پاکستان عالم اسلام کا واحد ملک ہے جس نے ایٹمی قوت بننے کا اعزاز حاصل کیا۔ یہ الگ بات ہے کہ اس اعزاز کو ہمارے اربابِ حل و عقد نے اپنی نااہلی سے بے وقعت بنا دیا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر نے جو خدمت سرانجام دی، اس کا بدلہ ان کو رسوائی اور تنہائی کی صورت میں دیا گیا۔ مرحوم کو عالمی استعماری قوتوں کے دبائو پر بے حمیت حکمرانوں نے حد سے زیادہ تنگ کیا۔ ڈاکٹر صاحب تو عالمی شہرت کے حامل سائنس دان تھے، یہاں تو اب صورت حال یہ ہے کہ ایک مسلم پولیس ملازم نے جہادِ فلسطین میں شرکت کی اجازت طلب کی ہے۔ وہ ملک کی سرحدوں سے نکل کر کہیں نہیں گیا‘ صرف جانے کی اجازت مانگی ہے۔ اس ''جسارت‘‘ پر اس کا پولیس افسر غصے سے بپھر گیا ہے جیسے اس کا تعلق اسرائیل سے ہو۔ اخباری خبر ملاحظہ فرمائیے:
''کراچی میں ایک پولیس انسپکٹر کو فلسطین جہاد میں جانے کی اجازت مانگنے پر معطل کر دیا گیا ہے، ڈی آئی جی سائوتھ نے بتایا کہ مذکورہ انسپکٹر نے آئی جی سندھ کو خط لکھ کر قوانین کی خلاف ورزی کی۔ پولیس انسپکٹر کے فلسطین جہاد میں جانے کی اجازت کے معاملے پر ڈی آئی جی سائوتھ کا کہنا ہے کہ خط لکھنے پر انسپکٹر کو عہدے سے ہٹا دیا گیا، اس نے خط لکھ کر قوانین کی خلاف ورزی کی۔ وہ ایس ایس پی انویسٹی گیشن سٹی کے دفتر میں تعینات تھا‘‘۔ (16 اکتوبر2023ء)
اس خبر کو پڑھتے ہوئے مجھے کئی واقعات یاد آئے۔ مفتی اعظم فلسطین نے پاکستان کے ایٹمی قوت بننے پر فرمایا تھا کہ یہ محض پاکستان کے لیے نہیں پورے عالم اسلام کے لیے ایک اعزاز ہے۔ آج مفتی اعظم فلسطین اس واقعہ کو سنتے تو ان پر کیا گزرتی۔ سوال یہ ہے کہ وہ کون سا قانون ہے جس کی درخواست گزار نے خلاف ورزی کی ہے؟ اے محسن پاکستان! تیرے ساتھ جو کچھ ہوا، وہ انتہائی سنگدلانہ حرکت تھی۔ اس کا غم تجھی کو نہیں لاتعداد لوگوں کو تھا اور ہے۔ تُو ایک بڑی شخصیت تھی۔ اس معمولی سرکاری ملازم کو بھی یہاں کے غلامانہ نظام نے ظلم کا نشانہ بنایا ہے۔ عظیم انسانوں کو زندگی میں ان کی قوموں نے شاذ و نادر ہی ان کا حق ادا کیا ہے۔ جب وہ دنیا سے چلے جائیں، تو لوگ روتے اور نوحہ کرتے ہیں۔ ان میں کئی تو واقعی رو رہے ہوتے ہیں اور کئی بہروپیے مگرمچھ کے آنسو بہاتے ہیں۔ یہ سب پہچانے جا سکتے ہیں اور تاریخ ان کو ان کی اصلی تصویر میں محفوظ بھی کر لیتی ہے۔
عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہل وطن
یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ
آج اس اخباری خبر نے دل کے زخم تازہ کر دیے ہیں۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خان مرحوم شدت سے یاد آ رہے ہیں۔ بھوپال کی سرزمین پر جنم لینے والی اس عظیم شخصیت سے زندگی میں صرف تین مرتبہ ملاقات ہوئی۔ ایک بار گجرات میں اور دو بار منصورہ‘ لاہور میں۔ ان ملاقاتوں میں جو چند باتیں باہمی تبادلہ خیال کے دوران ہوئیں ان کی ایک دھیمی سی تصویر اب تک ذہن میں موجود ہے۔ ڈاکٹر عبدالقدیر خان بھوپال میں یکم اپریل 1936ء کو ایک پختون نسل سے تعلق رکھنے والے معزز گھرانے میں پیدا ہوئے۔ بھوپال میں آپ کا خاندان کئی صدیوں سے مقیم تھا جو بہت عزت و قدر کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
آپ کے والد عبدالغفور خان سرکاری سکول میں معلم تھے جنہوں نے تدریس کے علاوہ وزارتِ تعلیم کے دیگر شعبوں میں بھی بطور افسر خدمات سرانجام دیں۔ڈاکٹر صاحب کی والدہ بھی پشتون نسل سے تعلق رکھتی تھیں اور بہت دینی سوچ رکھنے والی گھریلو خاتون تھیں۔ عبدالقدیر خان صاحب نے زندگی بھر مذہب سے جس طرح اپنا تعلق قائم رکھا، اس میں ان کے والدین بالخصوص ان کی والدہ مرحومہ کا بہت بڑا کردار ہے۔ آپ نے بھوپال میں میٹرک کا امتحان پاس کیا اور 1952ء میں بھوپال سے ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ آپ کا خاندان بہت سارے رشتہ داروں کے ساتھ کراچی میں آباد ہوا۔
ڈاکٹر صاحب اسلام آباد میں مقیم رہے، مگر صوبہ سندھ اور کراچی سے اپنا تعلق آخری دم تک خوب نبھایا۔ اپنی بیماری کے دوران انہوں نے نہایت آزردگی کے ساتھ کہا کہ ملک کے حکمرانوں اور سیاست دانوں میں سے کسی کو توفیق نہ ہوئی کہ میری مزاج پرسی ہی کر لیں سوائے میرے صوبے کے وزیر اعلیٰ مراد علی شاہ کے۔ واضح رہے کہ مراد علی شاہ نے مرحوم کے جنازے میں بھی شرکت کی جبکہ اصحابِ اقتدار میں سے کوئی بھی قابل ذکر شخصیت ان کے جنازے میں شامل نہ ہوئی۔ اس وقت کے وزیرداخلہ شیخ رشید احمد کی ذمہ داری لگا دی گئی کہ وہ آخری رسوم کا اہتمام کرا دیں، مگر شاہ فیصل مسجد میں جنازے کے دوران سائونڈ سسٹم ایسا ناقص و ناکارہ تھا کہ ہزاروں نمازیوں تک آواز نہ پہنچ سکی۔
دو سال قبل ستمبر‘ اکتوبر میں ڈاکٹر صاحب کورونا کے مرض میں مبتلا ہوئے تو انہیں ہسپتال میں داخل کرایا گیا۔ اس دوران بعض شرپسندوں نے اپنی سوشل میڈیا پوسٹوں میں یہ بات مشہور کر دی کہ ڈاکٹر صاحب وفات پا گئے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے اس کے جواب میں فوری طور پر ہسپتال سے بیان جاری کیا کہ وہ اللہ کے فضل سے روبصحت ہیں۔ پھر ہسپتال سے گھر آ گئے۔ ڈاکٹر صاحب کے مدّاح خوش تھے کہ ڈاکٹر صاحب کو اللہ تعالیٰ نے صحت دے دی ہے کہ ڈاکٹر صاحب کو 10 اکتوبر 2021ء کی صبح اپنے گھر میں خون کی الٹی ہوئی اور خالقِ حقیقی سے جا ملے۔ ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے وہ ماہ و سال جو ابتلا میں گزرے انتہائی دلدوز تھے۔ وفات کی خبر پر جو لوگ ڈاکٹر صاحب کی تعریف و توصیف میں بیان بازیاں کر رہے تھے ان بہروپیوں کا حال چکبست نارائن نے کیا خوب بیان کر دیا ہے۔
اس کو ناقدریٔ عالم کا صلہ کہتے ہیں
مر چکے ہم تو زمانے نے بہت یاد کیا
ڈاکٹر عبدالقدیر خان نے تقسیمِ ہند کے دوران غیر مسلم آبادی کی طرف سے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم کو اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ انہیں پاکستان سے عشق کی حد تک محبت تھی۔ یہ عشق زندگی بھر ان کے رگ و ریشے میں موجزن رہا اور انہوں نے ثابت کر دیا کہ سچے عاشق اپنے معشوق کے لیے ہر قربانی دینے کے لیے تیار رہتے ہیں۔ دورانِ تعلیم اپنے گھریلو حالات اور معاشی مشکلات کی وجہ سے بی ایس سی کرنے کے بعد ڈاکٹر عبدالقدرخان نے تین سال میٹروپولیٹن کارپوریشن کراچی میں ملازمت کی۔ اس دوران انہوں نے سکالرشپ کے لیے کوشش کی تو انہیں جرمنی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے سکالرشپ مل گئی۔ آپ نے 1961ء میں برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی میں میٹریل سائنسز میں داخلہ لیا۔ یہاں ان کا ریکارڈ بہت شاندار تھا۔ ان کا خاص موضوع جس میں انہیں امتیازی حیثیت حاصل ہوئی میٹرلرجی تھا۔ یہاں سے انہوں نے ہالینڈ‘ جسے نیدر لینڈز بھی کہا جاتا ہے‘ جانے کا فیصلہ کیا۔
بھوپال سے تعلق رکھنے والی ادبی شخصیات اپنے نام کے ساتھ بھوپالی لکھا کرتی تھیں۔ ڈاکٹر صاحب کی جنم بھومی بھی بھوپال ہے۔ آپ بے مثال سائنس دان ہونے کے ساتھ ایک اچھے شاعر بھی تھے۔ اس حوالے سے ایک قابل ذکر بات البتہ یہ ہے کہ جب آپ پر ملک سے غداری کا الزام لگا اور آپ سے جبراً پرویزی دورِ حکومت میں اعترافِ جرم پر دستخط کرانے کی سازش ہوئی تو آپ نے آغاز میں کھل کر کہا ''میری جنم بھومی بھوپال ہے، تاریخ گواہ ہے کہ یہاں کبھی کوئی غدار پیدا ہوا ہے نہ ہی قادیانی‘‘۔ ان چند الفاظ میں مرحوم نے اپنے محب وطن اور غیور مسلمان ہونے کے ساتھ نبیٔ رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذاتِ اقدس سے اپنی محبت و عقیدت اور ختم نبوت کا دفاع کرنے کا دوٹوک اعلان کیا ہے۔
ڈاکٹر خان مرحوم کو بجا طور پر محسن پاکستان کہا جاتا ہے۔ ان کی خدمات کے عوض انہیں بہت سے حکومتی اعزازات سے نوازا گیا، مگر افسوس کہ ان کے ساتھ زندگی کے آخری حصے میں جو سلوک کیا گیا وہ انتہائی شرمناک اور بے حمیتی کی بدترین مثال ہے۔ بزدل حکمرانوں نے بیرونی قوتوں کے سامنے بھیگی بلی بن کر محسن پاکستان کو محرم سے مجرم بنا دیا۔ ڈاکٹر صاحب اس جبری اعتراف پر مجبور کر دیے گئے۔ یہ ساری واردات کیسے ہوئی؟ ڈاکٹر صاحب نے خود اس کو بیان کر دیا تھا۔ ڈاکٹر عبدالقدیر مرحوم تصوّف کی طرف خاصے مائل تھے۔ وہ اس تصوّف کے ہرگز قائل نہ تھے جو عمل کی جگہ بے عملی کو رواج دے۔ ان کے نزدیک تصوّف اسی صورت میں قابلِ قبول ہو سکتا ہے جب وہ بندے کے باطن کو پاک صاف کرے اور اس کے ظاہر کو اللہ اور اس کے رسول کے احکام پر یکسوئی کے ساتھ، ہرحال میں کاربند رہنے کے قابل بنائے۔ اس کا اظہار انہوں نے اپنی ایک ملاقات میں تبادلہ خیالات کے دوران مجھ سے فرمایا تھا۔ ڈاکٹر صاحب نے یورپ میں بھی نماز روزے کی پابندی کا ہمیشہ اہتمام کیا۔
مرحوم نے اسلام کے انقلابی پیغام کو سید ابوالاعلیٰ مودودی کے لٹریچر سے اخذ کیا۔ جب آپ صحافت کے شعبے میں بطور کالم نویس داخل ہوئے، تو ان کے کالموں میں اسلام کی تاریخ، نظریات، اخلاقیات اور نظام کے بارے میں بہت معتبر دلائل پڑھنے کو ملتے۔ قرآن کی آیات کا حوالہ ہر کالم میں نظر آتا۔
سندھ پولیس کے انسپکٹر! تمہارے جذبے کو سلام۔ ہم اہلِ اقتدار سے پوچھتے ہیں کہ اگر تم نے بزدلی کی چادر اوڑھ لی ہے تو تمہیں مبارک، مگر مذکورہ انسپکٹر کو معطل کرنے کا کون سا قانونی ضابطہ تمہارے پاس ہے۔ پاکستان کا ہر غیرت مند نوجوان فلسطینیوں کے ساتھ ہے اور اسرائیل پر دو حرف بھیجتا ہے۔