26جنوری کو ہر سال بھارت میں یومِ جمہوریہ کے طور پر منایا جاتا ہے۔ اِس روز ایوانِ صدر کے سامنے‘ انڈیا گیٹ یا اَب کرتویہ پتھ پر بھارتی فوج اپنی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتی ہے۔ ایوانِ صدر میں بہت بڑی پریڈ کا انعقاد بھی ہوتا ہے۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا یومِ جمہوریہ منانے کا صحیح اور بہترین طریقہ یہی ہے؟ بھارتی یومِ جمہوریہ کا اگر کوئی دوسرا سادہ نام رکھنا چاہیں تو اسے آئین کے نفاذ کا دن بھی کہہ سکتے ہیں۔ اب سے 73سال پہلے اسی دن بھارتی آئین نافذ ہوا تھا۔ اسی دن بھارتیہ جمہوریہ کی شروعات ہوئی تھی۔ اس دن بھارت کی فوجی طاقت کا مظاہرہ کیا بھارتی آئین کو کوئی طاقت فراہم کرتا ہے؟ فوجی طاقت تو سوویت یونین اور کمیونسٹ چین کے پاس بھارت سے بھی کہیں زیادہ ہے لیکن کیا اُنہیں جمہوریہ کہا جا سکتا ہے‘ وہاں تو زیادہ تر ایک ہی پارٹی یا ایک ہی فرد کی حکومت رہی ہے۔ ہم بھارتیوں نے بھی اب آزاد بھارت میں سوویت یونین کی نقل کرنا شروع کر دی۔ وہاں ہٹلر اور مسولینی کو شکست دینے والی فوجی طاقت کا ہر سال مظاہرہ کیا جاتا تھا۔ ہم بھارتیوں نے بھی وہی کام شروع کردیا ہے لیکن اس کے لیے دن ایسا چن لیا جس کا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ ایک کامل یومِ جمہوریہ کے دن فوجی نہیں بھارت کی عوامی طاقت کو یاد رکھنا‘ ظاہر کرنا اور اسے فروغ دینا زیادہ ضروری ہے۔ اب تو 26جنوری کا دن بس ایک سرکاری چھٹی بن کر رہ گیا ہے۔ لوگ گھر بیٹھ کر چھٹی مناتے ہیں۔ اس دن اگر بھارت کی مرکزی سرکار اور ریاستی سرکاریں بھارتی جمہوریہ کو مزید مضبوط بنانے کے لیے نئے عزم کا اظہار کریں تو سچ مچ بھارت اپنا یومِ جمہوریہ صحیح معنوں میں منا سکتا ہے۔ کیا ہم بھارتیوں نے کبھی سوچا ہے کہ کیا ہم مملکت کے امور پوری ایمانداری سے چلا پائے ہیں؟ کیا بھارتیوں نے اپنی عدالتوں کی حالت زار پر اس طرح کوئی غور کیا؟ چار کروڑ سے زیادہ مقدمے دہائیوں سے بھارتی عدالتوں میں لٹکے پڑے ہوئے ہیں۔ بھارت میں تعلیم اور طب کی طرح انصاف بھی نایاب ہے۔ بھارت کے نااہل‘ کرپٹ اور نکمے عوامی نمائندوں کو واپس بلا لینے کے طریقے ابھی تک کیوں نہیں بنے ہیں؟ عوام نہتے ہو کر پانچ سال تک انتظار کیوں کریں؟ آج تک بھارت میں ایک بھی سرکار ایسی نہیں بنی ہے جسے کل بالغوں کے 50 فیصد ووٹ بھی مل سکے ہوں۔ کل ووٹرز میں سے 33.35 فیصد لوگوں کے ووٹ سے بنی سرکاریں اپنے آپ کو پورے ملک کا نمائندہ کہتی ہیں۔
مودی پر فلمائی گئی ٹی وی سیریز
بھارت میں اس وقت بی بی سی کی بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے حوالے سے بنائی گئی ٹی وی سیریز کو لے کر جم کر تنازع چھڑا ہوا ہے۔ اس سیریز کا نام ہے ''ا نڈیا: دی مودی کویسچن‘‘! اطلاعات کے مطابق یہ ٹی وی سیریز 2002ء میں گجرات میں ہوئے ہندو مسلم فسادات‘ 2019ء میں نریندر مودی کے دوبارہ بھارت کے وزیراعظم منتخب ہونے اور اُن کی پالیسیوں کے تسلسل‘ ہندوستان کے 1947ء کے آئینی تصفیے کے تحت مقبوضہ کشمیر کی خصوصی حیثیت اور ایک شہریت کے قانون کے خاتمے‘ جس کے بارے میں بہت سے لوگوں نے کہا کہ ایسا کرکے مسلمانوں کے ساتھ مودی حکومت نے غیر منصفانہ سلوک کیا ہے‘ جیسے موضوعات کا احاطہ کرتی ہے۔ میں نے خود ابھی تک یہ ٹی وی سیریز دیکھی نہیں ہے لیکن بھارت کے تین سو سے زیادہ سیاسی رہنماؤں‘ افسروں اور صحافیوں نے اپنے جاری کردہ بیانات میں اس کی شدید الفاظ میں مذمت کی ہے۔ یہ ٹی وی سیریز دیکھنے والوں کے مطابق اس میں گجرات کے ہندو مسلم فسادات اور وہاں مسلمانوں کے قتلِ عام کو دکھایا گیا ہے۔ تب بھارت کی ایک بڑی سیاسی پارٹی کانگرس کی صدر سونیا گاندھی نے نریندر مودی کے لیے ''موت کا سوداگر‘‘ کے جو الفاظ استعمال کیے تھے‘ اُن کے اُسی قول کو اس ٹی وی سیریز میں فلمایا گیا ہے۔ بھارتیہ جنتا پارٹی کے رہنما اس ٹی وی سیریز کی سخت مذمت کر رہے ہیں۔ ان کی دلیل یہ ہے کہ جب بھارت کی سپریم کورٹ میں ہی نریندر مودی بے گناہ ثابت ہو چکے ہیں تو پھر ایک غیر ملکی صحافتی ادارہ کس کھیت کی مولی ہے کہ وہ سونیا گاندھی کے نریندر مودی کے حوالے سے کہے گئے الفاظ کو فلمائے۔نہ صرف مقامی بھارتی بلکہ لندن میں رہنے والے بھارتی نژاد بھی اس ٹی وی سیریز کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں اور انہوں نے یہ ٹی وی سیریز فلمانے پر بی بی سی کے خلاف برطانیہ کی عدالت کا بھی رُخ کیا ہے لیکن اس ٹی وی سیریز کے حوالے سے کوئی بھی مستند رائے تو تبھی قائم کی جا سکتی ہے جب اس سیریز کو دیکھ لیا جائے۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ سچائی نہ ادھر ہے اور نہ ہی ادھر۔ وہ کہیں بیچ میں ہے۔ گجرات میں ہوئے ہندو مسلم فسادات میں ہندو بھی مارے گئے تھے۔ جب یہ فسادات شروع ہوئے تب کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ وہ اتنی بھیانک شکل اختیار کر لیں گے۔ تب کی بھارتی سرکار کو بھی کچھ اندازہ نہیں تھا کہ یہ خون خرابہ اس کے سر تھوپ دیا جائے گا اور پھر تب نریندر مودی کو بھی بطور وزیراعلیٰ حکومت چلانے کا کوئی خاص تجربہ نہیں تھا۔ گجرات کے فسادات میں تقریباً دو ہزارسے زیادہ لوگ مارے گئے تھے۔ ان میں مسلمانوں کی تعداد بہت زیادہ تھی۔ اُن دنوں ایک بھارتی اخبار میں میری ایک تحریر چھپی تھی کہ ''گجرات میں قوم پرستی کی خلاف ورزی ہو رہی ہے۔ ایک حکمران کا فرض ہوتا ہے کہ وہ اپنے عوام کی یکساں طور پر حفاظت کرے‘‘۔ جس پر تب کے بھارتی وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کا صبح صبح مجھے فون آیا اور انہوں نے مجھ سے کہا کہ آج تو آپ نے قلم توڑ دی ہے۔ آپ نے تو میرے دل کی بات کہہ ڈالی ہے۔ اٹل بہاری جی کچھ دنوں بعد مسلمان پناہ گزینوں کے ایک کیمپ میں احمد آباد بھی گئے اور انہوں نے وہاں میری بات کودہرایا اور کہا کہ گجرات میں راج دھرم پرعمل ہونا چاہیے۔ انہی دنوں میں گجرات بھی گیا تھا۔ اس وقت کے گورنر سندر سنگھ جی بھنڈاری نے بھی ان فسادات پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے مجھ سے کہا تھا کہ آپ اٹل جی سے کہہ کر ان فسادات کے حوالے سے اُنہیں میری بھیجی ہوئی رپورٹ بھی ضرور پڑھیے گا۔ لیکن اب 20‘ 21سال بعد ان فسادات کی یاد تازہ کرنے کے پیچھے ارادہ کیا ہے؟ کیا اس ٹی وی سیریز کا مقصد بھارت کے ہندوؤں اور مسلمانوں کے درمیان پھر سے فسادات کو ہوا دینا ہے؟ یہ درست ہے کہ نریندر مودی کے دورِ حکمرانی کے دوران بھارتی مسلمان ڈرے ہوئے ہیں لیکن اس کی وجہ خود نریندر مودی نہیں بلکہ کچھ اور شدت پسند عناصر ہیں۔ مودی نے چند روز قبل پسماندہ بھارتی مسلمانوں کی بہتری کے لیے جو باتیں کہی ہیں‘ اگر وہ اُن پر من و عن عملدرآمد کرانے میں کامیاب ہو جائیں تو کیا کہنے۔ بھارت میں طلاق کے حوالے سے قانون میں ترمیم کس نے کروائی ہے؟ بھارت میں اظہارِ رائے کی مکمل آزادی ہے۔ کسی کو ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ جب بھارت نے اندرا گاندھی کے ایمرجنسی کا منہ کالا کرکے انہیں سزا دی تو اب اس کے عوام کو ڈرانے کی ہمت کس میں ہے۔ دیکھنا یہ بھی ہے کہ اس ٹی وی سیریز میں جلے بجھے گورے انگریزوں نے کہیں ہند نژاد برطانوی وزیراعظم رشی سوناک پر کسی طرح کا کوئی حملہ تو نہیں کیا ہے؟