گزشتہ برس جب کابل میں طالبان کی عبوری حکومت قائم ہوئی تو امید کی جا رہی تھی کہ گزشتہ طالبان حکومت کے مقابلے میں نئی آنے والی حکومت زیادہ لبرل اور سمجھدار ہوگی۔ اس حوالے سے کابل اور دوحہ میں کئی طالبان رہنماؤں سے میرا رابطہ بھی ہوا جو پرانے طرزِ حکمرانی کو ترک کرکے دورِ جدید کے تقاضوں کو اپنانے کا عزم ظاہر کرتے رہے۔ پرانے طالبان بھی اس بار کافی معتدل نظر آئے۔ نئے طالبان رہنما‘ جو دوسرے ممالک میں پلے بڑھے اور جو دورِ جدید کے تقاضوں کا ادراک بھی رکھتے ہیں‘کا پس منظر دیکھتے ہوئے لگتا تھا کہ وہ اپنے بزرگوں کی غلطیوں سے کچھ سیکھیں گے۔ اسی امید پر جب افغانستان میں قحط پڑا اور غریب افغان بھوکوں مرنے لگے تو بھارتی حکومت نے ہزاروں ٹن اناج اور دوائیاں کابل میں بھجوائیں اور وہاں اپنے سفارت خانے کو بھی سرگرم کردیا۔ کچھ مہینوں تک تو یہی لگتا رہا کہ یہ نئے طالبان پشتون روایات کی پیروی کریں گے اور دوحہ معاہدے کی شقوں پر من و عن عملدرآمد یقینی بنائیں گے۔ اس معاہدے پر عمل کرتے ہوئے وہ خواتین کی تعلیم کے معاملے میں ترقی پسند موقف اختیار کریں گے۔ شروع میں انہوں نے خواتین کی تعلیم کے حوالے سے کچھ ڈھیل بھی دی لیکن پھر اُنہوں نے اس حوالے سے سخت مؤقف اپنانا شروع کر دیا۔ پہلے لڑکیوں کے سیکنڈری سکول بند کرائے گئے اور اب 20 دسمبر کو افغانستان کے وزیر برائے اعلیٰ تعلیم نے نجی اور سرکاری اعلیٰ تعلیمی اداروں میں خواتین کی تعلیم پر پابندی عائد کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔ خواتین کے لیے حجاب بھی لازمی قرار دیا جا چکا ہے۔ کوئی بھی عورت اکیلی گھر سے باہر نہیں نکل سکتی۔ سرکاری دفاتر میں خواتین کے کام کرنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ طالبان کی انہی پالیسیوں کی وجہ سے افغانستان میں آج کل کہرام مچا ہوا ہے۔ان پابندیوں کے خلاف افغان خواتین نے شدید احتجاج کیا جس پر حکام نے متعدد مظاہرین کو گرفتار بھی کرلیا۔ان احتجاجوں میں خواتین اپنے حقوق کا مطالبہ کرتی رہیں اور بیرونی دنیا سے اپیل کرتی رہیں کہ ہماری مدد کریں‘ ہمیں بنیادی حقوق دلوائیں۔ مجھے ظاہر شاہ کا 55 سال پہلے کا وہ زمانہ بھی یاد ہے جب کابل یونیورسٹی میں میرے ساتھ بیسیوں لڑکیاں پڑھتی تھیں‘ درجنوں خواتین پروفیسرز بھی تھیں اور سرکاری دفاتر میں خواتین مغربی لباس پہنے بے دھڑک کام کرتی تھیں۔ تب افغانستان کی خواتین کو کسی قدغن کا سامنا نہیں تھا۔ دراصل بادشاہ امان اللہ کے زمانے (1909ء) سے جدیدیت کی ایسی لہر افغانستان میں چلی تھی کہ اس کے سامنے سارے مسلم ملک پھیکے پڑ گئے تھے۔ ہر افغان فخر کرتا تھا کہ وہ قدیم آریائی تہذیب کا علمبردار ہے۔ کابل کا آسامائی مندر‘ بامیان کا بودھ مجسمہ‘ جلال آباد کی بودھ غاریں اور کئی جین باقیات میں نے خود جاکر دیکھی تھیں۔ افغان سرکار کے کئی اعلیٰ عہدوں پر اُن دنوں کئی ہندو اور سکھ لوگ بھی فائز تھے لیکن اب تو ماضی میں طالبان کی حمایت کرنے والے بھی افغانستان چھوڑ کر باہر بھاگ رہے ہیں۔ بھارتی سفارت خانے میں ویزے کی ہزاروں درخواستیں پڑی ہیں۔ جب امریکی افواج افغانستان سے نکل رہی تھیں تب افغان عوام کا ایک جم غفیر کابل ایئر پورٹ پر موجود تھا جو کسی بھی قیمت پر وہاں سے نکلنا چاہتا تھا۔ بیشتر نوجوان تو اس حد تک چلے گئے کہ جہاز کے ٹائروں سے لٹک گئے۔ اب افغانستان میں اقتصادی بحران بڑھتاجا رہا ہے۔ وہاں بین الاقوامی امداد نہ ہونے کے برابر ہے۔ پاکستان کے ساتھ بھی طالبان کے تعلقات کشیدہ ہیں۔ افغانستان میں پناہ لیے ہوئے تحریک طالبان کے دہشت گرد ان دنوں پاکستان کے صوبہ خبیر پختونخوا اور بلوچستان کو نشانہ بنائے ہوئے ہیں۔ گزشتہ چند روز کے دوران پاکستان میں دہشت گردی کے کئی واقعات رونما ہو چکے ہیں جن میں سکیورٹی اہلکاروں کو بالخصوص نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ خیبر پختونخوا کی بنوں ڈویژن اور وزیرستان کے علاقے خاص طور پر دہشت گردوں کے نشانے پر ہیں۔ بھارت اور پاکستان کے کچھ مذہبی دانشوروں کا کہنا ہے کہ یہ طالبان خواتین کے احترام کی عظیم اسلامی روایات کو بالکل نہیں مانتے ۔ لیکن خواتین کے حقوق کو نظر انداز کرنے والے یہ طالبان خود کو عرب ممالک سے بھی زیادہ مسلمان سمجھتے ہیں جبکہ مسلم ممالک سمیت کسی نے ابھی تک طالبان حکومت کو تسلیم نہیں کیا ہے۔ اگر خواتین پر طالبان کا ظلم اسی طرح جاری رہا تو کوئی حیرانی نہیں کہ بہت جلد انہیں سخت بغاوت کا سامنا کرنا پڑ جائے گا۔ ایران میں خواتین نے اپنے حقوق کے لیے ایک بھرپور مہم چلا رکھی ہے ‘ اگر ویسے ہی حالات کابل میں بھی پیدا ہوگئے تو بھارت جیسے ممالک کو بھی اپنی افغان پالیسی پر نظرِ ثانی کرنا پڑے گی۔
ملک کی ترقی کا متبادل فلسفہ
بھارتیہ کانگرس کے ایک رہنماسلمان خورشید کے اس بیان پر آج کل بھارت میں کافی چرچا ہے کہ جہاں رام نہیں پہنچ سکتے‘ وہاں اُن کی کھڑاؤ (چپل)پہنچ جائے گی۔اُن کے اس بیان کا مطلب یہ تھا کہ راہل گاندھی جہاں جہاں نہیں پہنچ پائیںگے‘ وہاں وہاں ان کی کھڑاؤ (بیانیہ)پہنچانے کی کوشش کی جائے گی۔یہ تو سب کو معلوم ہے کہ انہوں نے راہل کو رام نہیں کہاہے‘ میں نے ان کے جملوں کو پڑھ کر نہیں‘سنا سن کر یہ لکھا ہے۔ لیکن کچھ بھاجپا رہنمائوں نے کانگرسی رہنما کے اس بیان کی یہ کہہ کر مذمت کی ہے کہ جنہوں نے راہل کو رام بنا دیا ہے‘ انہوں نے راہل کو رام نہیں بنایا ہے بلکہ صرف کھڑاؤ (بیانیے)پر زور دیا ہے۔ راہل کے جو فوٹو اخباروں میں چھپ رہے ہیں اور ٹی وی پر دکھائی پڑ رہے ہیں‘ ان میں وہ جوتے پہنے دکھائی دیتے ہیں تو پھر اُس کانگرسی رہنما کے اس بیان کا مطلب کیا نکلا؟ یہی کہ انہوں نے محاورے کا استعمال کیاہے۔ کیاکانگرس کے پڑھے لکھے رہنما بھی اتنی بڑی غلطی کرسکتے ہیں کہ راہل کو رام بتادیں۔ انہوں نے راہل کے جوتوں کوبھی رام کی کھڑاؤ نہیں بتایا‘ صرف مثال دی ہے۔کانگرس کی اعلیٰ قیادت آج کل کانگرسی رہنمائوں اور کارکنان کے دلوں میں راہل کے لیے احترام پیدا کرنے کی کوششوں میں مصروفِ عمل ہے۔ انہیں لگ رہاہے کہ راہل کے بھارت بھر میں چلنے والے پیدل مارچ سے اَدھ مری کانگرس میں جان پڑ جائے گی حالانکہ ایسا کچھ ہوتا ہوا دکھائی نہیں دے رہا۔ گجرات اور دہلی میں راہل کے اس مارچ کے دوران بھی کانگرس کو ناکامی کا سامنا کیوں کرنا پڑا؟ اگر ابھی یہ حال ہے تو مارچ کے ختم ہونے پر کیا ہو گا؟ تقریباً سبھی صوبوں میں کانگرس کے مقامی رہنماؤں آپس میں دنگل سجائے ہوئے ہیں ۔ بھارتی ریاستوں میں ان دنگلوں کو راہل کے مارچ سے زیادہ پذیرائی مل رہی ہے۔ راہل کے کچھ متنازع بیانوں نے بھی کانگرس اور ان کی شبیہ کو دھچکا پہنچایاہے۔حالانکہ اس مارچ کے دوران راہل کے طرزِ تکلم میں کافی سدھار آیا ہے۔ اس میں تو ذرا بھی شک نہیں ہے کہ اس مارچ کے بعدراہل کو اپنے والد کی وجہ سے جو پذیرائی حاصل ہوئی تھی‘ اُس میں اُن کی اپنی محنت کے بعد مزید اضافہ ہو چکا ہے۔لیکن اس سے اُن کی جماعت کانگرس کو کتنا فائدہ ملے گا‘ اس حوالے سے کوئی اندزاہ لگانا مشکل ہے۔ راہل گاندھی نے جیسے سڑکوں پر مارچ نکالا ہے‘ ویسے ہی وہ دوچار سال وہ اپنے آپ کو سیاسی طور پر پختہ کرنے پر کام کریں تو وہ یقینی طور پر اچھے سیاسی رہنما بن کر ابھر سکتے ہیں۔ بھارتی سیاست کی سب سے بڑی دقت یہ ہے کہ بھارت کے زیادہ تر سیاسی رہنماؤں کے پاس بی اے یاایم اے کی ڈ گریاں تو ہوتی ہیں لیکن فکری لحاظ سے وہ نرسری کے سٹوڈنٹس سے تھوڑے ہی بہتر ہوتے ہیں۔ راہل گاندھی کانگرس کی ڈوبتی کشتی کے کھیون ہار ہیں۔ ان کاکردار یا طرزِ عمل غیرداغدار ہے۔ صرف بھاجپا اور نریندر مودی کو کوسنے سے ان کا مارچ کامیاب نہیں ہو گا۔ یہ مارچ تبھی کامیاب ہو گا جب اُن کی طرف سے بھارت کی ترقی کا کوئی متبادل فلسفہ پیش کیاجائے گا۔