سود کی ممانعت کا حکم

ارشاد باری ہے: یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَأْکُلُوا الرِّبَآ ۔ (آلِ عمران30:130) اے لوگو جو ایمان لائے ہو! یہ بڑھتا چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو۔ سود کا حرام ہونا قرآن وسنت میں بالکل واضح ہے۔ اگر ایک شخص خود کو مسلمان کہتا ہے تو اسے اس بات کا کوئی حق نہیں کہ وہ سود کے حرام ہونے پر قران وسنت کے دلائل کے بعد مزید دلائل طلب کرے۔ ہاں البتہ ایک غیرمسلم سوال کرسکتا ہے کہ اسے موجودہ دور کے معاشی نظام کے تناظر میں دلائل سے قائل کیا جائے کہ سود ممنوع اور حرام ہے۔ یہودیوں پر اللہ کی لعنت اور پھٹکار تا قیامت ان کا مقدر ہے‘ اس کا بڑا سبب ان کی سودخوری کو قرار دیا گیا ہے۔ (النساء:160-161)
ہم اس تحریر میں اہلِ اسلام کو مخاطب کرنا چاہتے ہیں۔ غیرمسلم طبقات کے لیے مسلم معیشت دانوں ہی نہیں کئی غیرمسلم ماہرینِ معاشیات نے بھی ثابت کیا ہے کہ سود دولت کو چند ہاتھوں میں مرتکز کرتا ہے اور اس کی سرکولیشن کو بریک لگا کر غربت اور کساد بازاری میں اضافے کا موجب بنتا ہے۔ جن ملکوں میں سود کی شرح کم ہوتی ہے‘ ان کی معاشی افزائش ان ملکوں سے زیادہ ہوتی ہے جہاں شرح سود زیادہ ہو۔ مولانا سیدابوالاعلیٰ مودودیؒ نے اپنی کتاب ''سود‘‘ میں اور دیگر مسلم علما بالخصوص ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اپنی کتاب ''غیرسودی بنکاری‘‘ میں بھرپور دلائل سے ثابت کیا ہے کہ انسان کے معاشی مسائل اور فلاح کا راستہ غیرسودی نظامِ معیشت کا نفاذ اور عشروزکوٰۃ کی بحالی میں مضمر ہے۔ سود کی شرح کی کمی بیشی کا تعلق اس کے جواز یا عدم جواز سے نہیں۔ سود کی شرح کم ہو یا زیادہ یہ ہر صورت میں حرام ہے اور اس پر کوئی سمجھوتہ اسلام میں ہرگز ممکن نہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سودی معیشت اور زکوٰۃ وعشر پر مبنی نظام کا بہترین موازنہ انسانوں کے سامنے رکھ دیا ہے۔ ارشاد باری ہے: جو سود تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے‘ اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو‘ اس کے دینے والے درحقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں۔ (الروم:39)
اہلِ اسلام کے لیے حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اسوۂ حسنہ اور قولِ فیصل ہے۔ حجۃ الوداع کے موقع پر آپ کے خطبہ مبارک میں علی الاعلان یہ حکم نبویؐ جاری ہوا کہ تمام سودی قرضوں پر سود ساقط کردیا گیا ہے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس اعلان اور حرمت سود کی تنفیذ کا آغاز اپنے چچا حضرت عباسؓ بن عبدالمطلب کی تمام سودی رقوم کو ساقط کرنے سے فرمایا۔ آپ کا ارشاد ملاحظہ فرمائیے:
دیکھو، ہر قسم کا سود (جو کسی کا کسی پر نکلتا ہو) ساقط کردیا گیاہے ‘ البتہ تمہارے راس المال (یعنی اصل زر) تمہارے لیے ہیں‘ (ان میں) نہ تم زیادہ کرو گے (اگر تم نے کسی کو رقم دی ہو) اور نہ تمہارے ساتھ زیادتی کی جائے گی۔ (اگر تم نے کسی سے رقم لی ہو) اللہ تعالیٰ نے فیصلہ کردیا ہے کہ اب کوئی سود (ربا) نہیں اور عباس بن عبدالمطلب کا تمام سود ساقط کردیا گیا ہے۔ (خطبۂ حجۃ الوداع، صحیح بخاری ودیگر کتبِ صحاح)بنوثقیف عرب کا بہت بڑا قبیلہ تھا۔ وہ جب قبولِ اسلام کے لیے مدینہ منورہ آئے تو قبولِ اسلام کے لیے انہوں نے جو شرائط پیش کیں ان میں یہ بھی تھی کہ ان کے لیے سودی کاروبار کو جائز قرار دیا جائے۔ حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی شرط کو یکسر مسترد کردیا اور فرمایا کہ سود اللہ اور رسولؐ کے خلاف جنگ ہے۔ جب یہ لوگ مسجد میں آتے‘ صحابہ کی تلاوت سنتے‘ فرض نمازوں میں اہلِ ایمان کی صف بندی اور نماز میں ان کی محویت کا عالم دیکھتے‘ صحابہ کی شب بیداری اور راتوں کو آہ و زاری اور اللہ سے مغفرت کی طلب کے مناظر دیکھتے تو ان کے دل گواہی دیتے کہ یہ سچے اور اللہ والے لوگ ہیں۔ یہی کامیاب و سرخ رو ہوسکتے ہیں۔ علمی و عقلی دلائل و براہین بھی دلوں کا زنگ اتارنے اور دماغوں کے عقدے کھولنے میں مفید ہوسکتے ہیں مگر حقیقت یہ ہے کہ اسلام کا عملی نمونہ ہی کسی شخص کو قبولیتِ حق پر مائل کرسکتا ہے۔
دنیا میں جب بھی لوگوں نے اسلام قبول کیا ہے تو ایک بہت بڑی تعداد ان میں سے ان لوگوں پر مشتمل رہی ہے جو اہلِ ایمان کے عملی نمونے سے متاثر ہو کر اسلام کا حصہ بنی ہے۔ سودی نظام کے مقابلے میں اگر عالم اسلام میں اسلامی اور غیرسودی معیشت کا چلن عام ہوجائے تو خدا گواہ ہے کہ ان کی معاشی بدحالی خوش حالی میں بدل جائے گی۔ وہ قرضے مانگنے کے لیے عالمی ساہوکاروں اور سودی مافیا کے سامنے ناک رگڑنے کے بجائے قرض دینے کے قابل ہوجائیں گے۔ سودی معیشت سے حقیقت میں غیرمسلم دنیا بھی تنگ ہے۔ اگر وہ یہ عملی نمونہ دیکھیں گے تو خود وہ بھی غیرسودی معیشت کو ترجیح دیں گے۔
''اے لوگو جو ایمان لائے ہو‘ خدا سے ڈرو اور جو کچھ تمہارا سود لوگوں پر باقی رہ گیا ہے‘ اسے چھوڑ دو‘ اگر واقعی تم ایمان لائے ہو۔ لیکن اگر تم نے ایسا نہ کیا‘ تو آگاہ ہوجائو کہ اللہ اور اس کے رسولؐ کی طرف سے تمہارے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اب بھی توبہ کرلو (اور سود چھوڑ دو) تو اپنا اصل سرمایہ لینے کے تم حق دار ہو۔ نہ تم ظلم کرو‘ نہ تم پر ظلم کیا جائے۔ تمہارا قرض دار تنگ دست ہو تو ہاتھ کھلنے تک اسے مہلت دو‘ اور جو صدقہ کردو، تو یہ تمہارے لیے زیادہ بہتر ہے‘ اگر تم سمجھو۔‘‘ (البقرۃ۲:۲۷۸-۲۸۰)
پاکستان کے دستور میں سود کو حرام قرار دیا گیا ہے۔ 1973ء میں جب یہ دستور پارلیمان میں منظور ہوا تو حرمتِ سود پر عمل درآمد کے لیے حتمی تاریخ دے دی گئی تھی۔ اس تاریخ کے گزرنے پر بھی حکومت پاکستان سود کی ممانعت پر تیار نہ ہوئی تو جماعت اسلامی اور دیگر اسلامی تنظیمات وشخصیات نے عدالت میں حرمتِ سود کے لیے رٹ دائر کی۔ اس پر جب بھی عدالتوں نے سود کی حرمت کے حق میں فیصلہ دیا تو حکومت وقت اور بنکوں نے اس کے خلاف اپیل دائر کی۔ وفاقی شرعی عدالت نے پہلی بار 1992ء میں سودی معیشت کو حرام قرار دیا۔ اس کے بعد بھی جب اس فیصلے کے خلاف اپیلیں کی گئیں تو عدالتِ شرعیہ نے ایک سے زیادہ مرتبہ سودی نظام کے خلاف عدالتی فیصلے سنائے۔ اس کے باوجود حکومتوں نے اپنی ضد اور بنکوں نے اپنی ڈگر نہ چھوڑی۔ اس وقت بھی یہ قانونی جنگ جاری ہے۔ حکمران کہتے تھے کہ آج کے دور میں سود کے بغیر معیشت کو چلانا ناممکن ہے۔
اللہ کا شکر ہے کہ ان سطور کی تحریر کے وقت آج مورخہ 10؍نومبر2022ء کو وزارت خزانہ نے سابقہ موقف سے رجوع کا عندیہ دیا ہے۔ تمام ملکی اخبارات اور ذرائع ابلاغ میں یہ خبر شہ سرخیوں کے ساتھ چھپی ہے۔ الحمدللہ اس طویل عدالتی جنگ کے بعد اب حالات اس ڈگر پر آپہنچے ہیں کہ وزیرخزانہ اسحاق ڈار کو یہ کہنا پڑا ہے کہ ہم قرآن وسنت کے مطابق اسلامی بنکنگ نظام ٹائم فریم کے اندر تیزی سے نافذ کرنے کی کوشش کریں گے۔ عدالتوں سے حکومتی اپیلیں واپس لینے کا بھی اعلان کیا گیا ہے۔ وفاقی شرعی عدالت نے معیشت کو سود سے پاک کرنے کا جو فیصلہ دیا تھا اس کی اور اس کیس میں کوشش کرنے والے تمام فریقوں کی یہ اخلاقی وقانونی فتح ہے۔
وزیرخزانہ کے اس پبلک اعلان کا ہم خیرمقدم کرتے ہیں۔ یہ خوش آئند ہے تاہم اصل سوال یہ ہے کہ حکومت اپنے وزیرخزانہ کے اس بیان کو کتنی اہمیت دیتی ہے۔ بہرحال ہمیں اس ملک میں معیشت کو سود سے پاک کرنے کے لیے اپنی عوامی اور قانونی جنگ جاری رکھنی ہے‘ جب تک اس اعلان پر مکمل طور پر عمل درآمد شروع نہ ہوجائے۔
جو لوگ مسلمان ہونے کے باوجود ذہنی اور عملی طور پر حرمتِ سود کے بارے میں عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہیں ان کی خدمت میں آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم کی وہ حدیث پیش کرنا ہمارا فرض ہے‘ جس میں آپؐ نے سودی معیشت کو سب سے بڑا جرم قرار دیا ہے۔ کسی بھی دوسرے جرم کے بارے میں اتنی سخت وعید نہیں سنائی گئی۔ سنن ابن ماجہ اور سنن بیہقی کی روایت ہے: سود کے ستر اجزا ہیں جن میں سے ہلکا ترین جرم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔
اے اہلِ پاکستان! اسلام تمام مشکلات کا حل ہے۔ اسلامی نظام کے نفاذ سے اللہ کی رحمتیں ہم پر نازل ہوں گی‘ اس کی نصرت ہماری شاملِ حال ہوگی۔ ہم ذلت وپستی کے گڑھے سے نکل کر عزت وبلندی کی طرف سفر کریں گے۔ ہنود ویہود سودی معیشت کے سرپرست ہیں۔ ہندو بنّیا اور ساہوکار‘ یہودی شائیلاک اور بنکار ہمیشہ لوگوں کا خون چوستے رہے ہیں۔ اہلِ ایمان کے بدترین دشمن انہی دونوں کو قرار دیا گیا ہے۔ سودی معیشت ظلم وجور کی بدترین مثال ہے‘ جسے اقبال نے مرگِ مفاجات کہا ہے۔ چند مگرمچھ مخلوقِ خدا کا خون نچوڑ لیتے ہیں۔ مخلوقِ خدا کو اپنے برے بھلے کی پہچان کرنی چاہیے۔ معاشی خودکشی کے بجائے غیرسودی نظامِ معیشت کے لیے متحد ہو کر کھڑے ہونے سے مسائل حل ہوں گے۔
ظاہر میں تجارت ہے ، حقیقت میں جوا ہے
سود ایک کا لاکھوں کے لیے مرگِ مفاجات!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں