آزاد کشمیر میں ٹوٹتی بنتی حکومتیں

وادیٔ کشمیر اپنی قدرتی خوبصورتی‘ دلکش پہاڑی سلسلوں‘ نیلگوں جھیلوں اور تا حدِ نگاہ پھیلی ہوئی سبز پوش وادیوں کے حوالے سے دنیا کی جنت کہلاتا ہے‘ ایسا بالعموم سرینگر اور جموں وغیرہ کے بارے میں کہا جاتا ہے۔
چند سال قبل ایک بار مجھے اسلام آباد سے مظفر آباد ہیلی کاپٹر میں جانے کا اتفاق ہوا۔ اللہ اللہ راستہ بھر کئی مقامات پر مبہوت کرنے والا حسن مجھے لبھاتا اور اپنی طرف بلاتا رہا مگر ہیلی کاپٹر سے چھلانگ لگا کر ان سب نظاروں کی دعوت قبول کرنا اتنا آسان نہ تھا۔ تب مجھے بقول شاعر ماننا پڑا کہ ''اس میں بھی کچھ تو ہے تری بوباس کی طرح‘‘۔ ''کچھ‘‘ نہیں بہت کچھ آزاد کشمیر میں بھی مقبوضہ کشمیر کی وادیوں کے مسحور کن حسن و جمال جیسا ہے۔ حکومت پاکستان اور آزاد کشمیر کے کار پردازوں کو اپنی سیاست اور خدمتِ عوام میں وہی دلکشی پیدا کرنی چاہیے جو یہاں کے قدرتی حسن و جمال میں ہے۔ آئے روز آزاد جموں و کشمیر کی قانون ساز اسمبلی میں اکھاڑ پچھاڑ ہوتی رہتی اور ہارس ٹریڈنگ سے نئی حکومتوں کیلئے بولیاں لگتی رہتی ہیں۔ موجودہ منظر نامے کے مطابق پی ٹی آئی کے فارورڈ بلاک سے تعلق رکھنے والے چودھری انوار الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد لانے کی تیاری کر لی گئی ہے‘ اُن کے دونوں اتحادیوں پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے چودھری انوار الحق کے خلاف متفقہ عدم اعتماد لانے پر اتفاق کر لیا ہے‘ گویا: یک زباں ہیں فقیہانِ شہر میرے خلاف۔
ہم اگلی سطور میں آپ کو گزشتہ پانچ چھ برس کے دوران بنتی ٹوٹتی حکومتوں کے تفصیلی پس منظر سے آگاہ کریں گے‘ تاہم جناب انوار الحق کی عام شہرت یہ ہے کہ وہ نہ صرف ذاتی طور پر مکمل دیانتدار ہیں بلکہ انہوں نے حکومتی خزانے کو 25 ارب روپے کی کرپشن سے بچایا۔ البتہ اُن کے بارے میں یہ تاثر ہے کہ وہ ایک سخت گیر منتظم نہیں۔ آگے بڑھنے سے پہلے آپ کو آزاد جموں کشمیر اسمبلی کے اندر سیٹوں کی تقسیم کا منظر دکھا دوں تاکہ آپ بنتی ٹوٹتی حکومتوں کے کھیل کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔ آزاد کشمیر اسمبلی کے ممبران کی کل تعداد 53 ہے۔ 33 سیٹوں کا انتخاب آزاد کشمیر کے اندر ہوتا ہے اور 12 مہاجرین کی سیٹیں کہلاتی ہیں جو پاکستان کے مختلف علاقوں میں پھیلی ہوئی ہیں۔ مخصوص نشستیں آٹھ ہیں۔پانچ خواتین‘ ایک عالم دین‘ ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک اوورسیز کشمیری کیلئے مختص ہے۔
پیپلز پارٹی کے پاس عدم اختلاف اور کامیابی کے نمبر نہ صرف پورے بلکہ ضرورت سے زیادہ ہی ہیں‘ ایک رازدار نے بتایا کہ اس کا سبب پیپلز پارٹی کے اندر جاری وزارتِ عظمیٰ اور دیگر بڑے عہدوں کی بندر بانٹ کا سلسلہ ہے۔ آزاد کشمیر میں وزارتِ عظمیٰ کیلئے تینوں بڑی لابیاں مضبوط ہیں۔ چودھری یٰسین کا تعلق جاٹ برادری سے ہے جبکہ چودھری لطیف اکبر گجر برادری کے سرداروں میں شامل ہیں اور سردار یعقوب ایک اور مضبوط لابی سُدھن قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں۔ جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا کہ تحریک عدم اعتماد کی نقاب کشائی کی مکمل تیاری ہے۔ پیپلز پارٹی کو تحریک کی کامیابی کیلئے 27 ووٹوں کی ضرورت ہے جبکہ اس کے پاس 37 کے قریب اسیرانِ اقتدار برضا و رغبت موجود ہیں۔
اب ذرا آپ کو اُس سارے پس منظر سے آگاہ کر دوں جوچودھری انوار الحق کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر منتج ہوا۔ جہاں تک آزاد کشمیر کی حکومتوں کا تعلق ہے تو وہاں کشمیری الیکٹ ایبلز ہر نئے الیکشن کے موقع پر اسلام آباد کے مرغ بادنما کی طرف دیکھتے ہیں اور لمحوں میں 'چلو تم اُدھر کو ہوا ہو جدھر کی‘ کے مطابق رُخ بدل لیتے ہیں۔ 2021 ء میں اسلام آباد میں جب پی ٹی آئی کی حکومت تھی اس وقت آزاد کشمیر میں ان پارلیمنٹرینز نے حصول ٹکٹ کیلئے پی ٹی آئی کا انتخاب کیا۔ انتخاب میں بڑی کامیابی کے بعد تحریک انصاف نے اپنے ووٹوں کے بل بوتے پر سردار عبدالقیوم خان نیازی کو بطور وزیراعظم منتخب کروا لیا مگر چند ہی ماہ کے بعد 2022ء کے آغاز ہی میں پی ٹی آئی نے نیازی صاحب کی جگہ ایک ارب پتی سردار الیاس تنویر کو آزاد کشمیر کا وزیراعظم منتخب کروا لیا ۔ سردار صاحب اس طرح کی شخصیت ثابت ہوئے کہ ان کے بارے جس سے بات کی‘ اس نے ان کی شکایت ضرور کی۔ اسی دوران وزیراعظم عدالت عظمیٰ آزاد کشمیر کے احکامات کی عدم تعمیل کے مرتکب پائے گئے اوریوں سردار صاحب کو عدالت عظمیٰ نے توہین عدالت کے الزام میں ایوانِ اقتدار سے رخصت کر دیا۔ اسی دوران اسلام آباد میں بھی عمران خان کی حکومت ختم ہو گئی۔ سردار تنویر الیاس کی وزارتِ عظمیٰ کے بعد آزاد کشمیر اسمبلی میں اسلام آباد کے مرغ بادنما کا اشارہ پا کر یہاں نئی صف بندیاں ہونے لگیں اور ارکانِ پارلیمنٹ اپنا قبلہ تبدیل کرنے لگے۔
2023ء میں چودھری انوار الحق نے پی ٹی آئی کا ایک فارورڈ بلاک تشکیل دیا اور پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے ممبرانِ پارلیمنٹ کی مدد سے ایک اتحادی حکومت بنا لی۔ 2023ء سے ہی جائز عوامی مطالبات کی منظوری کیلئے آزاد کشمیر میں غیر سیاسی بنیادوں پر ایک جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی بن گئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے ایکشن کمیٹی نے عوام میں اپنی گہری جڑیں بنا لیں اور ایک تحریک کا آغاز کر دیا۔ اُن کی ریلیوں کے نتیجے میں 2024ء میں آزاد کشمیر حکومت نے اُن کے صرف دو مطالبات تسلیم کیے۔ ایک تو ان کی آٹا سبسڈی کو بحال کردیا گیا‘ دوسرا وہاں کے قوانین کے مطابق بجلی کو سستا کروایا گیا۔ ان مطالبات کی منظوری سے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کو بڑا حوصلہ ملا‘ لہٰذا یہ تحریک ہر گزرتے دن کے ساتھ زور پکڑتی گئی۔ 2025ء کے ماہِ ستمبر کے آخری ہفتے میں تحریک اپنے عروج پر پہنچ گئی۔ 29ستمبر کو ہر شہر سے ہزاروں کے جلوس مظفر آباد کی طرف روانہ ہوئے جو مظفر آباد پہنچنے تک لاکھوں میں بدل گئے۔ اس دوران اسلام آباد کے وزرا اور پیپلز پارٹی کے راجہ پرویز اشرف اور قمر زمان کائرہ کی کمیٹی کے درمیان مذاکرات میں جب تعطل آیا تو آزاد کشمیر میں تالا بندی اور پہیہ جام ہڑتال ہو گئی‘ اور آزاد کشمیر میں داخلے کا مرکزی راستے کوہالہ پل بھی بند کر دیا گیا۔ ایکشن کمیٹی نے حکومت کے سامنے 38 مطالبات پیش کیے تھے۔ ان میں ججز‘ بیورو کریسی اور دوسرے حکومتی محکموں کی افسرانِ اعلیٰ کی بڑی بڑی تنخواہیں اور مراعات میں کمی‘ کرپشن اور رشوت کا خاتمہ کیا جائے۔ آزاد کشمیر کی حکومت سازی میں اسلام آباد حکومت اور اداروں کی مداخلت ختم کی جائے۔ اس طرح تحریک کا ایک افسوسناک پہلو یہ تھا کہ احتجاج کرنے والوں میں سے 11 افراد اور تین پولیس اہلکاروں کو اپنی زندگی سے ہاتھ دھونا پڑے۔ بالآخر جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے ساتھ طویل مذاکرات کے نتیجے میں ان کے 36 مطالبات تسلیم کر لیے گئے اور اُن کے ایک اہم ترین مطالبے کہ آزاد کشمیر کی پاکستان میں پھیلی ہوئی 12 مہاجرین سیٹیں یکسر ختم کر دی جائیں‘ اصول یہ ہوگا کہ جو آزاد کشمیر میں مقیم ہوگا وہی منتخب ہوگا۔ اسلام آباد کی حکومت نے ایکشن کمیٹی سے اس شق کو ختم کرانے کے دستوری ترمیم کرنے کا وعدہ کیا ہے۔
اس کہانی کو اس لیے دہرایا گیا ہے کہ کمیٹی کی اس بھرپور تحریک کو کنٹرول نہ کرنے کی ذمہ داری آزاد کشمیر کے وزیراعظم انوار الحق پر ڈال دی گئی۔ آج‘ یکم نومبر کو اُن کے خلاف تحریک عدم اعتماد پیش کیے جانے کا امکان ہے۔ نئے قائد ایوان یعنی وزیراعظم آزاد کشمیر کا اعلان بھی شاید آج ہی کیا جائے گا جس کا تعلق پاکستان پیپلز پارٹی سے ہوگا۔
آخر میں یہی کہیں گے کہ آزاد کشمیر کو مقبوضہ کشمیر کے لاکھوں مسلمانوں کیلئے ایک جنت نظیر رول ماڈل ہونا چاہیے۔ ''مہاجرین‘‘ کے نام پر بارہ سیٹیں ختم ہونی چاہئیں۔ سب سے اہم بات یہ کہ اسلام آباد آزاد کشمیر کی حکومت سازی میں کم سے کم مداخلت کرے اور پاکستانی بیورو کریسی کو وہاں جا کر وائسرائے بننے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں