اردو شعر و ادب کا ہر طالب علم اور قاری نہ صرف ڈاکٹر خورشید رضوی سے اکتسابِ فیض کرتا ہے بلکہ اُن کا قدر دان اور مداح بھی ہے۔ آج ہم استاذِ مکرم کی ایک حیران کن کتاب سے آپ کا تعارف کروائیں گے۔ خورشید رضوی کے اس مجموعۂ مضامین کا عنوان اپنی ندرت کے اعتبار سے چونکا دینے والا ہے۔ یہ کتاب آج سے کوئی تین برس قبل شائع ہوئی تھی۔ کتاب کا نام ہے ''تالیف‘‘۔اس کتاب کے اولیں قاری گاہے گاہے اس کا تذکرہ کرکے آج کے ادب شناس قارئین کو ان کی محرومی کا احساس دلایا کرتے تھے۔ ''تالیف‘‘ میں کس طرح کے مضامین ہیں‘ اُن کی مہک کا ایک لطیف احساس آپ تک منتقل کرنے سے پہلے میں ایک بار پھر صاحبِ کتاب کے بارے میں تبرکاً کچھ عرض کروں گا۔ ڈاکٹر سید خورشید رضوی آج کے دور کی ایک عظیم علمی و ادبی شخصیت ہیں۔ وہ ایک ایسے عبقری ہیں جن کی ذات میں کئی متنوع رنگ کمال و اتمام کے ساتھ یکجا ہو گئے ہیں۔ وہ عربی زبان و ادب کے استاد ہیں اور انہوں نے عربی ہی میں پی ایچ ڈی کی ہے۔ عرب دنیا میں عربی ادبِ تحقیق کے بعض نامور عرب اساتذہ ایک ''عجمی‘‘ کی عربی دانی دیکھ کر اَش اَش کر اٹھتے ہیں۔ایک شاگرد کے تاثر کو شاید کسی درجے میں مبالغہ آرائی قرار دیا جائے اس لیے میں اپنے راہورِ قلم کو روکتے ہوئے ڈاکٹر خورشید رضوی کے بارے میں اردو زبان و ادب کے ممتاز ادیب اور نقاد اور سابق پرنسپل اورینٹل کالج خواجہ محمد زکریا کی چند سطور یہاں نقل کر رہا ہوں جو انہوں نے ''تالیف‘‘ کے پیش لفظ میں تحریر کی ہیں: ''خورشید رضوی کا تدریسی مضمون عربی ہے مگر قدرت نے اس کو علم و ادب کی وادیوں کا ایک تنوع پسند سیاح بنا دیا ہے۔ نتیجہ یہ کہ وہ عربی کے علاوہ فارسی‘ اردو‘ انگریزی‘ ہندی اور پنجابی زبانوں کی ادبیات سے بہت کچھ ثمریاب ہو چکا ہے۔ زیر نظر مجموعۂ مضامین تالیف میں کل سترہ مضامین شامل ہیں جنہیں تین اصناف میں منقسم کیا جا سکتا ہے۔ پہلے سات مضامین کو تاثراتی سوانحی خاکے کہا جا سکتا ہے۔ اگر یہ کہا جائے کہ یہ ہفت عجائبات ہی تالیف کی جان ہیں تو بعید از انصاف نہیں ہو گا‘‘۔
اس ''ہفت عجائبات‘‘ کے علاوہ کچھ مضامین عربی ادب سے ماخوذ ہیں۔ انگریزی کے ایک خالصتاً سائنسی مضمون ''حیاتِ انسانی کا مقام‘‘ کا خورشید رضوی نے نہایت رواں دواں ترجمہ کیا ہے۔ جو لوگ ڈاکٹر خورشید رضوی کی شاعری کے دل و جان سے مداح ہیں اور نثری شاعری یا شعری نثر نگاری کو نہیں مانتے وہ بھی خورشید رضوی کی نثر پڑھ کر اس صنف ادب پر ''ایمان‘‘ لائے بغیر نہیں رہ سکتے۔استادِ گرامی ممتاز شاعر جناب مجید امجد کو یوں ذکر کرتے ہیں ''... تو میرے ذہن میں معاً ایک کہنہ سال عینک کے سفید شیشوں کے پس منظر میں مجید امجد کی اپنی شبیہ اُبھر آتی ہے۔ جن میں دور دیس سے آئے ایک اجنبی ہنس کی سی خوفزدہ معصومیت کا تاثر ملتا ہے‘‘۔
پھر ڈاکٹر سہیل بخاری کی یاد تازہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں ''ماضی کی گدلی جھیل کو ہلکورا دیتا ہوں تو جا بجا سنہرے بجرے جگمگ جگمگ کرنے لگتے ہیں۔ یہ بجرے ڈاکٹر سہیل بخاری کی یاد دلاتے ہیں جو پی اے ایف کالج سرگودھا سے ریٹائر ہو کر سفید پوشوں کی بستی سیٹلائٹ ٹاؤن کے ایک کرائے کے مکان میں چلے آئے تھے۔ دونوں آبادیوں میں زمین و آسمان کا فرق تھا مگر خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ وہ ''عظمت رفتہ‘‘ کے ذکر سے بے نیاز آب و گِل کے اس کھیل سے بہت بلند اپنے افق پر جگمگاتے رہے‘‘۔
پنجابی کے شہرہ آفاق شاعر انور مسعود 1960ء کی دہائی کے اورینٹل کالج میں خورشید رضوی صاحب کے عزیز ترین دوست تھے۔ اس حوالے سے لکھتے ہیں ''میں جب اپنی زندگی کا ہر لحظہ متغیر سمندر میں نظر دوڑاتا ہوں تو کہیں کہیں کچھ تغیر ناآشنا جزیرے اور روشنی کے کچھ مینار بھی نظر آتے ہیں۔ انہی پائندہ حوالوں میں سے ایک حوالہ انور مسعود کی شخصیت کا ہے جس کے ہونے سے میرے مرجھائے ذہن میں بہارِ رفتہ کی سبزی اور نمی پھر سے دوڑ جاتی ہے اور اس کا وجود مجھے بار بار کالرج کے اس مصرع کا مطلب سمجھاتا رہتا ہے Friendship is a sheltering tree۔
ناصر کاظمی کے بارے میں اپنے مضمون کا آغاز خورشید رضوی یوں کرتے ہیں: ناصر کاظمی پر میری خامہ فرسائی کا یہ مطلب نہیں کہ میں خود کو مرحوم کے شناساؤں میں ثابت کروں۔ وہ میری صورت اور نام تک سے واقف نہ ہوں گے مگر اُن کی ذات میں کچھ ایسی بات تھی کہ سرسری ملاقات میں بھی بھلائی نہیں جا سکتی۔ ایک روز کندیاں میں سٹیشن ماسٹر کے کلرک نے نوجوان طالب علم کو ایک شعر سنایا جس کے بعد خورشید رضوی نے دل میں کہا کہ حالات کی ستم ظریفی دیکھیے کہ جس نے یونیورسٹی کے ایک پروفیسر کو سٹیشن ماسٹر کا کلرک بنا رکھا ہے۔ ذرا ناصر کاظمی کا شعر ملاحظہ فرمائیے جو اس کلرک نے سنایا تھا۔
دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی؍ اس خرابے میں یہ دیوار کہاں سے آئی
تالیف کے مؤلف نے ناصر کاظمی کے ساتھ وولنرہاسٹل لاہور میں ہونے والی یادگار ملاقاتوں کا نہایت دلکش تذکرہ کیا ہے۔ استاد گرامی نے ناصر کاظمی کے بہت سے اشعار کا اپنے مضمون میں نہایت برمحل تذکرہ بھی کیا ہے۔ ان اشعار میں میرا پسندیدہ شعر بھی شامل ہے:
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ؍ عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیران کر گیا وہ
پروفیسر غلام جیلانی اصغر ڈاکٹر خورشید رضوی کے کولیگ اور بعد ازاں پرنسپل تھے اور گورنمنٹ کالج سرگودھا میں میرے انگریزی کے استاد تھے۔ ان کے بارے میں ''جیلانی صاحب‘‘ کے عنوان سے لکھے ہوئے مضمون کی ایک ایک سطر اور ایک ایک لفظ کے بارے میں میرے دل کی گواہی یہ ہے کہ جناب آپ نے بالکل درست تحریر فرمایا ہے۔ خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ اگر مجھ سے پوچھا جائے کہ میں نے سب سے زیادہ براق (Brilliant) ذہن کس کا دیکھا تو میں کہوں گا غلام جیلانی اصغر کا۔ استاذِ گرامی ڈاکٹر غلام جیلانی کا زبانی اور تحریری مزاح باکمال تھا۔ اُن کے مزاح میں حزینہ اور کئی فکر انگیز پہلو تھے۔ مضمون میں ڈاکٹر خورشید رضوی لکھتے ہیں کہ ''جیلانی صاحب کے پرانے شاگرد حسین احمد پراچہ طویل عرصے کے بعد سعودی عرب سے آئے تو جیلانی صاحب سے ملاقات کے دوران انہوں نے پوچھا ''جیلانی صاحب! آپ کی وہ لمبی لمبی مارننگ واکس اب تک جاری ہیں؟ جیلانی صاحب نے برجستہ جواب دیا: Yes my boy, and I'm afraid one fine morning I am going to walk into my grave۔ غور فرمائیے یہ جملہ کس قدر Lightاور کتنا Graveہے۔ جیلانی صاحب بہت اچھے شاعر تھے۔ شاعری میں انہوں نے مزاح کا پردہ درمیان میں نہیں رکھا بلکہ انہوں نے جیسا محسوس کیا ویسا بیان کر دیا۔ ان کی ایک آزاد نظم ملاحظہ کیجئے:
دل کہ آدابِ سیاست سے بہت واقف ہے؍ خود تو رو لیتا ہے سینے کے نہاں خانے میں؍ آنکھ بدنام یونہی ہوتی ہے؍ اس کو معلوم نہیں؍ اشک بہہ جائے تو اک قطرہ ہے؍ اور رہ جائے تو اک موتی ہے
خورشید رضوی لکھتے ہیں: مجھے محسوس ہوتا تھا کہ سرگودھا کے اس سقراط کا ذہن Timelessہے۔
''تالیف‘‘ میں علامہ عبدالعزیز میمن‘ ڈاکٹر پیر محمد حسن‘ سید ضمیر جعفری کے ساتھ بالمشافہ ملاقاتوں کی یادوں کے علاوہ ڈاکٹر طہٰ حسین‘ اقبال اور دنیائے عرب‘ نجیب محفوظ وغیرہ کے بارے میں بھی مضامین شامل ہیں۔ میں نے تو کتاب کی دل آویز مہک کا ایک تاثر آپ تک پہنچایا ہے۔ آپ قلم فاؤنڈیشن کی شائع کردہ دیدہ زیب اور دلچسپ کتاب پڑھیے اور نئی نئی دنیائیں دریافت کیجیے۔