پنجاب: مقامی حکومتوں کے انتخابات پھر ملتوی

ہم آج سے نہیں برسوں سے مقامی حکومتوں کے ثمرات اور برکات گنوا رہے ہیں۔ اس سلسلے میں چند ماہ قبل امریکہ کی مقامی حکومتوں کا چشم دید احوال بھی بیان کیا تھا مگر یہاں سنتا کون ہے‘ ہر کوئی اپنی من مانی کرتا ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کی بار بار یاد دہانیوں کے باوجود صوبائی حکومتیں بلدیاتی انتخابات کے انعقاد سے کتراتی اور گھبراتی ہیں۔ اس کا بنیادی سبب تو یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں بلدیاتی اداروں کو اپنے مسائل خود حل کرنے کے اختیارات نہیں دینا چاہتیں۔ اس سلسلے میں پنجاب کی صوبائی حکومتوں نے برسوں سے طرح طرح کے حیلوں بہانوں اور رنگا رنگ رکاوٹوں سے مقامی حکومتوں یا بلدیاتی اداروں کے قیام کو روک رکھا تھا۔ الیکشن کمیشن بھی ٹھنڈے میٹھے انداز سے یاد دہانی کراتا رہا مگر اس کا خاطر خواہ نتیجہ سامنے نہ آ سکا۔ بالآخر رواں ماہ کی آٹھ تاریخ کو الیکشن کمیشن آف پاکستان نے حکومتِ پنجاب کو دو ٹوک انداز میں ایک حکم نامہ جاری کیا کہ پنجاب میں دسمبر کے آخری ہفتے کی کسی تاریخ کو مقامی حکومتوں کے انتخابات 2022ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت کروا دیے جائیں گے۔ اس سلسلے میں کمیشن کے شیڈول کے مطابق حلقہ بندیاں صرف دو مہینوں میں ہونی چاہئے تھیں۔ الیکشن کمیشن کے اس فرمان کا لب و لہجہ پہلے فرامین سے قدرے مختلف تھا۔ بقول اسد اللہ غالب:
بارہا دیکھی ہیں ان کی رنجشیں
پر کچھ اب کے سرگرانی اور ہے
لیکن حکومتِ پنجاب چیف الیکشن کمشنر کو حسبِ سابق ایک بار پھرزیر دام لے آئی ہے۔ لہٰذا کمیشن کا آٹھ اکتوبر کا فرمان بھی محض تارِ عنکبوت ثابت ہوا ہے۔ اس وقت آئیڈیل صورتحال تو یہ ہے کہ انتظامی طور پر نئے صوبے تشکیل دیے جائیں مگر اس پر سنجیدہ غور و فکر کرنے پر دونوں بڑے صوبے‘ سندھ اور پنجاب آمادہ نہیں ہوئے۔ یہ صوبے اپنے صوبائی و مقامی اختیارات کسی مؤثر قسم کے انتظامی یونٹوں کے ساتھ شیئر کرنے پر تیار نہیں ہوتے اور اپنی اجارہ داری قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
ہم کالم کے آخر میں ترقی یافتہ ممالک میں نئے انتظامی صوبوں سے حاصل ہونے والے نتائج کا ذکر کریں گے‘ مگر حد تو یہ ہے کہ پنجاب میں صوبائی حکومتیں گزشتہ چار برس سے مقامی حکومتوں کے انتخابات کو کسی نہ کسی بہانے روک رہی ہیں۔ صوبائی حکومتیں اکثر نئی قانون سازی اور نئی حلقہ بندیوں کا عذر تراشتی رہتی ہیں۔ 2018ء سے 2022ء تک پنجاب میں پی ٹی آئی کی حکومت رہی‘ اس دوران مقامی حکومتوں کے قیام کے لیے نئی قانون سازی بھی کی گئی مگر صوبے میں مقامی حکومتوں کے نئے ایکٹ کی منظوری کے باوجود بلدیاتی اداروں کے انتخابات کی نوبت نہ آسکی۔
تحریک انصاف کے بانی عمران خان نے اپنی پارٹی کے منشور میں مقامی حکومتوں کی برکات و حسنات گنوائی ہیں مگر عملاً ان مقامی ثمرات سے پنجاب کے شہریوں کے فیض یاب ہونے کا مرحلہ نہ آ سکا۔ الیکشن کمیشن کے آٹھ اکتوبر کے روز جاری کیے گئے اس حکم نامے کہ دسمبر کے اواخر میں پنجاب میں بلدیاتی الیکشن کرائے جائیں‘ کے بارے میں ہمارا اندازہ تھا کہ اس بار چیف الیکشن کمیشن مضبوط سٹینڈ لے گا اور اس میں کوئی رد و بدل قبول نہیں کی جائے گی۔ مگر پنجاب کی حکمران جماعت نے اپنی اکثریت کے بل بوتے پر نئی قانون سازی کر کے لوکل گورنمنٹ 2022ء کا بلدیاتی ایکٹ منسوخ کر دیا اور نیا لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025ء منظور کر لیا۔ پنجاب کی حکمران جماعت اس سے پہلے بھی جون 2024ء میں الیکشن کمیشن کے ایک ایسے ہی حکمنامے کو نئی قانون سازی منظور کروانے کا بہانہ بنا کر ٹال چکی ہے۔ تب سے لے کر اب تک ایسے ہی ہوتا چلا آ رہا ہے۔
چاہیے تو یہ تھا کہ الیکشن کمیشن اپنے آٹھ اکتوبر کے فرمان پر عمل درآمد کے لیے اصرار کرتا۔ کمیشن کا یہ موقف ہونا چاہیے تھا کہ ہمارے نوٹیفکیشن کے مطابق صوبے میں نئے بلدیاتی انتخابات 2022ء کے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کے تحت ہی کروائے جائیں۔ اس فرمان کے بعد کی کوئی قانون سازی خلافِ قانون ہے مگر بوجوہ ایسا نہیں ہوا اور ایک بار پھر الیکشن کمیشن کو جھکنا پڑا۔ پنجاب کی حکمران جماعت نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ کی منظوری کے بعد ایک بار پھر بلدیاتی انتخابات غیرمعینہ مدت کے لیے ملتوی کرانے میں کامیاب ہو گئی ہے۔ نئے لوکل گورنمنٹ ایکٹ 2025ء کے مطابق اب بلدیاتی انتخابات غیرجماعتی بنیادوں پر ہوں گے۔ انتخابات کے بعد ایک ماہ کے دوران کامیاب امیدواروں کے لیے ضروری ہوگا کہ وہ کسی جماعت میں شامل ہوں۔ ظاہر ہے کہ اس ایک مہینے کے دوران کامیاب بلدیاتی امیدواروں کی منڈی لگے گی۔ ان تمام تر احتیاطی قانون سازیوں کے باوجود ابھی تک پنجاب کی حکمران جماعت بلدیاتی انتخابات کا رِسک لینے پر آمادہ نظر نہیں آتی۔ہم نے چند ہفتے قبل بھی چھوٹے انتظامی صوبوں اور مقامی حکومتوں کے حوالے سے کچھ تحریریں سپردِ قلم کی تھیں۔ پنجاب میں ایک بار پھر بلدیاتی اداروں کے انتخابات کو ٹالنے کے بارے میں خبریں سنیں تو ضروری سمجھا کہ اپنے قارئین کی یاد دہانی کے لیے بارِدگر اُن باتوں کا تذکرہ کر دوں۔
جدید ریاستیں عوامی فلاح و بہبود کو اپنی اولین ترجیح قرار دیتی ہیں۔ یہ ریاستیں چھوٹے سے چھوٹے یونٹوں میں اپنے ملک کو انتظامی طور پر تقسیم کر کے انہیں بااختیار بناتی ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ ہر کوئی کارِ جہاں بانی میں خود کو شریک سمجھے اور اپنی فلاح کا آپ ذمہ دار ہو۔ ساری دنیا تسلیم کرتی ہے کہ یورپ کی سکینڈ ے نیوین ریاستیں فلاحی و جمہوری طور پر اپنے ہم وطنوں کی خدمت کا فریضہ سب سے بہتر طور پر انجام دے رہی ہیں۔ ان ریاستوں نے نچلی ترین سطح پر تعمیر وطن میں شرکت و شمولیت کے احساس کو اجاگر کرنے کیلئے مقامی حکومتوں کا مؤثر ترین انتظام کیا ہے۔
ڈنمارک میں پہلے کوئی صوبے نہ تھے مگر 2007ء میں انتظامی ضرورتوں کے تحت اسے پانچ انتظامی زونز میں تقسیم کیا گیا۔ اس کے ساتھ ہی 98 مقامی حکومتوں کا نظام بروئے کار لایا گیا۔ ان زونز یا انتظامی صوبوں کے سربراہ کو ڈنمارک میں صدر کہا جاتا ہے جو منتخب ممبران میں سے اپنی کونسل بناتا ہے۔ زون یا صوبوں کی زیادہ تر ذمہ داریاں صحت‘ تعلیم اور علاقائی ترقی سے متعلقہ ہوتی ہیں۔ ڈنمارک میں میونسپل کمیٹیاں یا مقامی حکومتیں اپنے اپنے علاقے کی پراپرٹی‘ ہائی سکول تک تعلیم‘ پولیس اور ابتدائی عدالتوں کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ یہ اعلیٰ ترین نتائج سے اپنے شہریوں کی خدمت کر رہی ہیں۔ ڈنمارک اور اس طرح کے دوسرے جمہوری ملکوں میں ہر سطح پر قانون کی سو فیصد حکمرانی ہے۔وہاں آئین کا سبھی ادارے‘ پارلیمنٹ‘ عدلیہ اور مقامی حکومتیں مقدس کتاب کی طرح احترام کرتی ہیں جبکہ وطن عزیز میں آئین کو موم کی ناک سمجھا جاتا ہے‘ یہاں کوئی حکمران جب چاہے‘ جدھر چاہے اسے موڑ سکتا ہے۔ یہاں مقامی حکومتوں کے بارے میں آئینِ پاکستان کا آرٹیکل نمبر 140 اے دس برس سے کھڑا پنجاب کی حکومتوں کا منہ دیکھ رہا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں