وزیراعلیٰ پنجاب محترمہ مریم نواز صاحبہ نے اپنی ٹیم کے ہمراہ جاپان کا تفصیلی مطالعاتی دورہ کیا ہے۔ وہ پنجاب کو جاپان بنانے میں بہت پُرجوش دکھائی دیتی ہیں۔ وزیراعلیٰ پنجاب یقینااپنے دورے کے اہداف‘ اثرات اور نتائج وغیرہ کے بارے میں تفصیل سے پنجاب کے عوام کو آگاہ کرنا چاہتی ہوں گی مگر اس وقت پنجاب کے مختلف علاقے زیرِ آب آ چکے ہیں اور کئی دیہات اور شہروں میں سیلابی ریلے بہت کچھ بہا کر لے جا رہے ہیں‘ لہٰذا یہ وقت جاپان کی کہانی سنانے کیلئے مناسب نہیں۔ یوکو ہاما میں محترمہ نے کوڑے کو ٹھکانے لگانے اور اس سے انرجی پیدا کرنے کے منصوبے کی تفصیلات سے آگہی حاصل کی نیز استعمال شدہ پانی کو دوبارہ قابلِ استعمال بنانے کے ٹریٹمنٹ پلانٹس کے بارے میں بھی گہری دلچسپی کا اظہار کیا۔ محترمہ نے اوساکا سٹائل ماڈرن ٹیکنالوجی کے حصول کے بارے میں بھی معلومات لیں تاکہ لاہور اور اسلام آباد کے درمیان تیز رفتار ٹرین چلائی جا سکے۔وزیراعلیٰ نے ٹریفک کنٹرول کا جدید ترین نظام بھی دیکھا‘ سمجھا اور اسے پنجاب بالخصوص لاہور میں فوری طور پر اختیار کرنے کا ارادہ بھی ظاہر کیا۔ محترمہ کو شاید یہ بھی بتایا گیا ہو گا کہ جاپان میں ڈرائیونگ لائسنس کا حصول دنیا میں مشکل ترین ہے جبکہ ہمارے ہاں غیر لائسنس یافتہ ڈمپر ڈرائیور روزانہ لوگوں کو کچل دیتے ہیں۔ وفد نے آبادی کے لحاظ سے دنیا کے سب سے بڑے شہر ٹوکیو کی زبردست پلاننگ کے بارے میں وہاں کے ڈپٹی گورنر سے تفصیلی بریفنگ لی۔ ٹوکیو کی آبادی پونے چار کروڑ ہے۔ اتنی بڑی آبادی والے شہر میں کبھی صاف پانی کا مسئلہ پیدا ہوتا ہے نہ ہی سڑکوں میں گڑھے اور شگاف پڑتے ہیں۔ نہ ہی ایک بارش کے بعد رات رات بھر ہزاروں گاڑیاں پانی میں پھنسی رہتی ہیں۔ نہ پائے رفتن نہ جائے ماندن۔
جاپان بنیادی طور پر گاڑیاں‘ ریل گاڑیاں اور کمپیوٹر وغیرہ بنانیوالا ایک صنعتی ملک ہے مگر جاپان میں جدید ترین ٹیکنالوجی کے ذریعے زراعت کے شعبے میں بھی بڑے بڑے کرشمے رونما ہو رہے ہیں۔ اسی طرح ڈیری سیکٹر میں بھی سو فیصد خالص دودھ‘ دہی‘ پنیر اور مکھن وغیرہ نہ صرف جاپان کی ضروریات کیلئے پیدا کیا جا رہا ہے بلکہ ان اشیا کو بیرونِ ملک برآمد بھی کیا جاتا ہے۔ اس سیکٹر میں بھی پنجاب کی وزیراعلیٰ نے گہری دلچسپی لی اور ٹوکیو کے ڈپٹی گورنر کو پنجاب میں زراعت اور لائیو سٹاک میں سرمایہ کاری کی دعوت دی۔ ہمارے حکمران جس ملک میں جاتے ہیں وہاں سے زبردست موٹیویٹ ہو کر آتے ہیں اور اپنے ملک میں بھی اسی ترقیاتی ماڈل کو فوری طور پر اختیار کرنیکی خواہش کا اظہار کرتے ہیں۔ یقینا یہ ایک قابلِ قدر جذبہ ہے۔ عمران خان جب چین گئے تھے تو وہاں کی محیر العقول ترقی دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور واپسی پر انہوں نے پاکستان کو چین بنانے کی خواہش کا اظہار کیا تھا اور پھر رات گئی بات گئی۔ آج ہم آپ کو دو اہم نکتے بتائینگے۔ پہلا تو یہ کہ ہمارے ہاں ترقی کا ہر ماڈل فیل کیوں ہو جاتا ہے؟ دوم‘ جاپان کی ترقی کا اصل راز کیا ہے؟ ہمارے ہاں ہر ماڈل اس لیے فیل ہو جاتا ہے کہ ہم سمجھتے ہیں کہ محض ٹیکنالوجی کے آنے سے فوری ترقی ہو جاتی ہے‘ لیکن ایسا ہر گز نہیں۔ ترقی محض ٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ اس تعلیم و تربیت سے ہوتی ہے جو وہاں کے ورکروں کے اندر رچ بس چکی ہوتی ہے۔ حالیہ سیلاب نے ہماری نااہلیت‘ کرپشن‘ قانون کی کھلم کھلا خلاف ورزی کو آشکار کر دیا ہے۔ میں اپنی معلومات سے نہیں موجودہ حکمرانوں کی زبان سے بدعنوانیوں کی کچھ تہہ در تہہ داستانیں مختصراً آپ کو سناتا ہوں۔ وزیر دفاع خواجہ محمد آصف ان دنوں 'فقیہ مصلحت بیں‘ کے بجائے وہ' رندِ بادہ خوار‘ بنے ہوئے ہیں جو سر عام سچی بات کا نہ صرف اعتراف کرتا ہے بلکہ اس کا اعلان بھی کرتا ہے۔ بقول مولانا ظفر علی خان:
نکل جاتی ہو سچی بات جس کے منہ سے مستی میں
فقیہِ مصلحت بیں سے وہ رندِ بادہ خوار اچھا
27 اگست کو سیالکوٹ میں سیلاب زدہ علاقوں کا دورہ کرنے کے بعد خواجہ آصف نے کہا‘ کرپشن کی حد ہو گئی ہے۔ تمام سڑکیں بہہ گئیں‘ جو کام سویلین اداروں کے کرنے کے تھے وہ انہوں نے نہیں کیے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں ایس ڈی او‘ ایکسین یا ٹھیکیدار کو۔ سیالکوٹ میں تباہی کی بڑی وجہ نالوں پر تجاوزات ہیں۔ کرپشن کے ان کاموں میں سرکاری اہلکار ملوث ہیں۔ نالوں پر ہی تجاوزات کراچی کی تباہی‘ سوات میں بے پناہ جانی و مالی نقصان اور لاہور میں سیلابی خطرات کا سب سے بڑا سبب ہیں۔ ایک طرف وزیر دفاع کی مایوسی دیکھیے تو دوسری طرف وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا یاس انگیز بیان بھی سنیے‘ چند سطروں میں ہماری کئی دہائیوں سے بربادی کی داستان بیان کر دی ہے۔ باہر سے کسی کے کچھ کہنے کی گنجائش باقی نہیں رہی۔ 2022ء کے سیلاب کے حوالے سے وزیر خزانہ نے کہا کہ عالمی ڈونرز کے وعدوں کو حقیقت کا روپ دینے کیلئے ہم قابلِ عمل منصوبے پیش نہیں کر سکے‘ پائیدار معاشی استحکام کیلئے سب کو مل کر کام کرنا ہو گا۔ بڑھتی آبادی اور قدرتی آفات تو معیشت کیلئے بڑے چیلنج ہیں مگر سرکاری اداروں میں کرپشن ہمارا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ 2025ء میں ڈونرز نے تقریباً گیارہ ارب ڈالر کے وعدے کیے تھے مگر ہم صرف 20فیصد رقم ہی حاصل کر سکے کیونکہ باقی ماندہ رقم کیلئے ہم کوئی قابلِ عمل پروجیکٹ ہی پیش نہ کر سکے۔ 28اگست کو وزیر اطلاعات نے انتہائی ندامت سے اطلاع دی کہ گریڈ 20سے 22تک کے سینکڑوں افسران بینظیر انکم سپورٹ پروگرام سے ''امداد‘‘ حاصل کرتے رہے ہیں۔ یہ ہیں ہماری کرپشن کی حقیقی داستانیں۔
اب آئیے جاپان کی ترقی کا راز جانتے ہیں۔ ممتاز جاپانی پروفیسر اوماہے نے ٹوکیو اور امریکہ کی یونیورسٹیوں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ وہ جاپان سمیت بہت سے ملکوں اور کمپنیوں میں مشیر برائے معیشت اور تیز رفتار ترقی ہیں۔ اوماہے نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف ''جاپان کی ترقی کا راز‘‘ میں لکھا ہے کہ دنیا کا خیال ہے کہ جاپان کی زبردست ترقی کا راز ہماری ٹیکنالوجی‘ یا ہمارے ہنر مندوں کی مہارت‘ یا ہمارا مالیاتی سسٹم ہے۔ ہرگز ایسا نہیں‘ جاپان کی زبردست ترقی کا راز ہمارا طرزِ تعلیم ہے۔ اوماہے آگے بیان کرتا ہے کہ جب ایک جاپانی بچہ کنڈر گارٹن سکول جاتا ہے تو وہاں کے ماہر ٹیچرز کھیل ہی کھیل میں بچے کو سب سے پہلے ایک حقیقت سمجھاتے اور پھر اسے حروف ابجد اور گنتی سکھاتے ہیں۔ وہ اساتذہ کنڈر گارٹن کے بچے کو سمجھاتے ہیں کہ دیکھو بچو‘ جاپان ایک ایسا ملک ہے کہ جس میں قدرتی وسائل‘ لوہا‘ تانبا وغیرہ نہیں۔ اس لیے ہم صرف ایک ہی طریقے سے آگے بڑھ سکتے ہیں کہ ہم ساری دنیا سے خام مال منگوائیں اور اس سے اپنے علم اور مہارت سے چیزیں بنائیں اور دنیا کو منافع پر فروخت کریں۔ اوماہے نے یہ بھی لکھا کہ سکول میں ہر جاپانی بچے کیلئے اپنی زبان میں ایک جیسی تعلیم ہے۔ اس میں امیر غریب کا کوئی فرق نہیں۔ بچہ جب چھ برس کا ہوتا ہے تو بچے کی رہائش والے علاقے کی ٹیچر آ کر بچے کو سکول لے جاتی اور گھر والوں کو گلاب کا ایک پھول پیش کر جاتی ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ اب بچہ جانے اور نہایت محبت کرنے والی سکول ٹیچرز جانیں۔ ماں باپ اپنا اپنا کام کریں۔محترمہ مریم نواز نے بہت سے شعبوں کے بارے میں بریفنگ لی مگر جاپان کی ترقی کے اصل راز‘ اپنی زبان میں سو فیصد بچوں کیلئے یکساں نظام تعلیم کے بارے میں معلومات لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ ایک ہم ہیں کہ جہاں صرف پنجاب میں ایک کروڑ بچے سکول ہی نہیں جاتے۔ ہم شاید دنیا کا واحد ملک ہیں جنہوں نے اپنی تعلیم کو آؤٹ سورس کر رکھا ہے۔ طبقاتی تعلیم امیر کیلئے الگ غریب کیلئے الگ۔ ان حالات میں آپ چینی ماڈل لائیں یا جاپانی ٹیکنالوجی‘ ہم اپنی کرپشن اور نااہلیت سے ہر کسی کا حلیہ بگاڑ دیں گے۔ ہماری تنزلی کا راز کرپشن اور جہالت ہے جبکہ جاپان کی ترقی کا راز اس کا نظامِ تعلیم ہے۔