اخراج اور بائیکاٹ کی سیاست

بالآخر وہی کچھ ہوا جس کا ڈر تھا۔ گلگت بلتستان اسمبلی کے وزیراعلیٰ اور پی ٹی آئی کے بہت سے ارکانِ اسمبلی نے فارورڈ بلاک بنا لیا‘ اور اس کارروائی کا نوٹس لیتے ہوئے پی ٹی آئی کے ایڈیشنل سیکرٹری جنرل فردوس شمیم نقوی نے گلگت بلتستان کے پی ٹی آئی سے وابستہ وزیراعلیٰ گُل بار خان سمیت گیارہ ارکانِ اسمبلی کو نوٹس دیتے ہوئے انہیں پارٹی سے خارج کر دیا ہے۔
اس موضوع پر بات کرنے سے پہلے ہم علیمہ خان کی توہین کرنے کی شدید مذمت کرتے ہیں۔ بقول خواجہ سعد رفیق علیمہ خان کو انڈا مارنا شرمناک اور گھٹیا پن ہے۔ اس سے پہلے میاں نواز شریف پر جوتا اچھالنے اور خواجہ محمد آصف پر سیاہی پھینکنے کی بھی ہم نے مذمت کی تھی۔ یہ معاشرہ تمام تر سیاسی اختلافات کے باوجود خواتین کی عزت و حرمت پر یقین رکھتا ہے‘ لہٰذا اس حرمت کی ہرگز ہرگز پامالی نہیں ہونی چاہیے۔ اسی طرح اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی کے کارکنوں نے پیر کے روز صحافیوں سے ہاتھا پائی کی‘ یہ بھی قابلِ مذمت ہے۔
بات ہو رہی تھی گلگت بلتستان کے وزیراعلیٰ اور دیگر ارکانِ اسمبلی کے پی ٹی آئی سے اخراج کی۔ ان ارکان کو دیے جانے والے نوٹس میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پارٹی پالیسی کے خلاف ووٹ دینے اور فارورڈ بلاک بنانے کے خلاف قانونی چارہ جوئی بھی کی جائے گی جو ان کی اسمبلی رکنیت کی تنسیخ بھی ہو سکتی ہے۔ ہمیں برصغیر پاک و ہند کی بہت سی اہم جماعتوں کے صدر اور مرکزی مجلسِ مشاورت کے اہم ارکان کے ایام اسیری کی داستانیں پڑھنے کا موقع ملا ہے۔ زعما جیل کے اندر بیٹھ کر پارٹی کے معاملات نہیں چلاتے تھے۔ ملک کی سیاسی تاریخ میں جماعت اسلامی کے امیر مولانا سیّد ابوالاعلیٰ مودودیؒ کے بارہا جیل جانے کی روداد بھی پڑھی ہے۔ مولانا اپنے ایام اسیری میں زنداں کے اندر سے پارٹی کے روزہ مرہ معاملات کے بارے میں فیصلے صادر نہیں فرمایا کرتے تھے بلکہ باہر موجود قیادت اور مجلسِ مشاورت کو فیصلے کرنے کا مکمل اختیار تھا۔ جیل کے اندر جب تحریک انصاف کے بانی نے محسوس کیا کہ ضمنی انتخابات کے بارے میں پارٹی کے اندر اچھے خاصے اختلافات ہیں تو انہوں نے پارٹی کی سیاسی کمیٹی سے کہا کہ وہ گہرے غور و فکر کے بعد فیصلہ کرے کہ ان انتخابات میں حصہ لینا چاہیے یا نہیں۔ پی ٹی آئی کی 20رکنی کمیٹی کے 12ارکان نے ضمنی انتخابات میں حصہ لینے کے حق میں فیصلہ دیا۔ ان کی رائے یہ تھی کہ مخالفین کیلئے انتخابی میدان کھلا نہیں چھوڑنا چاہیے‘ نیز عوام سے رابطے کا یہ سنہری موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔اس کے بعد عمران خان نے جیل سے سیاسی کمیٹی کو پیغام دیا کہ وہ اپنے فیصلے کا دوبارہ جائزہ لے۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ببانگ دہل کہا کہ خیبرپختونخوا کو چھوڑ کر باقی ہر جگہ ضمنی الیکشن کا بائیکاٹ کیا جائے۔ اب یہ بیچاری سیاسی کمیٹی بانی کے حکم کی تعمیل کرنے کے علاوہ اور کیا کر سکتی تھی۔ اس طرح کے زنداں سے جاری کردہ فرامین سے پارٹی کے اندر کنفیوژن اور بددلی پھیلتی ہے۔ بظاہر خان صاحب اپنے ہر معتمد پر آدھا اعتماد کرتے ہیں جو انگریزی محاورے کے مطابق بے اعتمادی کے مترادف ہوتا ہے۔ بانی کے حکم پر قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں سے پی ٹی آئی کے چیئرمین مستعفی ہو چکے ہیں۔ قارئین کو بتا دوں کہ اسمبلی کی قائمہ کمیٹیاں ہی بڑے بڑے فیصلے کرتی ہیں اور حکومت کو ان فیصلوں کی پابندی کرنا پڑتی ہے۔ پی ٹی آئی کا سب سے حیران کن فیصلہ پبلک اکاؤنٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ سے استعفیٰ ہے۔ یہی کمیٹی حکومت سے ایک ایک پیسے کا حساب لیتی ہے اور حکومت کی شہ خرچیوں پر نظر رکھتی ہے۔ سیاسی جماعتوں کی یہ بھی روایت رہی ہے کہ جنگ اور قدرتی آفات کے موقع پر تمام تر سیاسی اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے مگر پی ٹی آئی نے کئی ہفتے قبل پاکستان کے مختلف صوبوں میں آنے والے تیز رفتار سیلابوں اور شدید نوعیت کی بارشوں سے ہونی والی تباہی اور حفاظتی اقدامات کے بارے میں نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے چیئرمین کی بریفنگ کا بھی بانی کے احکامات پر بائیکاٹ کیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اس سے چند منٹ پہلے ہی پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے ساتھ مل کر اسمبلی میں مشترکہ طور پر سیلاب زدگان کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کا اعلان کیا تھا۔
پی ٹی آئی کی بہت سی شکایات درست بھی ہو سکتی ہیں۔ پارٹی سمجھتی ہے کہ 2024ء کے انتخابات میں خیبرپختونخوا کے علاوہ باقی ہر جگہ دھاندلی ہوئی ۔ پی ٹی آئی کا کہنا یہ ہے کہ بانی سمیت اس کے بہت سے سینئر رہنما جن میں شاہ محمود قریشی اور ڈاکٹر یاسمین راشد بھی شامل ہیں‘ عرصہ دو سال سے جیل میں قید بے جا ہیں۔ اسی طرح پی ٹی آئی کو جلسوں جلوسوں کی اجازت بھی دی جانی چاہیے۔ پی ٹی آئی کی طرف سے اگر پُرامن جلسوں کی یقین دہانی کرا دی جائے تو پھر انہیں جلسے کی اجازت نہ دینے کا جواز نہیں رہتا۔ ہماری نہیں پی ٹی آئی کے بہت سے اہلِ فکر کی بھی روز اوّل سے رائے رہی ہے کہ پی ٹی آئی کو پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلیاں توڑنی چاہیے تھیں اور نہ ہی قومی اسمبلی میں عدم اعتماد کے بعد اس سے باہر آنا چاہیے تھا۔ اب بھی پی ٹی آئی کو دیگر اپوزیشن پارٹیوں کے ساتھ مل کر اسمبلیوں بالخصوص قومی اسمبلی کی کارروائی میں بھرپور دلچسپی لینی چاہیے۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹیوں کے بعد بانی اپنی پارٹی کے تمام ارکانِ اسمبلی کو مستقلاً ایوان چھوڑنے کا حکم بھی دے سکتے ہیں۔ ملک کی سیاسی تاریخ گواہ ہے کہ جس نے انتخاب یا ایوان کے مستقل بائیکاٹ کا فیصلہ کیا وہ بعد میں پچھتایا۔ میں صرف ایک ہی مثال دوں گا۔ 1985ء میں جنرل ضیا الحق کے غیر جماعتی انتخابات کا پیپلز پارٹی نے بائیکاٹ کیا۔ انتخاب کے بعد پیپلز پارٹی بہت پچھتائی کہ جن سیٹوں پر اس کی کامیابی یقینی تھی وہاں کچھ اور امیدواروں نے آ کر ڈیرا ڈال دیا۔ وہاں کے ووٹروں نے بھی پی پی پی کے بجائے اب اُن امیدواروں کے ساتھ اپنی قسمت وابستہ کر لی۔ انتخابی حلقوں والی سیاست میں اگر حلقہ چھوڑا جائے تو پھر فارسی کی مثل کے مطابق ''خانۂ خالی را دیومی گیرد‘‘ والا معاملہ ہو جاتا ہے۔
پی ٹی آئی کے لیے ہمارا مشورہ ہوگا کہ وہ اپنے ممبرانِ اسمبلی اور ووٹروں کی دل جوئی اور حوصلہ افزائی کرے۔ دوسروں کیلئے میدان خالی چھوڑنے سے ارکانِ اسمبلی میں مایوسی پھیل جاتی ہے اور ان کے ادھر اُدھر اور تتر بتر ہونے کا خدشہ بڑھ جاتا ہے۔ سیاسی عمل کا بائیکاٹ یقینا ملک اور جمہوریت کیلئے سخت نقصان دہ ثابت ہو سکتا ہے۔ انتخاب اور ایوان کا بائیکاٹ کرنے والی پارٹی کیلئے بھی یہ مستقبل کی سیاست کے حوالے سے نہایت خسارے کا سودا ہے۔ پی ٹی آئی کو اپنی اجتماعی دانش پر اعتماد کرنا چاہیے۔
دوسری طرف اب تک ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں۔ سیلاب زدگان کی مرکزی و صوبائی حکومتیں اور فوج دستگیری کر رہی ہے مگر بحیثیت جماعت صرف جماعت اسلامی ان مصیبت زدگان کی مدد کر رہی ہے۔ دیگر جماعتوں کو بھی بڑھ چڑھ کر اس کارِ خیر میں شامل ہونا چاہیے۔حکومت میں موجود سیاسی جماعتوں کو بھی اس حقیقت کا ادراک کرنا چاہیے کہ ملک سیلابوں اور بارشوں کی لپیٹ میں ہے‘ معیشت مستحکم نہیں‘ بہت بڑی مقدار میں فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔
اُدھر بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں امن و امان کی صورتحال مخدوش ہے۔ ان حالات میں اجتماعی ملکی معاملات کے بارے میں انتشار کی نہیں اتحاد کی پالیسی ہونی چاہیے۔ حکمران سیاسی جماعتوں کا اقتدار بھی جمہوریت سے وابستہ ہے۔ حکومت اور تحریک انصاف دونوں کو جمہوریت کی فکر کرنی چاہیے۔ موجودہ حالات کے تناظر میں حکومت صدقِ دل کے ساتھ اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت دے اور پی ٹی آئی کو بائیکاٹ کی سیاست کو خیرباد کہنا چاہیے کہ اسی میں ملک و قوم کا بھلا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں