7 نومبر2007ء کو نمازِ فجر کے بعد میرے والد محترم میاں فیض محی الدین‘ حیاتِ مستعار کے ماہ و سال مکمل کر کے خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ انّا للّٰہ وانّا الیہ راجعون۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ان کی انسانی لغزشوں سے درگزر فرمائے۔ آپ نے دورِ حاضر کے ایک مثالی مومن کی سی زندگی گزاری۔ وہ انتہائی درجے کے قناعت پسند اور مستغنی انسان تھے۔ ان کے یادگار واقعات جو ہمیں معلوم ہیں، ان سے کہیں زیادہ ایمان افروز واقعات، ان کی تعزیت کے لیے آنے والے خواتین و حضرات نے بیان کیے، جن کا مرحوم نے کبھی کسی سے‘ یہاں تک کہ ہم سے بھی تذکرہ نہیں کیا تھا۔
والدمرحوم جماعت اسلامی سے 1951ء میں متعارف ہوئے۔ یوں وہ جماعت اسلامی کے پرانے ہمدرد، معاون اور متفق تھے۔ 1978ء سے لے کر آخری دم تک جماعت کے رکن کے طور پر جماعت کے نصب العین اور مشن کے ساتھ والہانہ انداز میں وابستہ رہے۔ ان کی زندگی میں کبھی کوئی لمحہ ایسا نہیں آیا جب انہوں نے جماعت کے کسی کام اور ذمہ داری میں کوئی ذرہ برابر تساہل برتا ہو۔ آپ کی وفات پر بڑی تعداد میں احباب نے اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ مرحوم کی تفصیلی سوانح حیات لکھی جائے۔ تفصیلی حالات ہماری کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘ حصہ دوم میں محفوظ ہیں۔
میاں جی1917ء میں ضلع گجرات کے ایک چھوٹے سے گائوں چک میانہ (جوڑہ) کے نمبردار اور علاقے کے معزز زمیندار میاں فتح علی کے گھر میں پیدا ہوئے۔ وہ اپنے چھ بہن بھائیوں میں سب سے چھوٹے تھے۔ میاں فتح علی کے ہاں بہت بڑی مجلس جما کرتی تھی، جس میں اپنے گائوں کے علاوہ گرد و نواح کے چار پانچ دیہات کے لوگ باقاعدہ شریک ہوا کرتے تھے۔ اس گھریلو ماحول کی وجہ سے میاں فیض محی الدین بچپن ہی سے طبعی سادگی، مہمان نوازی اور ملنساری کے خوگر تھے۔ دادا جان مرحوم کی زندگی کی صبح اور دوپہر تو ہم نے نہیں دیکھی؛ البتہ ان کی شام نظروں کے سامنے آج بھی تر و تازہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں ایک خاص رعب عطا فرمایا تھا، جس میں شرافت و نجابت کا غلبہ تھا۔ کبھی کوئی آدمی ان کے منہ نہ آ سکتا تھا۔
ہم نے بچپن ہی سے والد گرامی قدر کو دیکھا کہ وہ عام انسانوں کے ساتھ انتہائی مہربان اور بے تکلف ہو جایا کرتے تھے مگر شر پسند عناصر کو سبق سکھانے کے لیے ہر وقت کمر بستہ رہتے تھے۔ بغیر کسی لاٹھی اور ہتھیار کے جب کسی شخص کو گردن سے پکڑ لیتے تو گرفت اتنی مضبوط ہوتی کہ فردِ متعلقہ کی آنکھیں اور زبان باہر نکل آتی۔ جب کوئی شخص توبہ تائب ہو جاتا تو اس سے وعدہ لیتے کہ آیندہ کبھی تمہیں اس حال میں نہ دیکھوں۔ اس کا نتیجہ یہ تھا کہ ایسے عناصر ہمیشہ ان سے کنی کتراتے تھے۔ سرکاری افسران سے بھی وہ بڑی جرأت کے ساتھ بات چیت کرتے تھے۔ ہمارے علاقے میں ہمارے بچپن میں تمباکو کی کاشت بہت ہوا کرتی تھی۔ تمباکو پر کوئی ایکسائز ٹیکس لگا کرتا تھا۔ افسران اس معاملے میں اپنی عادت کے مطابق معائنے پر آتے تو رشوت اور ٹیکس چوری کی ترغیب دیتے۔ والد صاحب ان کے خوب لتے لیتے۔ عام کاشت کار سمجھتے کہ کوئی مصیبت پڑ جائے گی مگر ان افسران کو معلوم ہو گیا کہ اس گائوں میں تشخیص میں گڑ بڑاور رشوت کا حصول ممکن نہیں۔ ایک مرتبہ علاقے کے ایک گائوں دھکڑانوالی میں اپنے دوستوں کے ہاں مہمان تھے کہ وہاں پولیس نے چھاپہ مارا۔ اس گائوں میں دو متحارب دھڑوں کے درمیان پرانی دشمنی تھی جس کی وجہ سے کئی قتل ہو چکے تھے۔ اس سلسلے میں پولیس بار بار مطلوب افراد کی تلاش میں چھاپے مارتی تھی۔ پولیس کپتان سے یہاں بھی والد صاحب کی جھڑپ ہو گئی۔ آخر پولیس کپتان کو ان سے تعارف ہوا تو ان سے معذرت کی۔
یہ جری مومن 6 نومبر 2007ء کو رات کے پہلے حصے میں کینسر کی وجہ سے شدید تکلیف میں تھے مگر اللہ کی حمد زبان پر تھی۔ آدھی رات کے بعد میں نے سب اہل وعیال کو کہا کہ آپ لوگ سو جائیں، میاں جی کے پاس میں رہوں گا اور تلاوت بھی کرتا رہوں گا۔ وہ سب سو گئے، میں گھنٹہ ڈیڑھ گھنٹہ آپ کے پاس بیٹھا قرآن پاک پڑھتا رہا، اس دوران کبھی محسوس ہوتا کہ سکون سے سو گئے ہیں کبھی بے چینی سے اٹھ بیٹھتے۔ میری آنکھوں میں اس شب بار بار آنسو آئے۔ مجھے محسوس ہو رہا تھا کہ سر سے چھپراڑ جانے والا ہے اور دعائوں کاسہارا چھن جانے والا ہے۔ جو پیار بھرا چہرہ آنکھوں کے سامنے تھا، نامعلوم کب پردہ پوش ہو جائے، جو چراغ روشنی دیتا تھا، اللہ جانے کب گل ہو جائے۔ وقت سحر تھا اور چراغِ سحری بجھا چاہتا تھا۔
فجر کی اذان کے وقت آپ سکون سے سو گئے۔ اب گھر کے دیگر افراد بھی ان کے پاس موجود تھے۔ میں نماز پڑھنے مسجد چلا گیا، یہ 7 نومبر کا دن تھا۔ اس روز فجر کی نماز اور معمول کے درسِ قرآن سے فارغ ہو کر میں اور طلحہ میاں گھر پہنچے تو شیخ سدیس کی آوازمیں تلاوت لگی ہوئی تھی اور سورۃ القیامہ پڑھی جا رہی تھی۔
والد محترم اس وقت بہت تکلیف میں تھے مگر اللہ تعالیٰ نے کمال صبر و حوصلہ عطا کیا تھا۔ مجھے اشارے سے کہا کہ اس کیسٹ کو بند کر دو۔ میں نے عرض کیا: کیا تلاوت نہ کریں؟ اشارے سے سمجھایا کہ تم خود تلاوت کرو، میں ان کے پاس بیٹھ کر تلاوت کرنے لگا۔ باقی سب لوگ بھی تلاوت کر رہے تھے۔ اچانک اٹھ کر بیٹھ گئے۔ میں ان کے پیچھے بیٹھ گیا اور اپنے سینے کے ساتھ ان کی پشت لگا لی۔ تھوڑی دیر بعد انہوں نے نہایت پھرتی کے ساتھ اپنی گردن مغرب کی طرف موڑ لی جبکہ پہلے ان کا رخ جنوب کی طرف تھا۔ دیوار کی طرف عقابی نگاہوں سے ایک نظر دیکھا، ''سلامٌ قولاً من ربٍّ رّحیم‘‘ کے الفاظ ادا کیے اور پھر گردن میرے کندھے پر ڈھلک گئی۔
میں نے انہیں بستر پر لٹا دیا، ہاتھ اور پائوں سیدھے کیے۔ اپنے ماموں زاد میاں عبدالماجد اور ان کے بچوں کو‘ جو قریب ہی اپنے گھر میں تھے‘ ٹیلی فون کر کے بلایا۔ سب لوگ بلند آواز سے کلمہ طیبہ کا ورد کرنے لگے۔ ایک بار نگاہ کھول کر سب لوگوں کی طرف دیکھا، پھر کوئی آواز نہیں آئی، لب ہلتے رہے۔ دوبارہ گہری سانس لی تو سب لوگوں کی زبان پر انّاللہ کا ورد جاری ہو گیا۔
ہمارے میاں جی رخصت ہو چکے تھے۔ گھر میں موجود سب لوگ، چھوٹے اور بڑے‘ آنسوئوں سے رونے لگے۔ خواتین کی زبان پر بھی جذباتِ غم آئے مگر سب نے اس صابر اور بہادر انسان کی زندگی کو یاد کر کے خود پر قابو پا لیا۔ ہر ایک دوسرے کو حوصلہ اور تسلی دے رہا تھا۔ ہمارے بہنوئی حاجی عبدالوحید (ابو وقاص) بچوں کی طرح پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ میں نے بڑی مشکل سے ان کو حوصلہ دیا اور چپ کرایا۔ مجھے سب سے زیادہ فکر اپنی بڑی ہمشیرہ محترمہ کی تھی۔ وہ زار و قطار رو رہی تھیں مگر اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ زبان سے انا للہ ہی پڑھ رہی تھیں۔ میں غم سے نڈھال بھی تھا مگر دل میں ایک عجیب سکینت بھی محسوس کر رہا تھا کہ میرے والد گرامی میرے محسن، میرے مربی، میرے دوست، میرے غم گسار زندگی کی نوے (90) بہاریں گزار کر اپنے اللہ سے کیا ہوا عہد نبھا گئے۔وہ منزل سے ہم کنارہو گئے اور ہمارے لیے اچھی مثال چھوڑ گئے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور انسان ہونے کے ناتے ان کی بشری کمزوریوں اور لغزشوں سے درگزر فرمائے۔
گائوں میں اپنے چھوٹے بھائی عزیزم میاں محمد یوسف کو میں نے میاں جی کی وفات سے کچھ دیر قبل فون کر کے بتایا تھا کہ وہ کھیتوں پر نہ جائیں نہ کسی اور مصروفیت کا پروگرام بنائیں بلکہ گھر پر ہی رہیں۔ وہ صورتِ حال کو سمجھ گئے تھے۔ اب انہیں ٹیلی فون پر اطلاع دی تو ایک بار خود میرا بھی ضبط و صبر کا بندھن ٹوٹ گیا۔ بہرحال اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ بحیثیت مجموعی میاں جی کے سب لواحقین نے صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا۔ 11بجے منصورہ میں نمازِ جنازہ ادا کرنے کا فیصلہ ہوا جبکہ گائوں میں بعد نمازِ مغرب جنازے کا وقت طے ہوا۔ برسبیلِ تذکرہ عرض ہے کہ میاں جی نے اپنی بیماری کے دوران بہت ہلکے پھلکے انداز میں اور مسکراتے ہوئے اظہار کیا کہ اگر انہیں منصورہ میں جنازہ نصیب ہو جائے تو ان کی خوش قسمتی ہو گی۔
منصورہ میں قاضی حسین احمد مرحوم نے جنازے کے وقت والد مرحوم کے بارے میں اپنی حسین یادوں سے ہمارے دلوں کو تقویت دی۔ میاں طفیل محمد مرحوم نے بینائی نہ ہونے کے باوجود جنازہ پڑھایا اور مجھ سے گلے مل کر روتے ہوئے تعزیت فرمائی۔ گاؤں میں شام کو جنازہ ہوا۔ علاقے بھر سے اور گرد ونواح کے اضلاع سے بہت بڑی تعداد میں احباب نے جنازے میں شرکت کی۔
میری تنہائیوں میں والد مرحوم اب بھی اپنی معطریادوں کی بدولت میرے ساتھ موجود ہیں۔