اسلام زندہ ہوتا ہے ہر کربلا کے بعد!

عشق کی اِک جَست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسماں کو بیکراں سمجھا تھا میں
تاریخِ انسانی میں اعلیٰ کردار کے حامل افراد نے ہر دور میں حق کی خاطر قربانیاں دی ہیں۔ ان قربانیوں میں شہیدِ کربلا کا اسم گرامی نمایاں ہے۔ اقبال نے کہا تھا:
غریب و سادہ و رنگیں ہے داستانِ حرم
نہایت اس کی حسینؓ، ابتدا ہے اسماعیل ؑ
واقعہ کربلا ہماری تاریخ کا المناک ترین باب ہے ۔حضور پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی رحلت کے نصف صدی بعد آپﷺ کے محبوب نواسے کو ان کے پورے اہل و عیال کے ساتھ اس بے دردی کے ساتھ تہ تیغ کر دینا اموی حکومت کے دامن پر سیاہ ترین دھبہ ہے۔ اس کا سبب محض یہ تھا کہ اموی حکمران یزید کی حکومت باقی نہ رہ سکتی تھی اگر امام حسینؓ زندہ رہتے ۔یزید اور اس کے لائو لشکر نے جس سنگدلی اور شقاوت کا مظاہرہ کیا وہ ہر لحاظ سے قابلِ مذمت ہے ۔ان واقعات کا علمی تجزیہ تو ہونا چاہیے مگر افراط و تفریط کا شکار ہو کر تاریخ کو اپنی من مانی تعبیر کے سانچے میں نہیں ڈھالنا چاہیے۔مستند واقعات کی کسوٹی پر تمام کرداروں کو پرکھاجائے تو ہر ایک کا درست تعارف سامنے آجاتا ہے۔
یزید تاریخ کا ایک ایسا کردار ہے کہ جس پر سبّ و شتم کی بوچھاڑ ہوتی ہے۔ دوسری جانب ردعمل کے طور پر کچھ لوگ یزید کی پارسائی اور مناقب بیان کرنے کا محاذ سنبھال لیتے ہیں۔ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہؒ نے نہایت معتدل اور مبنی برحق موقف بیان فرماتے ہوئے کہا کہ یزید کے بارے میں تین گروہ پائے جاتے ہیں۔ ایک گروہ اس کی تحسین و تعظیم کرتا اور اس سے محبت کا اظہار کرتا ہے۔ دوسرا گروہ اس پر سبّ و شتم اور لعنت بھیجتا اور اس کی تکفیر تک ضروری سمجھتا ہے۔ تیسرا موقف ہمارا ہے کہ ہم نہ اس سے محبت کرتے ہیں، نہ اس کی تعظیم و تحسین اور نہ ہی اس کو گالیاں دیتے ہیں۔ (مفہوم از فتاویٰ شیخ الاسلام ابن تیمیہ) یزید میں کئی کبائر اور بڑی بڑی برائیاں تھیں اور خلافت کے اعلیٰ منصب کا تو وہ کسی بھی لحاظ سے اہل نہیں تھا۔ اس کے خلاف صحابہ کرامؓ کا موقف مبنی برحق تھا۔ یہ بالکل الگ موضوع ہے کہ اس کا تختہ کیوں نہ الٹا جا سکا۔ اس کے تخت پر براجمان ہونے کو قطعاً دلیل قرار نہیں دیا جاسکتا کہ وہ حق پر تھا۔اگر اس دلیل کو تسلیم کر لیا جائے تو پھر فرعون اور نمرود جیسے تمام حکمرانوں کو بھی برحق ماننا پڑے گا جو کہ سرا سر خلافِ حقیقت ہے ۔
حضور پاکﷺ کے تربیت یافتہ اور اسلام کے نظامِ خلافت کو جاننے والے صحابہ کرام بخوبی سمجھتے تھے کہ یزید اپنے کردار کے لحاظ سے خلافت کی عظیم ذمہ داری کے لیے بالکل نااہل ہے۔ ان حالات میں اہلِ حجاز کے مشورے سے حضرت عبد اللہ بن زبیرؓ نے حجاز میں اپنی خلافت قائم کی اور یہاں کے تمام لوگوں نے ان کے ہاتھ پر برضا و رغبت بیعت کی۔ دوسری طرف اہلِ کوفہ نے ہزاروں کی تعداد میں خطوط لکھ کر حضرت حسین بن علیؓ کو کوفہ آنے کی دعوت دی، یہ سب واقعات تاریخ میں محفوظ ہیں۔ ابن اثیر ج: 2، ص: 250، تاریخ طبری، ج: 4، ص: 225، الکامل لابن الاثیر، ج: 2، ص: 49 تا 50 پر وہ تمام تفصیلات موجود ہیں جو اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ یزید حضرت معاویہؓ کا بیٹا ہونے کے علاوہ کسی لحاظ سے بھی اس قابل نہیں تھا کہ کوئی فرد یہ سوچتا کہ زمامِ اقتدار اس کے ہاتھ میں ہونی چاہیے۔
صحابیٔ رسول حضرت احنف بن قیسؓ کے بارے میں ابن الاثیر نے صراحت سے لکھا ہے کہ اگرچہ وہ حضرت معاویہؓ کے قریبی ساتھی تھے لیکن ان کی اس سوچ سے کہ وہ اپنے بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کریں‘ انہیں سخت اختلاف تھا۔ جب حضرت معاویہؓ نے ان سے اس موضوع پر رائے لینا چاہی تو انہوں نے صاف لفظوں میں فرمایا کہ آپ کے سامنے سچی بات کہتے ہوئے لوگ ڈرتے ہیں لیکن خداخوفی کا تقاضا ہے کہ بات سچی کی جائے۔ امیر المومنین! آپ بخوبی جانتے ہیں کہ یزید کی راتیں کہاں بسر ہوتی ہیں اور دن کیسے گزرتے ہیں۔ آپؓ کے سامنے اس کا ظاہر و باطن سب عیاں ہے۔ پھر آپ اسے کس طرح اپنا جانشین بنا رہے ہیں؟ حضرت معاویہؓ حلیم الطبع انسان تھے۔ اپنے دوست کی اس بات سے بد مزہ تو ہوئے لیکن خاموشی اختیار کی۔ البتہ انہوں نے مصمم ارادہ کر رکھا تھا کہ اپنے بیٹے کو اپنا جانشین بنائیں گے۔ کبار صحابہ کرام کی مخالفت کے باوجود حضرت معاویہؓ نے اپنے نااہل بیٹے کو اپنا جانشین مقرر کر دیا۔ البتہ تاریخ میں مذکور ہے کہ انہوں نے یزید کو کئی مرتبہ نصیحت کی کہ اگر کبھی سیدنا حسین بن علیؓ سے معاملہ پیش آجائے تو نرمی اور درگزر کا رویہ اپنانا۔ انہوں نے سیدنا حسینؓ کے مناقب بھی بیان کیے مگر مناقب بیان کرنے سے کیا ہوتا ہے جبکہ فیصلہ نااہل کے حق میں صادر ہوجائے۔
یزید کی خلافت پورے عالمِ اسلام میں قبول نہیں کی گئی تھی۔ عراق، حجاز، مصر اور دیگر بہت سے علاقوں میں یزید کی مخالفت کی جارہی تھی۔ اہلِ کوفہ نے حضرت امام حسینؓ کو نہ صرف خطوط لکھے بلکہ کئی وفود بھی ان کی خدمت میں بھیجے۔ ان لوگوں کے مسلسل اصرار اور پُر زور مطالبے پر آپؓ نے عراق کی طرف رختِ سفر باندھا۔ اس دوران مکہ، مدینہ اور پورے حجاز میں موجود صحابہ کرامؓ یزید کی ناجائز حکومت اور سیدنا حسینؓ کے سفرِ کوفہ پر اپنے اپنے خیالات کا اظہار کر رہے تھے۔ اکثر صحابہؓ کی رائے یہ تھی کہ امام حسینؓ کو حجاز ہی میں مقیم رہنا چاہیے۔ اہلِ کوفہ کے بارے میں حضرت عبد اللہ بن عباسؓ اور حضرت حسینؓ کے تایازاد بھائی اور بہنوئی حضرت عبد اللہ بن جعفرؓ کی جچی تلی رائے یہ تھی کہ وہ قابلِ اعتماد لوگ نہیں ہیں۔
اس کے باوجود سیدنا حسینؓ نے کوفہ جانے کا فیصلہ کیوں کیا؟ جہاں تک انسانی تدبیر، حکمت اور دور اندیشی کا تعلق ہوسکتا ہے، حضرت امام حسینؓ نے بلاشبہ اس کا اہتمام کیا تھا۔ انہوں نے خود کوفہ جانے سے قبل اپنے معتمد ساتھی اور تایا زاد بھائی حضرت مسلم بن عقیلؓ کو کوفہ بھیجا۔ انہوں نے کوفہ جاکر حالات کا جائزہ لیا اور مفصل خط میں موافق اور سازگار حالات کی رپورٹ دی۔ بعد میں اچانک جو حالات نے پلٹا کھایا تھا، اس کی اطلاع سیدنا حسینؓ تک بروقت نہیں پہنچ پائی تھی۔ راستے میں ایک مقام پر آپؓ کو اس دور کا مشہور شاعر فرزدق ملا جو کوفہ سے آرہا تھا۔ وہ آپؓ کا بڑا مداح تھا۔ اس سے آپؓ نے وہاں کے احوال پوچھے تو اس نے واضح الفاظ میں کہا ''قلوب الناس معک وسیوفھم مع بنی امیہ‘‘ (الکامل ج: 3، ص: 277) یعنی ان کے دل تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ان کی تلواریں بنو امیہ کے ساتھ ہوں گی۔ یہ ایسا مرحلہ تھا کہ اس رپورٹ پر یہاں سے واپسی اختیار کرنا کمزوری کی دلیل بن جاتا۔
کوفہ میں بنو امیہ کی طرف سے حضرت نعمان بن بشیرؓ گورنر تھے۔ ہر چند کہ گورنر دربارِ بادشاہت کا مقرر کردہ تھا مگر وہ خود بھی موروثی بادشاہت پر انشراحِ صدر نہیں رکھتے تھے۔ دوسری جانب بصرہ کا گورنر عبید اللہ بن زیاد، حضرت معاویہؓ کا معتمد ترین شخص تھا مگر ان کی وفات کے بعد یزید بوجوہ اس سے نالاں تھا اور اسے معزول کرنے کا ارادہ رکھتا تھا۔ حضرت مسلم بن عقیلؓ کی بیعت کی اطلاعات گورنر ہائوس کے علاوہ دمشق کے شاہی دربار میں بھی پہنچ رہی تھیں۔ بنو امیہ نے جاسوسی کا ایک بہت مؤثر نظام قائم کر رکھا تھا اور کمال یہ ہے کہ دورِ جدید کی طرح عام طور پر کسی جاسوس کے بارے میں کسی کو علم نہیں ہوتا تھا کہ یہ سرکاری کارندہ ہے۔ جاسوسوں کو بڑی بڑی رقوم سے نوازا جاتا تھا۔ جاسوسوں کے ذریعے حضرت نعمان بن بشیرؓ کی شکایات مسلسل یزید کو مل رہی تھیں۔ کسی جاسوس نے ان سے ملاقات کرکے کہا کہ حکومت کے خلاف یہاں بغاوت ہو رہی ہے اور آپ گورنر ہوتے ہوئے خاموش ہیں۔ یا تو آپ کمزور ہیں یا آپ کے عزائم کچھ اور ہیں۔
نعمان بن بشیرؓ جاسوس کے ارادوں کا ادراک نہ کر سکے اور انہوں نے کہا: میں گورنری کی قوت کو استعمال کرکے احکامِ الٰہی کے خلاف سرکشی اور خلقِ خدا پر ظلم نہیں ڈھا سکتا۔ جاسوس نے فوراً یہ اطلاع دمشق بھیج دی۔ اس پر یزید نے اپنے کچھ معتمد درباریوں سے مشورہ کیا تو انہوں نے اسے کہا کہ اگر آپ کے والد آج زندہ ہوتے تو وہ ابن زیاد کی خدمات سے ضرور فائدہ اٹھاتے۔ اس مشاورت کے بعد حضرت نعمانؓ کو معزول کر دیا گیا اور ظالم عبیداللہ بن زیاد کو کوفہ کی بھی گورنری سونپ دی گئی۔ (جاری)

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں