مجھے ملکی اور بیرونی یعنی بھارت کے اندر اور باہر کے ٹی وی چینلوں اور اپوزیشن لیڈروں نے آج پوچھا کہ مودی کی اس غیر معمولی فتح کا راز کیا ہے؟ آپ اس کی تشریح کیسے کرتے ہیں؟ مودی کے لئے یہ جیت کیسے ممکن ہوئی؟ میرا پہلا جواب تو یہ ہے کہ بھارت کی اپوزیشن بنا دولہے کی بارات تھا۔ اس بارات کے درجنوں باراتیوں کو ایک دلہن ایک ساتھ ور مالا کیسے پہنا سکتی تھی؟ بھاجپا کی بارات میں صرف ایک دولہا تھا‘ جس کا نام ہے نریندر مودی! عوام نے اسے مالا پہنا دی اور وہ جیت گئے۔ ساتھ میں ان کی پارٹی بھی جیت گئی۔ بھارت بتوں کی پوجا کرنے والے ہندو باشندوں کا ملک ہے۔ دوسرے لفظوں میں یہ مورتی عبادت ملک ہے۔ بھاجپا کے پاس ایک خوبصورت مورتی تھی‘ جبکہ اپوزیشن کے پاس کچھ بھی نہیں تھا۔ اس مورتی کو اپوزیشن کے لوگ کانی‘ لولی‘ لنگڑی کہیں‘ چور کہیں‘ سوداگر کہیں‘ چاہے جو بھی کہیں لیکن پھر بھی میری نظر میں وہ ایک صفت بھری مورتی تھی‘ جبکہ اپوزیشن کے پاس تو کچھ تھا ہی نہیں۔ عوام اپوزیشن میں سے اپنی مالا کسے پہناتے؟ کوئی اکھل (کُل) بھارت کا لیڈر مودی کی ٹکر میں کھڑا تھا کیا؟ 1977ء میں اندرا کی ٹکر میں جے پرکاش نارائن اور مرار جی ڈیسائی تھے‘ اور راجیو گاندھی کی ٹکر میں وشوا ناتھ پرتاپ سنگھ اور چندر شیکھر تھے۔ بھارت میں حال ہی میں جو انتخابات ہوئے ہیں اور گزشتہ روز جن کے نتائج سامنے آئے ہیں‘ ان میں آپ کو ایسی کوئی صورتحال نظر آئی؟ یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہے کہ راہول گاندھی اور پریانیکا کا لیول تھوڑا اونچا تو اٹھا‘ لیکن پھر سوال یہ ہے کہ کیا وہ مودی کو ٹکر دینے لائق تھے؟ مودی کی ٹکر میں باقی جتنے لیڈر تھے‘ وہ سب صوبائی لیڈر تھے‘ کوئی بھی قومی سطح کا رہنما اپوزیشن والوں کو میسر نہیں تھا۔ اس لیے لوگوں نے اس چنائو کو پارلیمنٹ کا چنائو بنایا۔ ودھان سبھائوں کا نہیں۔ راہول گاندھی اپنے صوبے میں ہی پٹخنی کھا گئے‘ باقی جگہوں پر کیا کامیابی حاصل کرتے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ پانچ برس میں مودی نے اتنی خطرناک بھولیں کی ہیں کہ اگر کوئی قومی لیڈر ان کی ٹکر میں کھڑا ہو جاتا تو بھاجپا کی حالت کانگریس جیسی ہو جانا تھی۔ اس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آنا تھا۔ لیکن یہ چنائو بھاجپا اور کانگریس کے بیچ نہیں ہوا ہے۔ یہ الیکشن ہوا ہے مودی اور راہول کے بیچ۔ یہ امریکہ کے صدر کی نقل پر ہوا ہے۔ میں گزشتہ کئی دنوں سے جو کہہ رہا ہوں‘ اس کا نتیجہ وہی نکلا ہے‘ جو میرے خیال میں ہونا چاہئے تھا۔ نریندر مودی نہایت ہی کامیاب وزیرِ پرچار ثابت ہوئے ہیں۔ اب وہ واقعی وزیر اعظم بن کر دکھا سکتے ہیں۔ اب لوگ مجھ سے پوچھ رہے ہیں کہ کیا چنائو کے یہ نتائج مودی کو ہٹلر نہیں بنا دیں گے؟ کیا اب ہم بے لگام تانا شاہ کو نہیں جھیلیں گے؟ میں اس معاملے میں بڑا پُر امید ہوں۔ میرا ماننا ہے کہ پیڑ پر جب پھل لگتے ہیں تو وہ اپنے آپ جھکنے لگتا ہے۔ مودی کی کوشش ایک بہتر وزیر اعظم بننے کی ہو گی۔ اب ان میں ادب‘ اخلاق اور دور اندیشی دیکھنے کو مل سکتی ہے۔ حالانکہ میری اس بات سے نہ تو بھاجپا کے لیڈر اتفاق رکھتے ہیں نہ کانگریس کے۔ پاکستان کے جو لوگ آج میرے ساتھ چینلوں پر بحث کر رہے تھے‘ وہ تو بالکل بھی متفق نہیں تھے لیکن لگتا ہے کہ اب مودی کی خود اعتمادی اس لائق ضرور ہو جائے گی کہ وہ اپنے زیادہ لائق لوگوں کو برداشت کرنا سیکھ لیں گے۔ میں توقع کرتا ہوں کہ وہ گزشتہ دور کی نسبت اپنے آپ کو بہتر ثابت کرنے کی کوشش کریں گے۔
بھارت کی ڈانواں ڈول اپوزیشن
بھارت میں حال ہی میں ہونے والے انتخابات کا نتیجہ سامنے آ گیا ہے۔ کون جیتا اور کون ہارا یہ بھی سب پر واضح ہو چکا ہے۔ اس تناظر میں بھارت کے اپوزیشن پارٹیوں کی خراب حالت دیکھنے لائق ہے۔ چنائو سے پہلے وہ کوئی واضح اور بڑا اتحادی مورچہ کھڑا کرنے میں کامیاب نہ ہو سکیں‘ اور اب بھی چنائو کا عمل مکمل ہونے کے بعد چار دن نکل گئے لیکن ابھی تک وہ ہوا میں لٹھ گھما رہی ہیں۔ وہ یعنی اپوزیشن والے بھاجپا کی زیادتیوں کے خلاف ایک ہو کر بھارتی صدر اور بھارتی الیکشن کمیشن کے دروازے تو کھٹ کھٹا سکتے ہیں‘ لیکن ابھی تک بھارت کی اپوزیشن کے پاس نہ تو کوئی بطور آپشن لیڈر ہے نہ ہی پالیسی۔ اپوزیشن کی ایک پارٹی بھی ایسی نہیں ہے‘ جو دعویٰ کر سکتی کہ اسے سب سے زیادہ سیٹیں ملیں گی‘ بھاجپا سے بھی زیادہ‘ تو پھر سوال یہ ہے کہ غرور کس بات کا ہے؟ یہ بھی اہم سوال ہے کہ اگر پوزیشن اتنی خراب چل رہی تھی تو تب پھر کانگریس نے اتر پردیش میں سپا (سماج وادی پارٹی) اور بسپا (بہوجن سماج پارٹی) سے ہاتھ کیوں نہیں ملایا تھا کہ کامیابی کا کوئی راستہ کھولا جا سکتا؟ دلی میں عآپ سے دوری کیوں بنا لی؟ اگر عآپ سے قربت اختیار کی جاتی تو صورتحال کو کچھ نہ کچھ اپنے حق میں کیا جا سکتا تھا۔ جنوبی بھارت کے صوبوں میں بھی وہ اکیلی ہی اپنی ڈفلی کیوں پیٹ رہی ہیں؟ اس نے دوسری پارٹیوں کے ساتھ ہاتھ ملانے کی کوشش کیوں نہیں کی؟ اپنا راستہ کیوں کھوٹا کیا؟ تیلگو دیشم کے چندر بابو نائڈو ہی ساری اپوزیشن کو ایک کرنے میں کیوں جٹے ہوئے تھے؟ دوسروں کو اس بات کا خیال کیوں نہیں آیا؟ کیا وہ اکیلے ہی سارے مینڈکوں کو ایک پلڑے میں بٹھا سکیں گے؟ ایسا کون سا ذریعہ ہے جس میں ان سب کو باندھ کر ایک کیا جا سکے آج کل منشور تو کوئی رہ ہی نہیں گیا ہے۔ سب اپنی اپنی مرضی کر رہے ہیں۔ کوئی کسی کی سننے والا نہیں۔ وہ ذریعۂ اقتدار اور ذریعۂ اقتدار میں بھی بڑا راستہ ہے۔ وہ اپوزیشن پارٹی کا لیڈر اپنے آپ کو وزیر اعظم بنا دیکھنا چاہتا تھا‘ ورنہ کیا وجہ ہے کہ ساری اپوزیشن پارٹیاں چنائو سے پہلے ایک نہیں ہو پائیں۔ اکھلیش اور مایا وتی کی طرح وہ بھی اگر ایک ہو جاتے تو ان کے پاس ملک کے 69 فیصد ووٹ ہوتے۔ 2014ء میں بھاجپا کو ملے اکتیس فیصد ووٹوں سے بھی دُگنے۔ لیکن اب جبکہ ایگزٹ پول درست نکل آئے ہیں تو اپوزیشن پارٹیوں کی ناک کٹے بنا نہیں رہے گی۔ بلکہ ایک طرح سے تو کٹ بھی چکی ہے کہ ان کے پلے کچھ رہا ہی نہیں۔ اتنی سیٹیں بھی نہیں مل سکیں کہ با عزت گردانی جا سکیں۔ اب یہ اقتداری بھاجپا کے تلوے چاٹنے پر اتارو ہو جائیں گے۔ وہ اقتدار کے لیے رال ٹپکانے اور پوچھ ہلانے لگیں گے۔ یہ کوشش کریں گے کہ کسی طرح انہیں اقتدار میں شامل کر لیا جائے۔ چاہے کسی بھی حیثیت میں اور کسی بھی درجے پر۔ وہ جمہوریت کے اس بنیادی اصول کو بھول جائیں گے کہ اپوزیشن جتنا مضبوط ہو گا‘ اقتداری اتنا ہی پٹڑی پر چلے گا۔ آج امریکہ کے اکڑو صدر ٹرمپ اور برطانیہ کی وزیر اعظم تھریسا مے من مانی کیوں نہیںکر پا رہے ہیں؟ اس لئے کہ وہاں ان کی پارٹیوں کے ساتھ ساتھ اپوزیشن میں بھی کافی دم خم ہے۔ اگر ایگزٹ پول درست نکلے ہیں اور یہ توقع کی جا رہی ہے کہ ساڑھے تین سو ایم پی والی مودی سرکار بن جائے گی تو اس سے کیا ہو گا؟ باقی دو سو ایم پی اگر ایک ہوں تو وہ سرکار کا ناک میں دم کر سکتے ہیں۔ بھارتی جمہوریت کو عوام جمہوریت بنا سکتے ہیں‘ لیکن اپوزیشن کی آج جو دلی کیفیت ہے وہ اتنی ڈانواں ڈول ہے کہ اگر وہ کسی نہ کسی طرح سرکار بنا بھی لے گا تو اسے سال دو سال سے زیادہ نہیں چلا پائے گی۔
راہول گاندھی اپنے صوبے میں ہی پٹخنی کھا گئے‘ باقی جگہوں پر کیا کامیابی حاصل کرتے۔ اس بات میں کوئی شک نہیں کہ گزشتہ پانچ برس میں مودی نے اتنی خطرناک بھولیں کی ہیں کہ اگر کوئی قومی لیڈر ان کی ٹکر میں کھڑا ہو جاتا تو بھاجپا کی حالت کانگریس جیسی ہو جانا تھی۔ اس کے ہاتھ کچھ بھی نہیں آنا تھا۔