پاکستان کو درپیش چیلنجز

پاکستان کو اِس وقت بڑے بیرونی اور اندرونی چیلنجز کا سامنا ہے۔ عالمی اور علاقائی صورتِ حال میں تیزی سے تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں اور پاکستان اُن تبدیلیوں کے اثرات کی زد میں ہے۔ ملکی سطح پر سیاسی عدم استحکام اور بدحال معیشت نے ملک و معاشرے کے لیے مشکلات میں اضافہ کیا ہے۔ گزشتہ چند ماہ کے دوران بین الاقوامی، علاقائی اور ملکی منظر نامے میں کئی ایسے واقعات رونما ہوئے ہیں جن کی وجہ سے ملک کی لیڈرشپ کو آنے والے وقت میں پیچیدہ صورتِ حال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے اور مشکل مگر ناگزیر فیصلے کرنا اب لازم ہو چکا ہے۔ پاکستان پر فوری اثر انداز ہونے والے حالات میں چین اور امریکہ کی بڑھتی ہوئی مخاصمت، افغانستان میں امن و امان کی صورتِ حال، بھارت کے ساتھ جاری کشیدگی اور اندرونی حالات میں سیاسی عدم استحکام اور بگڑتی معاشی صورتِ حال بہت اہم ہیں۔ آنے والے ماہ و سال میں ملک کی سیاسی قیادت اور اداروں کی دانش و بصیرت کا امتحان ہے کہ وہ کیسے اِن سے نبرد آزما ہوں گے۔
عالمی سطح پر ایک بڑھتا ہوا تنازع چین اور امریکہ کے مابین جاری سرد جنگ کا سلگنا ہے۔ حال ہی میں چین کے صدر شی جن پنگ اور چینی وزیر خارجہ نے امریکہ کے حوالے سے انتہائی سخت زبان استعمال کی ہے اور امریکہ کو خبردار کیا کہ وہ چین کو نیچا دکھانے سے باز رہے ورنہ یہ مقابلہ طاقت کے استعمال کی طرف جا سکتا ہے۔ اِن بیانات کے نتیجے میں دونوں ممالک کے تعلقات‘ جو پہلے ہی سرد مہری کا شکار ہیں‘ مزید بدتر ہونے کا اندیشہ ہے۔ ماہرین کا خیال ہے کہ بڑھتے ہوئے تنازع کا نتیجہ دونوں طاقتوں کے درمیان سرد جنگ کے بھڑکنے کی صورت میں نکل سکتا ہے جو پہلے سے مشکلات میں گھری دنیا کے لیے بالکل بھی اچھی خبر نہیں ہو گی۔ ماضی کی سرد جنگ دنیا کے لیے اچھا تجربہ نہیں تھا۔ بالخصوص پاکستان کے لیے یہ بالکل بھی اچھی خبر نہیں ہو گی کیونکہ اسّی کی دہائی میں سوویت یونین اور امریکہ کی سرد جنگ پاکستان کے لیے ایسا تجربہ تھا جس کے مضر اثرات سے ہم ابھی تک نہیں نکل سکے۔ پاکستان اِس خطے کا ایک اہم ملک ہے۔ جیسے جیسے دو بڑی طاقتوں کی کشمکش بڑھے گی‘ پاکستان کے چیلنجز میں مسلسل اضافہ ہوتا چلا جائے گا۔ چین کے خلاف بھارت اور امریکہ کا گٹھ جوڑ اور پاکستان کے چین کے ساتھ تعلقات ہمیں اب بھی مختلف مشکلات سے دوچار کرتے رہتے ہیں کیونکہ بھارت اور امریکہ کا اتحاد پاکستان پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ بھارت کو خطے میں نیٹ سکیورٹی فراہم کرنے والے ملک کے طور پر امریکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے اور خطے کے حوالے سے امریکہ کا بھارت کے ساتھ انٹیلی جنس شیئرنگ کا مربوط نظام قائم ہے جو پاکستان کے لیے شدید تشویش کا باعث ہے۔
دوسرا بڑا چیلنج جو پاکستان کو درپیش ہے‘ وہ افغانستان میں امن کا قیام ہے۔ جب طالبان نے امریکہ کو افغانستان سے انخلا پر مجبور کیا تو امریکہ اور نیٹو افواج نے ایک غیر ذمہ دارانہ انخلا کیا جس کے لیے شاید طالبان بھی تیار نہ تھے۔ امریکہ کے اِس طرح اچانک چلے جانے سے افغانستان کے اندر ایک سکیورٹی خلا پیدا ہوا جو تاحال پُر نہیں ہو سکا کیونکہ افغانستان کے اندر بہت سی دہشت گرد تنظیموں نے سر اُٹھانا شروع کر دیا جو عالمی اور علاقائی امن کے لیے خطرہ ہیں۔ اِس متوقع دہشت گردی کا اثر پاکستان پر سب سے زیادہ ہو گا اور دہشت گردی کے حملوں کی صورت میں یہ منفی اثر دکھائی دینا شروع ہو چکا ہے۔ پاکستان کو کالعدم تحریکِ طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے بڑھتے ہوئے خطرے کا بھی سامنا ہے۔ افغانستان کے ساتھ امن اور دو طرفہ تعلقات بھی پاکستان کے لیے ایک بڑا چیلنج ہیں۔ جب سے طالبان نے اقتدار سنبھالا ہے‘ پاکستان طالبان کے ساتھ خوشگوار تعلقات اور خطے میں امن قائم کرنے کے لیے کوشاں ہے لیکن افغانستان کی طرف سے مسلسل سرد مہری کا مظاہرہ دکھائی دے رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں چونکہ علاقائی اور عالمی طاقتوں کے لیے افغانستان پہلی ترجیح نہیں رہا‘ اِس لیے افغانستان کو تسلیم کرنے اور اس کی معاشی مدد کے حوالے سے گریز برتا جا رہا ہے۔ اِس کیساتھ ساتھ طالبان بھی اُن وعدوں پر عمل کرتے دکھائی نہیں دیتے جو اُنہوں نے دُنیا کیساتھ اِنسانی حقوق بالخصوص خواتین کے حقوق کے حوالے سے کیے تھے۔ افغانستان میں امن چین کے لیے بھی اہم ہے کیونکہ پاکستان اور چین کی وسط ایشیائی ریاستوں تک زمینی رسائی افغانستان میں امن سے مشروط ہے۔
بھارت پاکستان کے لیے ایک اہم اور بڑا چیلنج ہے۔ دونوں ممالک کے تعلقات ہمیشہ سے سرد مہری کا شکار رہے ہیں جس کی بڑی وجہ باہمی تنازعات اور بھارت کا سامراجی رویہ ہے۔ حالیہ تناؤ کی بڑی وجہ مقبوضہ کشمیر میں غیر آئینی اقدامات ہیں جو بین الاقوامی قانون اور اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کی صریح خلاف ورزی ہیں اور بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی پامالی کا باعث ہیں۔ اگست 2019ء میں جب بھارت نے مقبوضہ جموں و کشمیر کی جداگانہ حیثیت ختم کی اور مقبوضہ وادی میں ظالمانہ کرفیو لگایا تو دونوں ممالک کے تعلقات محدود ہو گئے۔ بھارت میں مودی سرکار کی ''ہندوتوا‘‘ پالیسی کا نشانہ نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ بھارت میں بسنے والی دوسری اقلیتیں بھی اس پالیسی کی زد میں ہیں۔ بھارت کی ہٹ دھرمی اور مودی سرکار کے فسطائی رویے کی وجہ سے دونوں ممالک کے تعلقات میں مستقبل قریب میں بھی بہتر ی کے زیادہ امکانات نظر نہیں آ رہے ہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑا چیلنج اِس وقت اندرونی مسائل ہیں۔ دہشت گردی، سیاسی عدم استحکام اور معاشی صورتحال کے حوالے سے پاکستان ایک غیر یقینی صورتِ حال سے دوچار ہے۔ افغانستان میں طالبان حکومت کی وجہ سے پاکستان میں کالعدم ٹی ٹی پی اور دیگر دہشت گرد گروپوں نے دوبارہ سر اُٹھایا ہے اور گزشتہ چھ ماہ میں پاکستان کو دہشت گردی کی وجہ سے بھاری جانی اور مالی نقصان اُٹھانا پڑا ہے۔ دوسری جانب گزشتہ سال اپریل میں جب سابق وزیراعظم عمران خان کی حکومت کا خاتمہ ہوا تو ملک میں سیاسی عدم استحکام کا ایک دور شروع ہوا جو تاحال جاری ہے اور حالات بدستور مایوس کن ہیں جبکہ سیاسی رسہ کشی کم ہونے کے بجائے مزید بڑھتی دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی عدم استحکام معاشی مسائل میں اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ اس وقت ملک کی معیشت روز بروز تنزلی کا شکار ہے۔ ڈالر کے مقابلے روپے کی قدر تیزی سے گر رہی ہے اور مہنگائی کی شرح 31.5 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچ چکی ہے جو عام لوگوں کے لیے بہت سی مشکلات کا باعث بن رہی ہے۔ سکیورٹی، سیاسی عدم استحکا م اور معیشت کی بدحالی کا منفی اثر ملک میں جاری سی پیک منصوبوں پر بھی پڑا ہے۔ گو کہ چین نے مشکل وقت میں پاکستان کی مدد کی ہے لیکن حالات کی وجہ سے سی پیک کے بہت سے منصوبے متاثر ہوئے ہیں جس کی وجہ سے مجموعی طور پر سی پیک کے منصوبوں میں سست روی کا تاثر اُبھرا ہے۔
میں سمجھتا ہوں کہ ان چار بڑے چیلنجز میں سب سے اہم ملک کے اندرونی خلفشار سے پیدا ہونے والی صورتحال ہے۔ ملک پر اثرانداز ہونے والے عالمی اور علاقائی مسائل کا حل اندرونی امن و استحکام سے مشروط ہے۔ ہمیں یہ سمجھنا ہو گا کہ سب سے پہلے اپنے گھر کو اندر سے ٹھیک کرنا ضروری ہے۔ اگر ہم گھر کے اندرونی مسائل کو حل کر لیں تو باقی مسائل کے حل کی راہیں خود بخود نکل آئیں گی۔ اگر گھر منظم نہیں ہوگا تو ہم نہ صرف بیرونی خطرات سے نہیں نمٹ سکیں گے بلکہ باہر سے آنے والے اچھے مواقع سے بھی فائدہ نہیں اُٹھا سکیں گے۔ دوست ممالک سے ہم پوچھتے ہیں کہ وہ ہمارے لیے کیا کر سکتے ہیں لیکن ہم کبھی خود سے نہیں پوچھتے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کر سکتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اہم یہ نہیں کہ دُنیا ہمارے لیے کیا کر سکتی ہے بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم اپنے ملک کے لیے کیا کرسکتے ہیں۔ شاید خوابِ غفلت کی شکار قوم کو جگانے کے لیے اِس سے بہتر موقع دوبارہ نہ ملے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں