تازہ ترین عالمی پاسپورٹ ریٹنگ کے مطابق پاکستانی پاسپورٹ ایک بار پھر کمزور ترین تین چار پاسپورٹوں میں شامل ہے۔ عالمی پاسپورٹ ریٹنگ میں دنیا کے 106 ملکوں میں پاکستان کا نمبر 103 ہے۔ پاکستان سے نیچے عراق‘ شام اور سب سے نیچے 106ویں نمبر پر افغانستان ہے۔ ہینلے پاسپورٹ انڈیکس کی ریٹنگ نہایت بااعتماد سمجھی جاتی ہے۔ دراصل پاسپورٹ ریٹنگ وہ آئینہ ہے جس میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ دنیا کی نگاہ میں آپ کہاں کھڑے ہیں۔ اس ریٹنگ کا کیا معیار ہے؟ یہ ایک دلچسپ مطالعہ ہے۔ حیدر علی آتش کے مصرع میں ذرا تصرف کے ساتھ‘ من حیث القوم ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ: کہتی ہے تجھ کو خلقِ خدا 'حاضرانہ‘ کیا۔
گلوبل ریٹنگ کے پیمانے کے بارے میں تفصیلی گفتگو کرنے سے پہلے یہ جان لیجئے کہ ہینلے انڈیکس پر ہماری یہ ریٹنگ گزشتہ پانچ برس سے مسلسل اسی مقام پر کھڑی ہے جبکہ کئی برس سے سنگاپور کا پاسپورٹ نمبر ون ہے۔ جنوبی کوریا دوسرے نمبر پر اور جاپان تیسرے نمبر پر ہے۔ مذکورہ بالا انڈیکس کی ریٹنگ کا پیمانہ یہ ہے کہ دنیا کے کتنے ممالک کسی ملک کو ویزا فری انٹری دیتے ہیں یا ایئر پورٹ پہنچنے پر ویزا لگا دیتے ہیں۔ آگے چل کر ہم یہ بھی جائزہ لیں گے کہ دنیا میں ویزا فری انٹری کا معیار کیا ہے۔ سنگاپور کے شہریوں کو دنیا کے 193 ممالک نہایت گرمجوشی کے ساتھ خوش آمدید کہتے ہیں جبکہ جنوبی کوریا کے شہریوں کو 190 اور جاپان کے شہریوں کو 189 ممالک ویزا فری انٹری دیتے ہیں۔
دوسری طرف پاکستانی پاسپورٹ والوں کو 31 ممالک‘ شام والوں کو 26 اور افغانیوں کو صرف 24 ممالک میں ویزا فری انٹری دی جاتی ہے۔ مختلف جائزوں پر ایک نظر ڈالنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ جو ملک اپنی معیشت‘ سیاست اور اپنے ملکی استحکام کی بنا پر جتنا مضبوط اور مستحکم ہو گا‘ اس کا پاسپورٹ دنیا میں اتنا ہی قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے۔ سارا عالم جانتا ہے کہ سنگاپور کی معیشت انتہائی مضبوط ہے۔ اگرچہ وہاں کئی مذاہب اور مختلف نسلوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں مگر وہاں کا سیاسی اور سماجی کلچر ایسا ہے کہ کوئی کسی کے مذہب یا مسلک میں ہرگز دخل اندازی نہیں کرتا۔ وہاں اتنی خوشحالی اور امن ہے کہ وہاں کا کوئی شہری اپنے ملک کو چھوڑ کر ہرگز کہیں اور نہیں جانا چاہتا۔
اب آئیے پاکستانی پاسپورٹ کی طرف۔ پاکستانی پاسپورٹ والوں کو خندہ پیشانی کے ساتھ دنیا بھر میں ویزا فری انٹری ملنی چاہیے تھی مگر ہوتا اس کے برعکس ہے۔ سبز پاسپورٹ دیکھتے ہی دوست ممالک کے ایئر پورٹس کے اہلکاروں کے ماتھے پر بھی بل پڑ جاتے ہیں۔ بڑا تشویشناک سوال یہ ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ ایسا اس لیے ہے کہ دنیا کے بہت سے ممالک پاکستان کو داخلی سلامتی کے اعتبار سے ایک ہائی رسک ملک سمجھتے ہیں۔ وہ یہ بھی جانتے ہیں کہ پاکستان دہشت گردی اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ اس لیے پاکستانی پاسپورٹ کو بآسانی انٹری نہیں ملتی۔ اس کے علاوہ ان ملکوں کے پاسپورٹ ہولڈرز کو ویزا فری انٹری دی جاتی ہے جہاں معاشی خوشحالی ہو اور لوگ آسودہ حال ہوں۔ ایسے ملک کے باسی کسی دوسرے ملک میں رکنا پسند نہیں کرتے۔ مگر پاکستانی شہری نہ صرف غیرقانونی طور پر دوسرے ملکوں میں رک جاتے ہیں بلکہ وہاں دستاویزات کے بغیر چھپ چھپا کر نوکری تلاش کرتے ہیں‘ بلکہ بعض پروفیشنل بھکاری سعودی عرب جیسے ملکوں میں جا کر بھیک مانگتے ہیں اور اپنے ملک اور پاسپورٹ کو بدنام کرتے ہیں۔ بعض کھلاڑی جان بوجھ کر کسی غیرملک میں کونج کی طرح قطار سے بچھڑتے اور ادھر اُدھر دانہ دنکا چگنے کیلئے اڑتے پھرتے ہیں۔ گاہے گاہے ہمارے فضائی میزبان بھی کسی خوشحال ملک کے ایئر پورٹ پر لینڈ کر کے وہیں غائب ہو جاتے ہیں اور واپس ڈیوٹی پر حاضر نہیں ہوتے۔ اُن ملکوں کے باسیوں کو خوشی سے انٹری دی جاتی ہے جن کے بارے میں اس طرح کا کوئی خدشہ نہ ہو کہ وہ وہاں ویزے کی مہلت سے زیادہ قیام کریں گے یا ''غائب‘‘ ہو جائیں گے۔
پاکستان کے بارے میں سمجھا جاتا ہے کہ یہاں اقتصادی بدحالی اور کرپشن عام ہے‘ اور بیڈ گورننس اور سیاسی عدم استحکام کا راج ہے۔ پاکستان میں دوسرے ملکوں کے پناہ گزینوں کی بہتات ہے۔ یہاں کے بارے میں یہ تاثر بھی عام ہے کہ کسی دوسرے ملک کا شہری تھوڑی سی بھاگ دوڑ کے ساتھ پاکستانی پاسپورٹ حاصل کر سکتا ہے۔ سبز پاسپورٹ حاصل کرنے کے بعد وہ مغربی ملکوں میں سیاسی پناہ کیلئے تگ و دو شروع کر دیتے ہیں۔ پاکستان کے دوسرے ممالک کے ساتھ ایسے معاہدات بھی بہت کم ہیں جن کے مطابق دونوں ممالک ایک دوسرے پر ویزا پابندیاں عائد نہیں کرتے۔
یورپ کے خوشحال ملکوں کی ریٹنگ دیکھ کر آپ سمجھ سکتے ہیں کہ یہ وہ ممالک ہیں جہاں خوشحالی اور سیاسی استحکام ہے۔ اوپر ٹاپ کے تین ممالک کا ذکر ہو چکا ہے۔ پاسپورٹ ریٹنگ کے اعتبار سے لکسمبرگ‘ جرمنی‘ اٹلی‘ سپین اور سوئٹزر لینڈ بھی ٹاپ ٹین ملکوں میں آتے ہیں‘ ان ممالک کو دنیا کے 227 میں سے 188 ممالک میں ویزا فری انٹری ملتی ہے۔ 2014ء میں امریکی پاسپورٹ نمبر وَن تھا اور اب اسے صرف 180 ممالک بغیر ویزا انٹری دیتے ہیں۔
اب پاسپورٹ ریٹنگ کے آئینے میں ہم اپنا جائزہ لیتے ہیں۔ اس سے ہمیں یہ معلوم ہو جائے گا کہ دنیا میں بلند مقام حاصل کرنے کیلئے صرف ایٹمی قوت ہونا کافی نہیں۔ اس کیلئے ہماری مضبوط معیشت‘ سیاست‘ گڈ گورننس اور قانون کی حکمرانی کا ہونا بھی ضروری ہے۔ آئے روز پاکستان کے اندر غیرملکی سفارت خانوں میں ہمارے تعلیم یافتہ‘ ہنر مند اور بے ہنر مزدور قطاریں بنا کر کھڑے ہوتے ہیں۔ ہماری معیشت کمزور‘ ہماری سیاست متزلزل‘ دہشت گردی اور قانون شکنی عام ہے۔ اگر چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری پشاور ہائیکورٹ کے فیصلے پر سر تسلیم خم کرتے ہوئے اپنے گورنر کو فی الفور پشاور پہنچنے کا حکم نہ دیتے تو دنیا کے سامنے ہماری کمزور سیاست کا ایک تازہ منظر بھی آ جاتا۔
گزشتہ دو تین برس سے یونان اور دیگر یورپی ممالک کے قریب سمندر میں بغیر دستاویزات کے جانے والے پاکستانیوں کی عام سی کشتیاں ڈوب جاتی ہیں۔ ہماری حکمران اور دیگر سیاسی جماعتوں کو مل کر ملک کی سیاست و معیشت مستحکم کرنے کیلئے ایک میثاقِ جمہوریت پر آمنا و صدقنا کہنا چاہیے۔ اس کے علاوہ قانون کی حکمرانی قائم کرنے کا عہد بھی کرنا چاہیے۔ ہماری تجویز ہو گی کہ پاکستانی سیاسی و دینی جماعتوں کے قائدین پاسپورٹ ریٹنگ کے آئینے میں اسلامی جمہوریہ پاکستان کی تازہ تصویر دیکھیں۔
طائف کے دو مثالی اساتذہ کی رحلت: طائف‘ سعودی عرب کا پاکستان انٹرنیشنل سکول و کالج اپنی مدد آپ کے تحت قائم کیا گیا تھا۔ یہ کارِ عظیم وہاں مقیم ڈاکٹر سیّد نصیر علی کرمانی مرحوم نے پاکستانی کمیونٹی کے زبردست تعاون کے ساتھ انجام دیا تھا۔ یہ ادارہ 1970ء میں قائم ہوا تھا۔ اس مادرِ علمی سے فارغ التحصیل طلبہ و طالبات اپنی اعلیٰ تعلیم اور منفرد تربیت کی بنا پر جہاں جاتے ہیں وہاں نمایاں ہوتے ہیں۔ طائف کالج کے سابق پرنسپل پروفیسر محمد کلیم اختر اور ایک سابق سینئر استاد نصراللہ خان شوکت پاکستان میں انتقال کر گئے ہیں۔ محمد کلیم اختر صاحب فزکس کے ماہر اُستاد اور نہایت شفیق پرنسپل تھے۔ جناب نصراللہ خان شوکت انگریزی زبان کے ہر دلعزیز ٹیچر تھے۔ یہ اساتذہ تادیر اپنے طلبہ‘ اپنے ساتھی اساتذہ اور طائف میں مجھ سمیت کسی زمانے میں بھی مقیم رہنے والے والدین کے دلوں میں آباد رہیں گے۔ اللہ دونوں اساتذہ کو اپنے جوارِ رحمت میں جگہ دے، آمین۔