ڈیلس میں شیخ یاسر قاضی سے ملاقات …(2)

شیخ یاسر قاضی کے حیران کن تعلیمی سفر کے بارے میں ہفتے کے روز میرا کالم شائع ہوا تو ہمدمِ دیرینہ پروفیسر عمر بن صدیقی نے مجھے اس حوالے سے وٹس ایپ پر ایک مکتوب ارسال کیا۔ اس مکتوب سے معلوم ہوتا ہے کہ ایک تو فطرت خود بخود لالے کی حنا بندی کرتی ہے‘ دوسرا نوجوان یاسر قاضی کی خوش قسمتی تھی کہ انہیں نہایت شفیق والدین ملے جنہوں نے اُن کی تعلیم وتربیت کا فریضہ نہایت ذوق وشوق کے ساتھ ادا کیا۔ پروفیسر صدیقی کا خط ملاحظہ فرمائیے۔
''آپ نے امریکہ کے مسلمانوں کا مثبت تعارف کرایا ہے۔ عزیزی یاسر قاضی کے والدِ گرامی ڈاکٹر مظہر قاضی سے مدتوں پہلے کراچی میں پہلی ملاقات اسلامی جمعیت طلبہ کے ایک اجتماع میں ہوئی تھی۔ پھر ہمارے مشترکہ دوست حسین عارف صاحب کے ساتھ اُن سے ملاقاتیں دوستی میں بدل گئیں۔ میرے قیام ِمکہ کے دوران وہ اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت کے لیے جدہ‘ سعودی عرب منتقل ہوئے تھے۔ یہاں انہوں نے بطور پروفیسر کنگ عبدالعزیز یونیورسٹی میں تدریسی فرائض انجام دیے۔ اس دوران گاہے گاہے اُن سے رابطہ رہا۔ پھر جب مجھے تین سال ہیوسٹن میں قیام کا موقع ملا تو وہاں دیرینہ محبتوں کی تجدید ہوئی۔ یہاں پروفیسر مظہر قاضی جناب حسین فاروق مودودی کے ساتھ میرے ہاں تشریف بھی لائے۔ان دنوں وہ اپنے فاضل بیٹے شیخ یاسر قاضی کے ڈیلس میں وِلا سے ملحقہ سکونت رکھتے ہیں۔ میں اُن سے اپنی فیملی کے ساتھ ملنے کے لیے گیا تو بے حد خوشی کا اظہار کیا۔ اُن کی بیگم محترمہ نے بتایا کہ بہت بے چینی سے آپ کا انتظار کر رہے تھے۔ میں اُن کے پاس بیٹھا تھا کہ یاسر بھی آ گئے۔ وہ اپنے والدین کا خاص خیال رکھتے ہیں اور اُن کی اپنے گھر سے ملحقہ رہائش گاہ میں اُن کے لیے خدمتگار وغیرہ کا بندوبست بھی کر رکھا ہے۔ یاسر قاضی کی سعادت مندی دیکھ کر خوشی ہوئی۔ اللہ انہیں اپنے دین کی مزید خدمت کرنے کی ہمت اور توفیق دے‘ آمین‘‘۔
قدرے طویل خط اس لیے قارئین کی خدمت میں پیش کیا تاکہ آپ کو اندازہ ہو سکے کہ شیخ یاسر قاضی نہایت مستند عالمِ دین کے ساتھ ساتھ ''آدابِ فرزندی‘‘ سے بھی بخوبی آگاہ ہیں۔ ہم نے ڈیلس والی ملاقات کے دوران شیخ یاسر قاضی سے امریکہ کے مسلمانوں کے بارے میں استفسار کیا تو انہوں نے اطمینان کا اظہار کیا۔ انہوں نے بتایا کہ کسی زمانے میں یہاں پاکستان اور مصر وغیرہ سے حفاظِ کرام اور امام حضرات تشریف لایا کرتے تھے۔ ایک تو وہ انگریزی زبان سے ناواقف ہوتے تھے‘ دوسرا وہ قرآن وحدیث کے مستند عالم نہ ہونے کے سبب ماڈرن ذہن کے سوالات کے جوابات دے پاتے اور نہ ہی قادر الکلامی کے ساتھ نوجوان امریکی مسلمانوں کے اذہان کو پڑھنے اور اُن کے مسائل کو سمجھنے کی استعداد رکھتے تھے۔ مگر اب تقریباً ہر بڑے امریکی شہر میں مساجد میں امامت خطابت کے فرائض اسلامی سکالرز انجام دیتے ہیں۔ ان سکالرز کے لیکچرز سے سامعین کے دل ودماغ منور ہوتے ہیں۔
یاسر قاضی صاحب سے اسلامی ریاست کی بات ہوئی تو اُن کا کہنا تھا کہ یہ ریاست فی نفسہٖ ویلفیئر ریاست ہوتی ہے۔ جب بات ایک اجتماعی سیاسی جدوجہد کے ذریعے اس ریاست کے قیام کی ہوئی تو قاضی صاحب کا کہنا تھا کہ اس وقت اسلامی دنیا میں اس کے کئی ماڈل دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ملائیشیا اور ترکیہ اسلامی ریاست کے قیام یا نفاذِ اسلام کے لیے تدریجی پالیسی پر عمل پیرا ہیں۔ ترکیہ اور ملائیشیا میں تین کاموں کو بطورِ ترجیح اختیار کیا گیا ہے۔ ترجیح نمبر ایک عدل و انصاف کا قیام۔ (2) شہریوں کے جان و مال کا مکمل تحفظ۔ (3) ہر شہری کے لیے مناسب روزگار کا حصول۔ شیخ یاسر قاضی نے دوسرے ماڈل کا تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ ایک اپروچ یہ ہے کہ اسلام کا نفاذ نیچے سے اوپر تک کیا جائے (یعنی وہی تبلیغی جماعت والا طریق کار کہ پہلے اپنی ذات بدلو پھر خود بخود اوپر‘ حکومتی ایوانوں تک تبدیلی آئے گی) یہاں بات دورِ جدید میں نظامِ اسلامی کے نفاذ کے اہم ترین نکتے تک پہنچ گئی۔
ڈاکٹر بلال حسین کا سوال تھا کہ اس وقت عالم اسلام میں بذریعہ جمہوریت نفاذِ اسلام کے لیے دنیا کے مختلف ملکوں میں سیاسی پلیٹ فارم سے جو کوششیں ہو رہی ہیں اُن کے بارے میں جناب یاسر قاضی نے کہا کہ اس سلسلے میں وہ بصد ادب مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودی اور سیّد قطب وغیرہ سے اختلاف کرتے ہیں۔ اُن کے نزدیک انفرادی حیثیت میں اسلامی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا نام ہی نفاذِ اسلام ہے۔ نوجوان ڈاکٹر بلال کا نقطۂ نظر تو شیخ محترم سے مختلف تھا تاہم انہوں نے شیخ سے مزید اختلاف کرنے کے بجائے اُن کے خیالات سننے کو ترجیح دی۔
عزیزی جمشید صدیقی نے اس ملاقات کا اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے ایک اچھا سامع ہونے پر اکتفا کیا۔ اب بات قومی اور اُمہ شناخت کی شروع ہو گئی۔ شیخ یاسر قاضی نے کہا کہ اُن کے خیال میں ان دونوں شناختوں کے درمیان کسی کشاکش اور مقابلے کے بجائے توازن ہونا چاہیے۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ اپنی قومی شناخت کے حوالے سے میں ایک امریکی ہو سکتا ہوں اور اپنی اسلامی شناخت کے حوالے سے بطور مسلمان فلسطین کے لیے دکھ درد بھی محسوس کر سکتا ہوں۔ یہاں سے سلسلۂ کلام پھر اسلامی ریاست کی طرف مڑ گیا۔ اس موقع پر شیخ یاسر قاضی کا حوالہ آج کے ماہرِ قانونِ اسلامی ستر سالہ ڈاکٹر وائل حلاق کی طرف چلا گیا۔ یاسر قاضی صاحب نے اُن کی ایک کتاب کا بطورِ خاص تذکرہ کیا۔ کتاب کے تذکرے سے پہلے میں آپ سے وائل حلّاق کا مختصر تعارف کروا دوں۔
ڈاکٹر حلاق کو اس وقت اسلامی شریعت اور اسلامک لاء کے بارے میں عالمی سطح پر اتھارٹی تسلیم کیا جاتا ہے۔ وائل حلاق فلسطینی نژاد کینیڈین ہیں اور کولمبیا یونیورسٹی کے شعبہ اجتماعات اور سیاسیات میں پروفیسر ہیں۔ وہ اسلامک لاء کے بھی استاد ہیں۔ ان کے نزدیک استعماری دور میں اسلامی سوسائٹی میں اجتہاد کا دروازہ بند کر دیا گیا تھا۔ اُن کی ریسرچ اور تجزیے کے مطابق یہ دروازہ کھلے گا تو فکرِ اسلامی میں تازہ ہوا کا جھونکا بھی آئے گا اور آج کے مسائل سے علمی اندازہ میں نبرد آزما ہونے کا میکانزم بھی قائم ہو جائے گا۔ شیخ یاسر قاضی نے اُن کی ایک کتاب ''The Impossible State‘‘ کا تذکرہ کیا۔ اس کتاب میں وائل حلاق نے لکھا ہے کہ قومی ریاست کا نعرہ اسلامی خلافت کے نظریے سے ہم آہنگ نہیں۔ ڈاکٹر حلاق کے خیال میں مسلم اکثریت والے ملکوں میں ایسے قوانین لاگو ہونے چاہئیں جن کی اساس اسلامی شریعت ہو اور جن ملکوں میں مسلمان اقلیت میں ہوں وہاں انہیں اسلامک پرسنل لاء کا تحفظ اور تبلیغ اسلام کی آزادی ہونی چاہیے۔
مجھے اس بات سے خوشی ہوئی کہ شیخ یاسر قاضی ایک مغربی ملک میں پلنے بڑھنے اور وہاں اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود ہرگز افرنگی خیالات سے مرعوب نہیں۔ وہ ہر معاملے میں اسلام ہی کو مرجع اوّل سمجھتے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں