قارئین محترم! راقم الحروف کا ایک کالم بعنوان ''دریچۂ دل‘‘ ایک ہفت روزہ جریدے میں باقاعدگی سے چھپا کرتا تھا۔ یہ ربع صدی سے زائد عرصہ تک جاری رہا۔ پھر مدت ہوئی ''دریچۂ دل‘‘ کوقفل لگ گیا۔اس محفل میں دوست احباب جس شوق و محبت سے مکتوبات کے ذریعے شرکت فرماتے، وہ یادگار رہے گا۔ اس دوران مجھے بہت سے دوست تحریر اً اور زبانی پیغامات کے ذریعے توجہ دلاتے رہے کہ دریچہ کھولا جائے، مگر میں نے ہر بار معذرت کی۔ احباب سے ایک بار پھر معذرت کرتا ہوں کہ ان کی فرمائش پوری نہ کرسکا۔ آج یہ محفل روزنامہ ''دنیا‘‘ کے کالم ''صدائے درویش‘‘ میں سجائی جارہی ہے۔ دنیا میں اللہ کے کئی بندے شہرت ،گلیمر اور پبلی سٹی کے فتنوں سے محفوظ ہوتے ہیں۔اپنی زندگی درویشی اور یادِ خدا میں گزارتے ہیں۔ ان لوگوں کا تذکرہ حدیث پاک میں کئی بار نبی محترم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی زبانی صحابہ کرامؓ نے سنا اور اس تذکرے کوہم تک بلا کم و کاست پہنچایا۔ سنن ابن ماجہ نے ایک حدیث حضرت عمر بن خطابؓ سے روایت کی ہے۔ آپؓ فرماتے ہیں: ''میں (ایک شب) مسجد نبوی میں آیا تو دیکھا کہ معاذ بن جبلؓ آنحضورﷺ کی قبر کے پاس بیٹھے زاروقطار رو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا: آپ کس وجہ سے رو رہے ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا: میں نے رسول اللہﷺ سے سنا۔ آپﷺ نے فرمایا : ریاکاری، خواہ معمولی سی ہو، شرک ہے۔ آپﷺ نے مزید فرمایا: اللہ تبارک و تعالیٰ فرماتا ہے کہ جس کسی نے میرے کسی دوست سے دشمنی کی تو میری طرف سے اس کے خلاف اعلانِ جنگ ہے۔ اللہ تعالیٰ ان لوگوں سے محبت کرتا ہے جو نیک، متقی اور گمنام ہوتے ہیں، اگر غائب ہو جائیں تو ان کے بارے میں کوئی پوچھتا بھی نہیں، اگر آ جائیں تو ان کو کوئی اہمیت نہیں دیتا، نہ ان سے کوئی خیرخیریت دریافت کرتا ہے، یہ لوگ ہیں جن کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، وہ ہر اندھیرے اور گمراہی سے کامیابی کے ساتھ گزر جاتے ہیں ‘‘۔
بہت دن پہلے مجھے ایک عالمِ ربانی، درویشِ خدا مست ، حضرت مولانا عبدالبر کا خط موصول ہوا ہے۔ اس میں محترم مولانا نے اللہ کے ولی، مردِ مجاہد ، شہیدِ وفا ڈاکٹر نذیراحمد شہیدؒ کے بارے میں میرے ایک مختصر مضمون (مطبوعہ ' روزنامہ دنیا‘) کا حوالہ دے کر اپنی یادوں کے معطر پھول پیش کیے۔ مولانا محترم تحریر فرماتے ہیں:
''عزیزم عبدالواسع کی زبانی کبھی کبھار آپ کا سلام پہنچتا رہتا ہے۔ (عبدالواسع مولانا موصوف کے فرزندِ ارجمند ہیں)
محترم! شہید وفا ڈاکٹر نذیراحمدؒ کے بارے میں آپ کا مضمون پڑھا اور دل نے چاہا کہ میں بھی آپ کے نام کچھ تاثرات لکھوں۔ آپ سے میرا کافی محبت بھرا تعلق ہے۔ آپ کا نام تو پہلی دفعہ معاہدہ تاشقند1965ء کی صبح سنا کہ جمعیت کے ساتھی حافظ محمد ادریس بھی حوالہ زندان ہو گئے۔ اس وقت میں ''لائل پور‘‘ میں اشاعت العلوم کا طالب علم تھا۔
تو بات ہورہی تھی شہید وفا کی۔ میں 1970ء میں جامعہ عربیہ سرگودھا میں مدرّس تھا اور وہاں دوپروگراموں میں داکٹر نذیر احمد شہید تشریف لائے تھے۔ چھوٹی لحیہ والے مجھے طبعاً اچھے نہیں لگتے تھے لیکن جب ان کی پہلی تربیتی تقریر سنی تو ایسی محبت پیدا ہوئی کہ ان کے دیدار سے سیر نہ ہورہاتھا۔انہوں نے تحریک اسلامی کے مشن کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ منزل تک جانے کا راستہ یہی ہے اسی پر چلو اورتیز چلو یہ بھی نہ ہوسکتا ہوتو راستہ میں بیٹھ جاؤ اور لوگوں کو کہو کہ جانے کا راستہ یہی ہے۔ اسی راستے پر جانا ایمان اور اپنی جگہ جامد و ساکت کھڑا ہونا منافقت ہے۔ اسی پر چلو اور جان لو کہ واپس بھاگ کھڑے ہونا تو ارتداد ہے۔ حلف رکنیت کے مطابق صحیح فرمایا۔ آپ نے یہ بھی کہا تھا:
''یہ قدم قدم بلائیں یہ سواد کوئے جاناں۔ وہ یہیں سے لوٹ جائے جسے زندگی ہوپیاری‘‘۔ (یہ شعر عامر عثمانی مرحوم کا ہے جو بھارت میں جماعت اسلامی کے بہترین مدافعت کار تھے۔ ڈاکٹر صاحب اکثر دیگر اشعار کے ساتھ یہ شعر اپنے خطابات میں پڑھا کرتے تھے) ایک نشست میں مَیں نے کہاکہ آپ کے پاؤں دباؤں؟ انہوں نے فرمایا کہ نہیں! جیل کی زندگی سے میری عادت بن گئی ہے کہ جب تھک جاتا ہوں تو زمین پر لیٹنے سے آرام آجاتا ہے۔ میرے بارے میں کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہیں تو اس آدمی نے کہا کہ ایک مدرسہ کا استاد ہے۔ تو ڈاکٹر صاحب نے فرمایا کہ ہمیں علما سے خدمت کرانے کی بجائے ان کی خدمت کرنا چاہیے۔
ایک سوال کے جواب میں فرمایا کہ میں نے اپنے کچھ حالات لکھے تھے لیکن دوبارہ اس کا مطالعہ کیا تو دل میں کچھ تکبر سا پید اہو گیا۔ اور اس تحریر کو نذرِ آتش کردیا۔ ایک اور سوال کے جواب میں فرمایا: ''جب میں نے کالج میں داخلہ لیا تو وہاں ''مسجد مرثیہ خوان تھی کہ نمازی نہ رہے‘‘ میں نے مسجد اوراس کے آس پاس کو صاف کیا اور اذان دینی شروع کی، ساتھیوں کو نماز ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی اور اسی طرح اور کارِ خیر کی طرف توجہ دلائی تو کسی نے کہا کہ جوکام آپ کرتے ہیں اسی طرح کا کام جماعت اسلامی کے افراد بھی کرتے ہیں۔ آپ ان سے ملئے تو میرا ''طفلانہ ‘‘ جواب یہ تھا کہ وہ میر اساتھ کیوں نہیں دیتے ‘‘۔
ان دو تربیتی نشستوں سے خواہش بنی کہ تعطیلات کے دومہینے ان کی تربیت میں گزاروں لیکن ''اے بسا آرزو کہ خاک شد‘‘۔
ان کی شہادت کی خبرجامعہ عربیہ سرگودھا میں مولانا عبداللہ علویؒ کے فرزند ابوالوفا محمود نے مجھے سنائی۔ رسول کریمﷺ نے فرمایا کہ ''ان من البیان لسحراً‘‘ اور یہی کیفیت میں نے ڈاکٹر صاحب کے بیان میں محسوس کی تھی‘‘۔
والسلام
مولانا عبدالبر، مہتمم جامعہ مفتاح العلوم ،
شیرگڑھ، تخت بھائی، ضلع مردان
مولانا محترم کی تحریر سے قاری کو اندازہ ہوتا ہے کہ آپ کا حافظہ کس قدر مضبوط ہے۔ نصف صدی سے زائد عرصے کی باتیں اور واقعات آپ نے پوری جزرسی کے ساتھ سینہ قرطاس پر منتقل فرمائی ہیں۔ ڈاکٹر نذیر شہید ایسی جامع شخصیت کے مالک تھے کہ ان سے جو بھی اور جہاں بھی ملا، ان کی محبت و عقیدت کا اسیر ہو گیا اور بے شمار حکمت کے موتی اور دعوتِ حق کے جواہر حاصل کرنے میں کامیاب ہوا۔ مولانا عبدالبّر صاحب نے اپنی ملاقات میں ڈاکٹر صاحب سے جن چیزوں کے بارے میں استفسار کیا اورپھر ڈاکٹر صاحب نے جو جواب دیے وہ بہت ایمان افروز ہیں۔ یہ مکتوب لکھنے پر ہم مولانا محترم کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ مولانا محترم نے ہمارا مختصر مضمون ''دنیا‘‘ میں پڑھا ہو گا۔ ویسے شہید کا کسی قدر تفصیلی تعارف اور حالاتِ زندگی ہماری کتاب ''عزیمت کے راہی‘‘ جلد اول میں از صفحہ 19 تا 40 درج ہیں۔
ضمناً ''صدائے درویش‘‘ کے آنگن سے دریچہ کے تذکرے اور اس کی ویرانی پر جو سطور نوکِ قلم پر آ گئیں، ان سے ایک اور یاد بھی ذہن میں تازہ ہو گئی ہے۔ وہ شاید قارئین کے لیے کسی خاص اہمیت کی حامل نہیں ہو گی مگر مجھے اس کی یاد ہمیشہ افسردہ کرنے کا موجب بنتی ہے۔ ہماری آبائی چوپال (پنجابی میں دارا) ہمارے گھر سے متصل تھی۔ اسی احاطے میں ہماری جامع مسجد بھی ہے۔ چوپال میں برنے اور بیری کے سایہ دار درخت ہوا کرتے تھے۔ گرمیوں میں ان کا سایہ اتنا گھنا اور ٹھنڈا ہوتا تھا کہ ان کے نیچے چارپائیوں پر بیٹھے اور لیٹے ہوئے لوگ بڑا لطف اٹھاتے۔ ظہر کی نماز کے بعد ان درختوں کا سایہ ہمارے گھر کی چھت پر بھی آ جایا کرتا تھا۔ میں نے اپنی تین نسلوں کو یہاں محفلیں جماتے اور کئی بار بعض لوگوں کے درمیان تنازعات کے فیصلے کرتے دیکھا اور سنا۔ دادا جان مرحوم اور نانا جی مرحوم کے دور کو بچپن میں ہی دیکھا۔ پھر اپنے والدِ محترم، تایا جان اور ماموں صاحبان مرحومین کے دور میں بھی یہ منظر دیکھے۔
اب نہ وہ درخت ہیں نہ وہ چوپال، نہ وہ فیصلہ کرنے والے ہیں، نہ چوپال کی رونقیں، ''دریچۂ دل‘‘ کی طرح ویرانی سی ویرانی ہے! اب یہ چوپال ہمارے خاندان کے افراد، میرے بھائی، بھانجے، بھتیجے اور دیگر عزیز اپنی حویلی میں لگاتے ہیں۔ اللہ ان کو سلامت رکھے۔ عمارتیں زیادہ خوب صورت اور پختہ ہو گئی ہیں مگر عمارتوں کی رونق اور شان وہ دانش مند بزرگان ہوتے ہیں جن کی ہر مجلس میں ہر طالب کو کچھ موتی اور ہیرے اپنے دامن میں سمیٹنے کا موقع مل جاتا ہے۔ میں جب بھی گائوں جاتا ہوں تو آنکھوں کے سامنے ایک بار وہ منظر تازہ ہوتا ہے جس سے مجھے چھوٹی عمر ہی سے محبت تھی اور اس سے بہت کچھ سیکھنے کا موقع اللہ تعالیٰ نے فراہم کیا۔
تحریکی زندگی میں بانیٔ تحریک مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ اور ان کے دور کے قائدین، ارکانِ شوریٰ و عاملہ اور کئی بزرگان (بشمول ڈاکٹر نذیرؒ) سے 5؍اے ذیلدار پارک، اچھرہ میں یادگار ملاقاتیں رہیں۔ وہ مجالس بھی اب قصۂ ماضی بن چکی ہیں۔ اب ایسی مجالس و محافل کا شدید فقدان ہے۔ ان میں ڈاکٹر نذیر شہید کا خاص مقام تھا۔ جو دوست ان محفلوں کا حال جاننا چاہیں تو کتاب ''5؍اے ذیلدار پارک‘‘ اور ''عزیمت کے راہی‘‘ جس کی آٹھ جلدیں چھپ چکی ہیں جبکہ نہم چھپنے کے لیے تیار ہے، دیکھ سکتے ہیں۔ کچھ عرصہ کے بعد ان شاء اللہ ویب سائٹ ڈویلپ ہو جائے گی تو اس پر بھی یہ سب دیگر کتابوں کے ساتھ دستیاب ہوں گی۔