2023ء میں بھارت کی جن 9ریاستوں میں انتخابات منعقد ہونے ہیں‘ وہاں ان کا ڈنکا بج چکا ہے۔ بھارت کے شمال مشرق کی تین ریاستوں تری پورہ‘ میگھالیہ اور ناگالینڈ میں اگلے ماہ انتخابات ہونے والے ہیں۔ ان تینوں ریاستوں میں بھاجپا خود اپنے دم پر حکمران پارٹی نہیں ہے لیکن تینوں میں وہ حکمران اتحاد کا حصہ ضرور ہے۔ اب ان تینوں ریاستوں کی ساٹھ ساٹھ ودھان سبھا سیٹوں پر فروری میں چناؤ ہونے جا رہے ہیں۔ ان 60 سیٹوں میں سے 59سیٹیں ناگالینڈ میں‘ 55میگھالیہ میں اور 20 تری پورہ میں نچلے طبقے کی جاتیوں کے لیے ریزرو ہیں۔ ان ریاستوں میں کل ووٹرزکی تعداد صرف 6لاکھ 28ہزار ہے لیکن بقیہ ریاستوں میں ہونے والے انتخابات بھی ان ریاستوں کے چناوی نتائج سے کچھ نہ کچھ متاثر ضرور ہوں گے۔ بھاجپا کی خواہش اور کوشش ہے کہ جیسے مغربی بھارت کی ریاستوں اور مرکز میں بھاجپا کا ڈنکا بج رہا ہے‘ ویسے ہی شمالی بھارت کی ان ریاستوں میں بھی بھاجپا کا جھنڈا لہرائے۔ اسی لیے بھاجپا کے چوٹی کے رہنما کئی بار ان دور دراز علاقوں میں اپنا اثر جمانے کے لیے جاتے رہے ہیں۔ ان تینوں ریاستوں کی اتحادی حکومتوں میں شامل ہر بڑے اتحادی کی خواہش ہے کہ اس بار وہ واضح اکثریت حاصل کرے اور اکیلے ہی حکمران بن جائے۔ جو بھاجپا کا ٹارگٹ ہے وہی باقی سبھی اتحادیوں کا ٹارگٹ بھی ہے۔ ظاہر ہے کہ وہ اتحادی بھاجپا کے مقابلے زیادہ مضبوط ہیں۔ ان کا ووٹ بینک بھی اُن علاقوں میں کافی زیادہ ہے لیکن ان سرحدی ریاستوں کا ایک اہم رجحان یہ رہا ہے کہ مرکز میں جو بھی سرکار بنے‘ وہ اس کے رنگ میں رنگنے کی کوشش کرتے ہیں کیونکہ وہ اپنی معاشی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے مرکزی سرکار کے رحم و کرم پر ہوتے ہیں۔ ایسے میں کوئی حیرانی نہیں کہ ان تمام مقامی جماعتوں کے رہنما بھاجپا میں شامل ہو جائیں اور وہاں بھاجپا کی سرکاریں بن جائیں۔ بھاجپا اس ٹارگٹ کو پانے پر اتنی زیادہ سنجیدہ ہے کہ وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے پچھلے پارٹی خطاب میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے بھلے کی بات اٹھائی ہے۔ عیسائی ووٹرز اس علاقے میں بہت زیادہ ہیں۔ ویسے ان ریاستوں میں اگر تمام سرکاریں بھاجپا کی بن بھی گئیں تو یہ بھروسا نہیں ہے کہ بقیہ ریاستوں میں بھی اسی کی سرکاریں بنیں گی کیونکہ ہر ریاست کے اپنے اپنے سیاسی مفادات ہیں۔ تلنگانہ میں ہوئے انتخابات میں کمیونسٹ‘ سماج وادی اور عام آدمی پارٹی کے رہنمائوں نے کافی زور و شور سے اپوزیشن کا کردار نبھایا ہے لیکن اس اپوزیشن اتحاد سے کانگرس‘ ممتا بینر جی‘ نتیش کمار اور کمار سوامی جیسے اپوزیشن رہنما اب بھی باہر ہیں۔ اگر یہی صورتحال برقرار رہی تو اگلے انتخابات میں بھی بھاجپا بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کر لے گی۔
بھاجپا کی ایگزیکٹو میٹنگ
اس بار بھاجپا کی نیشنل ایگزیکٹوکمیٹی کی جو میٹنگ ہوئی ہے‘وہ تاریخی حیثیت اختیار کر سکتی ہے بشرطیکہ اس میں بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے جو کہا ہے اس پر من و عن عمل بھی کریں۔ نریندر مودی نے اس میٹنگ میں موہن بھاگوت کے نظریے کو عملی جامہ پہنانے کی بات کی ہے۔ راشٹریہ سویم سیوک سنگھ کے سربراہ موہن بھاگوت جی بارہا کہہ چکے ہیں کہ بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کا ڈی این اے ایک ہی ہے یعنی دونوں کو بھارت میں برابر کے حقوق حاصل ہونے چاہئیں۔ نریندر مودی نے اُن کے اس نظریے کو اب عملی جامہ پہناتے ہوئے کہا ہے کہ بھارت کی اقلیتوں یعنی مسلمانوں‘ کیرالا کے عیسائیوں اور دیگر پسماندہ طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کا عزم کیا جانا چاہیے۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی اور موہن بھاگوت کے منہ سے ایسی بات سن کر کون خوش نہیں ہو گا؟ میں پچھلے تین چار دن سے دبئی اور ابوظہبی میں مقیم ہوں اور اس دوران کئی عرب شیخوں سے مل چکا ہوں اور میری یہاں کی سبھی پارٹیوں اور نظریات کے لوگوں سے کھل کر بات چیت ہوئی ہے۔ مجھے ایسا لگا کہ جن لوگوں کے پاس دور اندیشی ہے‘ وہ یہ محسوس کرتے ہیں کہ اگر بھارت میں فرقہ وارانہ منافرت چلتی رہی تو آنے والے پچاس یا ساٹھ برسوں میں بھارت کے ایک‘ دو نہیں بلکہ سو ٹکڑے بھی ہو سکتے ہیں۔ بھارتی تقسیم کے اِن خدشات کے تدارک کا آغاز نریندر مودی اپنے حالیہ خطاب میں موہن بھاگوت کے نظریے کی تائید کرکے کر چکے ہیں۔ اگر بھاجپا سرکار فرقہ وارانہ ہم آہنگی پیدا کرنے اور بھارت کے پسماندہ طبقات کو آگے بڑھانے کے لیے کچھ بنیادی اقدامات پر توجہ دے تو بھارت صرف ایک دہائی میں ہی دنیا کا سب سے خوشحال ملک بن سکتا ہے۔ بھارت کی بدقسمتی یہ رہی ہے کہ اس کی اب تک کی سرکار وں کو وہ چابی ہاتھ ہی نہیں لگی جو صدیوں سے بند پڑے بھارت کے تالے کو کھول سکتی ہے۔ وہ چابی ہے‘ تعلیم اور میڈیکل میں بنیادی اصلاحات؛ تاکہ بھارت کا دماغ اور جسم مضبوط بن جائے۔ یہ بنیادی سدھار کرنے کے بجائے تمام بھارتی حکومتیں انتخابات کے دوران ریوڑیاں بانٹنے کی حکمت عملی اپناتی رہی ہیں۔ مودی سرکار نے اس معاملے میں بھی زبردست استادی دکھائی ہے۔ مودی نے کہا ہے کہ ہمیں ووٹ کے لیے نہیں بلکہ قومی مضبوطی کے لیے مسلمانوں‘ عیسائیوں اور بھارت کے دیگر پسماندہ طبقات کی خدمت کرنی ہے۔ یہ بات تو بہت اچھی ہے لیکن اسے ٹھوس شکل کیسے دی جائے گی؟ اسے سمجھنے کے لیے بھارتی رہنمائوں میں اتنی عاجزی ہونی چاہیے کہ وہ مفکرین اور دانشوروں کے ساتھ بیٹھ کر کھل کر بات چیت کریں۔ صرف نوکر شاہوں کے اشاروں پر ناچنے سے آپ اقتدار تو حاصل کر سکتے ہیں لیکن ملک کی حالت نہیں بدل سکتے۔نئی دہلی میں منعقد ہونے والی بھاجپا کی اسی نیشنل ایگزیکٹومیٹنگ میں بھارتیہ جنتا پارٹی کے قومی صدر جگت پرکاش نڈا کی مدت کار اگلے سال ہونے والے لوک سبھا انتخابات کے لیے جون 2024ء تک بڑھا دی گئی ہے۔ اس مقصد کے لیے نیشنل ایگزیکٹوز نے ایک متفقہ قرارداد منظور کی۔ نڈا کے تین سالہ دور میں بھارتیہ جنتا پارٹی کو بڑے پیمانے پر عوامی حمایت حاصل ہوئی ہے۔ بھاجپا نے ان کی قیادت میں 73 انتخابات جیتے ہیں۔ اُن کی زیر قیادت بوتھ اِمپاورمنٹ سکیم کے تحت ایک لاکھ 30 ہزار بوتھس کو مضبوط کرنے کا کام بھی کیا گیا۔ اُنہوں نے ہی تلنگانہ اور مغربی بنگال میں بھاجپا کے حق میں مضبوط ماحول بنایا۔ اُنہی کی وجہ سے لوک سبھا مائیگریشن سکیم بھی کامیاب رہی۔ اُنہی کی منصوبہ بندی کی بدولت بلاک ڈیویلپمنٹ کونسل کے انتخابات میں بی جے پی کی شہرت میں اضافہ ہوا۔ اُنہوں نے گھر گھر ترنگا ابھیان میں لوگوں میں حب الوطنی اور ترنگے کا احترام بڑھانے کا کام بھی کیا ۔ نڈا نے ہی من کی بات کو عوامی مہم بنانے کی کوشش کی۔ وزیر اعظم نریندر مودی کے یوم پیدائش پر سیوا پکھواڑا منانے اور کورونا وبا کے دوران خدمت کی تنظیم جیسے پروگرام بھی نڈا ہی کے ذہن کی اختراع ہیں۔بھارت کے مرکزی وزیر داخلہ امیت شاہ نے یقین ظاہر کیا کہ مسٹر نڈا کی صدارت میں بی جے پی 2024 ء کے انتخابات 2019ء کے انتخابات کے مقابلے زیادہ اکثریت کے ساتھ جیتے گی اور مسٹر مودی دوبارہ وزیر اعظم بن کر بھارت کی خدمت کریں گے۔ مسٹر نڈا کو دوبارہ بی جے پی کا صدر چننا کافی مناسب فیصلہ معلوم ہوتا ہے کیونکہ وہ ایسے پارٹی صدر ہیں جن کے بیانات اور طرزِ عمل قابلِ اعتراض‘ تلخ اور متنازع نہیں اور جو سبھی طبقات کو ساتھ لے کر چلنے کی خواہش رکھتے ہیں۔ اب بھارتی وزیراعظم نریندر مودی سے بھی زیادہ ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ ایسی بھاجپا تشکیل دیں جو آزادی کے فوراً بعد والی کانگرس جیسی ہو۔ اگر بھاجپا ہمہ گیر ہو جائے اور بنیادی تبدیلیوں پر توجہ مرکوز کرے تو دنیا کی موجودہ صدی ہماری صدی بن سکتی ہے۔