امن کیلئے ویٹو کا خاتمہ ضروری

نیویارک میں تقریباً ایک ہفتے سے جنرل اسمبلی اجلاس کے نام پر جو عالمی میلہ سجا ہوا ہے اس میں سنجیدہ اور مزاحیہ دونوں قسم کی باتیں ہو رہی ہیں۔ یو این او کے اجلاس میں زعما کے خطابات بھی ہو رہے ہیں اور سائیڈ لائن پر ملاقاتیں بھی ‘ مگر زمینی حقائق یہ ہیں کہ اسرائیل مسلسل بلاجھجک غزہ کے مظلوم انسانوں پر بمباری کر رہا ہے‘ زمین سے گولہ باری کر رہا ہے اور بھوک سے اہلِ غزہ کی نسل کشی کر رہا ہے۔ جتنی دیر میں یہ عالمی لیڈران کرام ارضِ فلسطین کا کوئی عارضی یا دائمی حل نکالیں گے اتنی دیر میں بیچارے اہلِ غزہ کی بہت بڑی تعداد دم توڑ کر رزقِ خاک بن چکی ہو گی۔ اس وقت تک غزہ کے 66 ہزار سے زائد انسان لقمۂ اجل بن چکے ہیں‘ زخمیوں کی تعداد ڈیڑھ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ اس دوران غزہ سے آن لائن بہت سے پیغامات آ رہے ہیں کہ موت نے ہمیں چاروں طرف سے گھیر رکھا ہے۔
23 ستمبر کو جنرل اسمبلی میں دلچسپ‘ متضاد‘ مزاحیہ اور کہیں کہیں سنجیدہ اور رنجیدہ خطاب امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا تھا۔ انہوں نے عالمی ایلیٹ فورم میں اپنے اور اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کے علاوہ تقریباً ہر ادارے اور ہر شخص پر تنقید کی۔ ڈونلڈ ٹرمپ نے اپنے خطاب میں ان شخصیات پر بھی تنقید کے نشتر برسائے جو ان کے دائرہ کار میں آتی تھیں اور نہ ہی اقوام متحدہ کو ان سے کوئی سروکار تھا۔ انہوں نے یورپی حکومتوں پر تنقید کی کہ وہ تارکین وطن کو قبول کر کے اپنے مغربی کلچر کو برباد کر رہی ہیں۔ ٹرمپ مسلسل کئی روز سے لندن کے میئر صادق خان پر تنقید کرتے چلے آ رہے ہیں۔ انہوں نے بکنگھم پیلس لندن میں کنگ کی طرف اپنے اعزاز میں دی جانے والی دعوت میں بھی صادق خان پر شدید تنقید کی تھی۔ اب انہوں نے جنرل اسمبلی میں بھی وہی روش جاری رکھی۔ یہ صادق خان کی نہیں لندن کے ووٹروں کی توہین ہے جنہوں نے مسلسل تیسری مرتبہ صادق خان کو ان کی بلندیٔ کردار کی بنا پر اپنا میئر منتخب کیا ہے۔ برطانوی وزیراعظم کیئر سٹارمر نے ڈونلڈ ٹرمپ کے جنرل اسمبلی میں لندن کے میئر پر لگائے گئے الزامات کو جھوٹ اور بے بنیاد قرار دیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ صادق خان بہت اچھے میئر ہیں۔ امریکی صدر کی اصل پریشانی یہ ہے کہ اب نیویارک کا میئر بھی ایک مسلمان ظہران ممدانی منتخب ہونے والا ہے۔ممدانی نے بھی اعلان کر رکھا ہے کہ وہ منتخب ہو کر بچوں کے قاتل نیتن یاہو کو نیویارک نہیں آنے دیں گے۔ جس افریقہ اور ہندوستان پر برطانیہ نے ایک صدی سے زیادہ حکمرانی کی ہے‘ اس کے تارکینِ وطن کو برطانیہ نے اپنے ملک کی تعمیر و ترقی کیلئے خود خوش آمدید کہا تھا۔ اس وقت برطانیہ کی ہوم سیکرٹری (وزیر داخلہ) پاکستانی نژاد شبانہ محمود ہیں۔ یہ لوگ وہاں کے سماج میں رچ بس گئے ہیں اور گوروں میں بھی نہایت عزت و احترام سے دیکھے جاتے ہیں۔ اخلاص کے ساتھ دل و جان سے خدمت کرتے ہیں اس لیے لوگ انہیں ووٹ دیتے ہیں۔ امریکی صدر نے موسمیاتی تبدیلیوں اور ان کے خطرناک نتائج کو بھی بکواس قرار دیا ہے۔ پاکستان جیسے ملک جو براہِ راست موسمیاتی تبدیلیوں کے نشانے پر ہیں ان سے پوچھئے کہ فی الواقع یہ تبدیلیاں ہوئی ہیں یا نہیں۔ امریکی صدر کی طرف سے موسمیاتی تبدیلیوں کا سرے سے انکار انتہائی خطرناک ہے۔
جنرل اسمبلی میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب کا دلچسپ ترین نکتہ وہ تھا جب انہوں نے کہا کہ اقوام متحدہ کا مقصد کیا ہے؟ اقوام متحدہ کا مقصد تو قیامِ امن ہے مگر وہ اس مقصد میں ناکام ہوا ہے۔ یو این او جنگوں کو نہیں رکوا سکا۔ یو این او کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کا ساری جنگوں کے دوران کردار مثالی رہا۔ انہوں نے نیتن یاہو پر شدید تنقید کی اور مظلوم اہلِ غزہ کے ساتھ یکجہتی کا ثبوت دیا۔ ٹرمپ کہتے ہیں کہ قراردادیں اقوام متحدہ منظور کرتی ہے مگر اُن کا بوجھ عالمی ادارہ برائے امن پر نہیں مجھ پر یا امریکہ پر آن پڑتا ہے۔
یہی سوال دنیا میں ہر صاحبِ احساس و ادراک کے دل و دماغ میں کلبلا رہا ہے مگر حیران کن بات یہ ہے کہ جو شخص غزہ میں مظلوم عوام کی نسل کشی کرنے والے صہیونی وزیراعظم نیتن یاہو کو شہ دے رہا ہے‘ جواب تو اسے دینا چاہیے مگر الٹا وہ الزام اس ادارے کے سر دھر رہا ہے جو امن کیلئے سر توڑ کوشش کر رہا ہے۔ جب دنیا کی سب سے بڑی فوجی اور اقتصادی قوت سلامتی کونسل کے ذریعے عالمی ادارۂ امن یو این کو عملاً اپاہج کر دیا گیا ہے۔ عملاً یورپی ممالک بھی اس عالمی ادارۂ امن کی تباہ حالی میں بڑی حد تک شریک ہے۔ دنیا کو اقوام متحدہ کی غیرمؤثر پرفارمنس کا تجزیہ کرنا چاہیے۔ اب غزہ میں نیتن یاہو گزشتہ اڑھائی برس سے جو کشت و خون کر رہا ہے‘ وہ ساری دنیا کے حکمران دیکھ رہے ہیں اور اپنی بے بسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
غزہ کی جنگ رکوانے کیلئے عالمی برادری نے کم از کم چھ بار فوری سیز فائر کی قرار دادیں منظور کیں اور ہر بار امریکہ نے اپنا ویٹو کا حق استعمال کرتے ہوئے نہ وہاں امن قائم ہونے دیا‘ نہ جنگ رکوائی اور نہ ہی اہلِ غزہ کا غذائی محاصرہ ختم کروایا۔ یو این او کی 80 سالہ تاریخ میں چھ بار مسلسل ویٹو استعمال کرکے ڈونلڈ ٹرمپ نے نیا ریکارڈ بنایا۔ اس سے پہلے کبھی ایسا نہیں ہوا۔ یو این او کے ارکان کو سکیورٹی کونسل کے سٹرکچر پر بطورِ خاص نظرثانی کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ قیام امن اور انسانوں کے جمہوری کلچر کا تقاضا ہے کہ اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل میں ویٹو کا حق ختم کر دیا جائے۔
میں ذرا قارئین کو یاد دلا دوں کہ سکیورٹی کونسل کے ممبران کی کل تعداد 15 ہے۔ اس کے پانچ ممالک مستقل ممبران ہیں۔ ان میں چین‘ برطانیہ‘ فرانس‘ روس اور امریکہ شامل ہیں۔ ان پانچ ممبران کے پاس ویٹو کا حق بھی ہوتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کل پندرہ میں سے 14 ارکان کسی معاملے میں یک زباں ہوں تو ویٹو والا کوئی ایک ملک ویٹو استعمال کرکے اس کثرت کو بے معنی بنا دیتا ہے۔ پانچ تو مستقل ممبران اور باقی دس ہر دو سال کے بعد بدلتے رہتے ہیں۔ ان دنوں پاکستان بھی سکیورٹی کونسل کا ممبر ہے۔ سکیورٹی کونسل میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار احمد وہاں فریضۂ حق گوئی پوری جرأت سے ادا کر رہے ہیں۔
صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے خطاب میں جابجا متضاد باتیں کہی گئی ہیں۔ ایک طرف اقوام متحدہ کو اس کی اصل ذمہ داری قیام امن یاد کراتے ہیں اور دوسری طرف سکیورٹی کونسل میں سیز فائر کی ہر قرارداد مسترد کر دیتے ہیں۔ ایک طرف تو وہ کہتے ہیں کہ غزہ میں اب جنگ بندی ہو جانی چاہیے تو دوسری طرف یرغمالیوں کی رہائی کی بات تو کرتے ہیں لیکن غزہ میں دم توڑتے ہوئے انسانوں کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ڈونلڈ ٹرمپ نے اقوام متحدہ اجلاس کی سائیڈ لائن پر آٹھ بڑے عرب اور مسلم ممالک کے حکمرانوں سے ملاقات بھی کی اور امن کے قیام کیلئے ان سے اچھی امیدیں وابستہ کیں مگر دوسری طرف اُن سے غزہ کو اس کے فلسطینی مکینوں سے خالی کروانے کا مطالبہ کر دیا۔ اس ناممکن مطالبے کو عرب اور مسلم زعما نے بالکل مسترد کر دیا ہے۔ عرب اور مسلمان ملکوں کو امریکہ سے جنگ بند کروانے کا مطالبہ تو ضرور کرنا چاہیے مگر انہیں اپنے حصے کا کام پہلے کر لینا چاہیے۔ عرب اور مسلم ملکوں کے سربراہوں کو فی الفور اسرائیل کے ساتھ ہر طرح کے تجارتی‘ سفارتی اور سیاسی تعلقات منقطع کر لینے چاہئیں۔
عربوں کو یہ بات تو اب تک سمجھ آ چکی ہو گی کہ غزہ میں جنگ بندی کی چابی جنرل اسمبلی یا سکیورٹی کونسل کے پاس نہیں۔ اس کی چابی صرف اور صرف ایک شخص کے پاس ہے اور وہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے۔ نیتن یاہو سے غزہ میں معصوم انسانوں کی نسل کشی فی الفور رکوانے کیلئے ڈونلڈ ٹرمپ کا صرف ایک اشارۂ ابرو کافی ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں