہ توڑ جواب نہیں دیتے اور اہلِ غزہ کی نسل کشی نہیں رکواتے۔
دیکھئے عالمی سازشیں کتنی دور رس ہوتی ہیں مگر ہمارے سادہ دل مسلمان ان فریب کاریوں کو نہ سمجھ سکے تھے اور نہ آج بھی سمجھ پائے ہیں۔ امیر المومنین حضرت عمر فاروقؓ کے زمانے میں 636ء سے لے کر 1948ء تک سارے فلسطین پر کسی نہ کسی شکل میں مسلمان ہی حکمران رہے۔ 1917ء میں فلسطین پر جنرل ایلن بی کی قیادت میں انگریزوں کا قبضہ ہو گیا اور یہ برطانوی استعمار کے قبضے میں آ گیا۔ اس کے ساتھ ہی یہودیوں نے برطانوی حکومت کے ساتھ ساز باز شروع کر دی اور اسے اس بات پر آمادہ کر لیا کہ موجودہ فلسطین کے علاقے میں وہ یہودیوں کو ایک سلطنت بنانے میں مدد دے۔ برطانوی حکومت کے ساتھ یہودیوں کا معاہدہ طے پا گیا اور دنیا بھرسے ہجرت کر کے یہودی فلسطین پہنچنے لگے۔ یہودیوں کی بیسویں صدی کے اوائل میں کثرت سے آمد سے پہلے فلسطین میں ان کی تعداد سات فیصد سے زیادہ نہ تھی مگر نئے آنے والے یہودی عربوں کی تمام تر احتیاط کے باوجود وہاں کی آٹھ فیصد اراضی خریدنے میں کامیاب ہو گئے۔ یوں رفتہ رفتہ یہودیوں کی تعداد وہاں کی آبادی کے تقریباً 30 فیصد ہو گئی۔ اس عالمی سازش کے نتیجے میں اقوام متحدہ نے تقسیمِ فلسطین کی تجویز منظور کر لی جس کے مطابق فلسطین کا تقریباً 57فیصد حصہ ملک کی 30فیصد یہودی آبادی کو دے دیا گیا اور موجودہ یروشلم کو اوپن سٹی کی حیثیت سے تسلیم کر لیا گیا۔ 14 مئی 1948ء کو صہیونی ریاست ''اسرائیل‘‘ کے قیام کا اعلان کر دیا گیا۔ تب سے اسرائیل امریکہ کی مدد سے اپنی توسیع پسندانہ پالیسی پر عمل پیرا ہے۔
اس وقت اسرائیل عملاً باقی ماندہ 43فیصد فلسطینی علاقے پر بھی قابض ہے۔ آج کی بڑی بڑی عرب ریاستوں کو سمجھ لینا چاہیے کہ صہیونی ریاست دیگر عرب علاقوں کو نیل سے فرات تک اپنے قبضے میں لینے کے عزائم رکھتی ہے۔ مسلم حکمران اپنا اثر و رسوخ استعمال کر کے یورپ اور اقوام متحدہ کے ساتھ مل کر فی الفور سیز فائر کرائیں اور اہلِ فلسطین کی خود مختار ریاست کا راستہ ہموار کرائیں تاکہ اسرائیل کے توسیع پسندانہ عزائم کو ہمیشہ ہمیشہ کے لیے روکا جا سکے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں