سپریم کورٹ آف انڈیا کے جسٹس ڈی وائی چندرا چڈ نے سچائی کی زبردست وکالت کی ہے۔ وہ چھاگلہ سمارگ پر بھاشن دے رہے تھے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگرحکومت کے آگے سچ کو جھکنا پڑے تو سچی جمہوریت کا چلنا ناممکن ہے۔ حکومت اکثر جھوٹ پھیلا کر ہی اپنا دبدبہ بنائے رکھتی ہے۔ دانشوروں کا فرض ہے کہ وہ اس جھوٹ‘ اس جعل‘ اس نوٹنکی کا پردہ فاش کریں۔ میری رائے میں یہ ذمہ داری صرف دانشوروں کی ہی نہیں ہے ‘ ان سے پہلے پارلیمنٹ اور عدالتوں کی ہے۔ جن ملکوں میں آمریت ہے وہاں پارلیمنٹ اور عدالتیں صرف ربڑ کا ٹھپہ بن کر رہ جاتی ہیں لیکن جمہوری ممالک کی عدالتوں اور پارلیمنٹ میں سرکاروں کے جھوٹ کے خلاف ہمیشہ ہنگامہ برپا رہتا ہے۔ لیکن ہم نے دیکھا ہے کہ پارلیمنٹ اور عدالتیں بھی ایگزیکٹو کی کیسے غلامی کرتی ہیں۔ ایمرجنسی کے دوران بھارتی پارلیمنٹ میں کتنے ایم پی اپنے ضمیر کی آواز کو بلند کرتے تھے؟ اندرا گاندھی کی کابینہ میں کیاایک بھی وزیر نے کبھی ایمرجنسی کے خلاف آواز اٹھائی ؟ ایمرجنسی کی بات جانے دیں‘ یوں بھی کابینہ کی میٹنگوں میں ہونے والے بڑے بڑے فیصلے جب ہوتے ہیں تو کیا ان پر دوٹوک بحث ہوتی ہے؟ کیا کوئی منتری کھڑے ہو کرسچ بولنے کی ہمت کرتاہے؟ کیا کرے وہ ایسی ہمت ؟ تبھی سوال پیدا ہوتا ہے کہ سچ بڑا ہے یا ذاتی مفاد ؟ سچ وہی بولے گا جو بے لوث ہوگا۔ بھارت میں کوئی جج ایسا فیصلہ کیوں دے گا کہ اس سے سرکار ناراض ہوجائے‘ اس کی پرموشن کھٹائی میں پڑ سکتی ہے۔ اس کا کہیں بھی تبادلہ ہو سکتا ہے اور ریٹائرمنٹ کے بعد وہ کسی بھی عہدے کیلئے اہل بھی نہیں رہے گا۔ انڈین جوڈیشری کے عہدیداروں کو کو نوکری پوری ہونے کے گورنر بننا ہے‘ سفیر بننا ہے اور کسی نہ کسی طرح کوئی نہ کوئی کرسی حاصل کرنی چاہیے۔ اگر وہ سچ پر ڈٹے رہیں گے تو کون سی سرکاران پر مہربان ہوگی؟ ایسی صورت میں امید کی آخری کرن میڈیا میں دکھائی پڑتی ہے۔ اخبار اور ٹی وی اور انٹرنیٹ بھی‘ مگر انٹرنیٹ کا کچھ بھروسہ نہیں کیونکہ اس پر لوگ من چاہی ڈینگ ہانکتے رہتے ہیں لیکن ہمارے ٹی وی چینل بھی وزرا کے اکھاڑے بن چکے ہیں۔ ان پر سنجیدہ اظہارِ خیال ہونے کے بجائے کہا سنی کا دنگل زیادہ چلتا رہتا ہے۔ وہ سچ کو ظاہر کرنے میں کم‘ اپنی ٹی آر پی بڑھانے میں زیادہ سنجیدہ دکھائی پڑتے ہیں۔ اخباروں کی صورتحال کہیں بہتر ہے لیکن وہ بھی اپنی مالی حدود سے لاچار ہیں۔ اگر وہ بالکل کھری کھری لکھنے لگیں گے تو ان کا چھپنا ہی بند ہوسکتا ہے۔ پھر بھی کئی اخبار اوراخبار نویس اور کچھ ٹی وی اینکر بھارت کی جمہوریت کی شان ہیں۔ ان کی غیر جانبداری اور دیانت داری بھارتی سرکاروں پر بندش کا کام تو کرتی ہی ہیں ان کی رہنمائی بھی کرتی ہیں۔ سچ بولنے کی ہمت جن میں ہے وہ سیاستدان‘ وہ جج اور وہ اخبار نویس ہماری جمہوریت کے سچے محافظ ہیں۔
کابل: بھارت کرے نئی پہل
کابل ہوائی اڈے پر ہوئے حملے کے جواب میں امریکہ نے دو حملے کئے۔ ایک جلال آباد اور دوسرا کابل میں۔ امریکی صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ ان قاتلوں کو مارے بغیر چین نہیں لیں گے۔ابھی تک یہ پتا نہیں چلا ہے کہ جو ڈرون حملے امریکہ نے کئے ہیں ان میں مرنے والے کون ہیں لیکن امریکی عوام کے زخموں پر بائیڈن انتظامیہ نے یہ حملے کرکے مرہم لگانے کی کوشش کی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ کی شبیہ کو اس واقعے نے گہرادھکا پہنچایا ہے لیکن حیرانی کی بات ہے کہ بھارت سرکار کی طرف سے افغانستان کے معاملے میں کوئی سرگرمی نہیں دکھائی پڑرہی ہے۔ جو بھی سرگرمی ہو رہی ہے وہ امریکہ کے اشاروں پر ہوتی ہوئی لگ رہی ہے۔ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے طور پر بھارت نے تازہ بیان جاری کیا ہے وہ بھی امریکہ کی ہاں میں ہاں ملاتا ہوا ہے۔ کابل ہوائی اڈے پر ہوئے حملے پر طالبان کو امریکہ نے بالکل بے قصور بتایا تو بھارت نے جوبیان جاری کیااس میں دہشت گردی کی مخالفت تو کی گئی تھی لیکن اس مخالفت میں کسی گروہ کا نام نہیں لیا گیا تھا جبکہ 15اگست کے بعد جو پہلا بیان تھا اس میں طالبان کا ذکرتھا۔ خلاصہ یہ کہ بھارت جنوبی ایشیا کا ایک بڑا ملک ہے اور افغان واقعات کا اثر اس پر بھی ہوتا ہے لیکن پھر بھی افغانستان کے بارے میں اس کی اپنی کوئی بنیادی پالیسی نہیں ہے۔ ہوسکتا ہے کہ ہماری سرکار کے پاس ایسی کوئی بہت زیادہ خفیہ اور نازک جانکاری ہو جس کی وجہ سے وہ طالبان سے سیدھے بات چیت کرنے سے بچ رہی ہو۔ ایسی صورت میں سرکار چاہے تو پرانے وزرائے خارجہ‘ کابل میں رہے پرانے سفیروں اور تجربہ کار ماہرین سے مدد لے سکتی ہے کہ وہ پہل کریں۔ وہ کابل میں ایک ہمہ گیر سرکار بنانے کی بات کریں اور اس کے لیے بھرپور مالی مدد دینے اور دلوانے کا وعدہ بھی کریں۔اگر وہ لوگ کابل جانے میں خطرہ محسوس کریں تو انہیں ہمسایہ ملکوں میں بھیجا جائے۔کابل کے لوگ آسانی سے ادھر آسکتے ہیں۔پاکستانی حکومت اس انوکھی بھارتیہ پہل کو شاید پسجند نہیں کرے گی لیکن ہم انہیں سمجھا سکتے ہیں کہ یہ پہل اگر کامیاب ہوگئی تو بھارت سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ یہ کتنی خوشی کی بات ہے کہ طالبان کے سینئر رہنما شیر محمد عباس ستانکزئی نے دو ٹوک الفاظ میں کہا ہے کہ طالبان سرکار بھارت سے ثقافتی‘ معاشی اور تجارتی تعلقات بڑھانا چاہتی ہے۔ انہوں نے بھارت کے ذریعے ایران سے بنائے جارہے چابہار بندرگاہ اور تاپی گیس پائپ لائن کے منصوبے سے بھی اتفاق کیا ہے۔ یہ منصوبہ ترکمانستان سے شروع ہو کر افغانستان اور پاکستان ہوتے ہوئے بھارت لایا جائے گا۔ مختصر یہ کہ یہ موقع ایسا ہے کہ جس کا فائدہ اٹھاکر بھارت چاہے تو پاک بھارت تعلقات کو نئی سمت دی جا سکتی ہے۔
امریکہ کی واپسی
تقریباً 20سال بعد امریکہ افغانستان سے واپس لوٹ چکا ہے۔ دنیا کا سب سے طاقتور ملک آج کس موڈمیں ہے؟ غالب کے الفاظ میں بڑے بے آبرو ہوکر تیرے کوچے سے ہم نکلے۔ اگر امریکہ کے طالبان سے معاملات نہ ہوتے تو کابل چھوڑتے وقت ہزاروں امریکی مارے جاتے۔جیسا کہ 1842ء میں انگریزوں کے سولہ ہزار فوجیوں میں سے ایک کے سوا‘ سب مارے گئے تھے۔ اب طالبان کا تازہ بیان ہے کہ کابل ہوائی اڈے پر 13امریکی اس لئے مارے گئے کہ وہ غیر ملکی تھے۔ غیر ملکی فوج کی واپسی کے بعد داعش خراسان گروہ اس طرح کے حملے بند کیوں کرے گا؟ اگر ایسا ہوجائے تو اچھی بات ہے لیکن مجھے نہیں لگتا کہ امریکیوں کے چلے جانے کے باوجود اس طرح کے حملے بند ہو جائیں گے۔ داعش‘ القاعدہ اور طالبان کے بیچ نظریاتی اختلافات توہیں ہی اقتدار کی لڑائی بھی ہے۔داعش کے لوگ امریکیوں کے ساتھ طالبان کی سانٹھ گانٹھ کے شدید مخالف رہے ہیں۔ وہ کابل سے طالبان کو بھگانے کیلئے ہر ممکن کوشش کریں گے۔ طالبان صرف افغانستان میں اسلامی حکومت چاہتے ہیں لیکن خراسان گروپ افغانستان‘ پاکستان‘ بھارت اور میانمار تک تک اپنا اثر و رسوخ پھیلانا چاہتا ہے۔ وہ پاکستان سے بھی کافی خفا ہے۔ وہ تحریک طالبان پاکستان کی طرح اسلام آباد کو بھی اپنا دشمن سمجھتے ہیں۔ وہ طالبان کو بھی کابل میں چین سے کیوں بیٹھنے دیں گے؟ امریکہ تو اسی سے خوش ہے کہ افغانستان سے اس کی جان چھوٹی۔وہ تقریباً اسی طرح کوریا‘ ویتنام‘ لبنان‘ لیبیا‘ عراق‘ صومالیہ وغیرہ ملکوں کو درمیان میں لٹکتا چھوڑ کر بھاگا ہے۔ بھارت ا بھی امریکہ کے ساتھ سٹا ہوا ہے لیکن اسے اس کی پرانی حرکتوں کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔ افغانستان میں شانتی اور استحکام لانے میں جو کردارخطے کے ممالک مل کر ادا کر سکتے ہیں وہ کوئی نہیں کر سکتا۔